پہنچ گیے ہیں پھر الیکشن کے دوار پر
تحریر : محمد ہاشم اعظمی مصباحی نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یوپی انڈیا پہنچ گیے ہیں پھر الیکشن کے دوار پر
پہنچ گیے ہیں پھر الیکشن کے دوار پر
ہمارے ملک کی سیاست میں مسلمانوں کی صورتحال دن بدن ابتر ہوتی جارہی ہے ہندوستان کی آزادی کے بعد 1952ء کے پہلے لوک سبھا الیکشن میں صرف 11 مسلمان منتخب ہوکر پارلیمنٹ پہونچے تھے
جس کے لیے 42 مسلم امیدوار میدان میں تھے۔ حالانکہ 1980ء میں سب سے زیادہ 49 سیٹوں پر اور 1984ء میں 42 مسلمان کام یاب ہوکر پارلیمنٹ پہونچے تھے مسلمانوں کے لیےصرف 84-1980 کا ہی وہ خوشگوار دور تھا
جب مسلمان 49 اور 42 کے بڑے نمبر کے ساتھ لوک سبھا پہنچے تھے۔ اس کے بعد سے یہ نمبرنیچے گرتا چلا گیا اور آبادی کا فیصد اوپر اٹھتا چلا گیا جہاں ملک کی سیاسی جماعتوں نے مسلم لیڈر شپ پر توجہ نہیں دیا وہیں ہم نے بھی اپنے آپ کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
اس وقت ملک کی 5 ریاستوں میں الیکشن چل رہا ہے سیاسی گلیاروں میں ہر طرف ہلچل مچی ہوئی ہے خاص طور سے یوپی میں جسے سیاست کا گڑھ کہا جاتا ہے یہی وہ ریاست ہے جہاں سے مرکز کا راستہ طے ہوتا ہے پورے ملک کی نظر یوپی کے حالیہ الیکشن پر ہے اس
بار کا الیکشن بہت زیادہ اہمیت کا حامل اس لیے ہے کہ یہ الیکشن در اصل فرقہ پرستوں اور سیکولر طاقتوں کے بیچ جنگ کی حیثیت رکھتا ہے
اب دیکھنا ہے کہ اس بار ووٹرس کے سامنے مہنگائی ، بے روزگاری ، دیہاڑی مزدورں کی بے بسی ، آکسیجن کی کمی اور گنگا میں تیرتی لاشیں مدعا بن پاتی ہیں یا لوگوں میں ابھی بھی فرقہ پرستی کا خمار باقی ہے
رواں الیکشن اس معنی میں زیادہ اہم اس لیے بھی ہے کہ اس بار ’سیکولر‘ بنام ’کمیونل‘ الیکشن ہو رہا ہے 80 بنام 20 کی لڑائی کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے
اس سے قبل جتنے بھی انتخابات ہوتے تھے ان میں ’سیکولر‘ پارٹیوں کے درمیان مقابلہ آرائی ہوتی تھی ذات پات کی سیاست کے باوجود روٹی، کپڑا اور مکان ہی اہم موضوع ہوا کرتے تھے لیکن اب روٹی، کپڑا اور مکان ایشو نہیں ہے
اس سیاسی منظر نامہ میں مسلمان کہاں کھڑے ہیں کیا حسب سابق وہ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے نام پر پھر کسی جھانسے میں آجائیں گے یا سیاسی ہو شمندی اور بہتر حکمت عملی کا مظا ہرہ کریں گے
یاد رہے کہ موجودہ حالات میں ہر سیاسی پارٹی پہلے سے کہیں زیادہ مسلمانوں کا سیاسی استحصال کرنے پر تُلی نظر آتی ہے مسلم تنظیموں اور خاص طور سے مسلمانوں کو اس بات کا شدت سے احساس بھی ہے کہ ان کی بات سننے والا کوئی نہیں ہے
انھیں صرف ’ووٹ بینک‘ کی طرح استعمال کیا جاتا رہا ہے اسی کے بیچ اس سیکولر ہندوستان میں ووٹوں کی گنتی کے سہارے سیاسی حصہ داری کا سوال بھی بڑی تیزی سے اٹھایا جارہا ہے
کوئی کہتا ہے کہ مسلمانوں کو جھوٹی ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں اپنا حق اور سیاسی حصے داری چاہئے یو پی میں سب کو حصہ ملا لیکن مسلمانوں کو ان کا حق نہیں ملا جس سے سیکولرازم کے نام پر مسلمان اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں
کوئی کہتا ہے کہ آج مسلمان جو لاچار ہیں صرف اس لیے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر ان کے حصے کو سیاست کی قبر دفن کر دیا ہے اے آئی ایم آئی ایم لیڈر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے کہا کہ یوپی میں 19 فیصد مسلمان ہیں اور 9 فیصد یادو ہیں لیکن سی ایم کوئی یادو ہی بنے گا
اور ہمیں چپراسی کی نوکری بھی نہیں ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اکھلیش اور مایاوتی سے کوئی بات ہوگی تو مسلم آبادی کے تناسب سے حصہ داری پر بات ہوگی
سیاسی مبصرین کے مطابق بھارتی سیاست میں مسلمانوں کی کم ہوتی حصہ داری یقیناً قابل افسوس اور باعث تشویش ہے لیکن اب جب کہ الیکشن سر پر ہو تو اس وقت سیاست میں حصہ داری کی مانگ کرنا چہ معنی دارد ہے؟
اگر 7 فیصد والا یادو سی ایم بنتا ہے تو اس کے پیچھے اس کی محنت ہے اس کی اپنی لیڈر شپ ہے کوئی راتوں رات سی ایم نہیں بن جاتا ہے پہلے زمین پر کام کرتا ہے اس کے لیےاپنا بیک گراؤنڈ تیار کرتا ہے پھر سی ایم کی کرسی تک پہنچتا ہے
آپ کے پاس کون سا بیک گراؤنڈ ہے جذباتی تقریروں اور نعروں کے علاوہ یوپی میں آپ نے کون سا زمینی کام کیا ہے اپنا کون سا بیک گراؤنڈ تیار کیا ہے آپ کے پاس نہ گرام پردھان , نہ نگرپالیکا چئیرمین، نہ بلاک پرمکھ , نہ ضلع پنچایت ممبر پھر کس بنیاد پر حصہ داری چاہیے
سیاست میں صرف تعداد کی بنیاد پر حصہ داری کی بات کرنا سنگلاخ سرزمین پر گلاب کا پھول اُگانے کے مترادف ہے بنیاد کو مضبوط کیے بغیر چھت کی تعمیر ہر صاحب ہوش و خرد کی سمجھ سے بالاتر ہے آپ کا جو بھی امیدوار میدان میں اترے گا وہ صرف چند مسلم ووٹوں سے کیسے کام یاب ہو پائے گا ؟
پارٹی کا ووٹ اور ذاتی ووٹ دونوں پر غور کرنا ضروری ہے کیوں کہ ایسا نہیں ہے کہ سارے مسلمان متحد ہوکر آپ ہی کو ووٹ دے دیں گے مسلم ووٹوں کی تقسیم تو پرانی روایت ہے جو اظہر من الشمس ہے
اور دوسرے لوگ بہت مشکل ہے کہ آپ کو ووٹ دیں اس صورت میں پولنگ بوتھ مضبوط کیے بغیر ووٹ کی خواہش مزید برآں سیاسی حصہ داری سراب صحرا سے کم نہیں ہے اس وقت مسلمانوں کی سوجھ بوجھ کا سخت امتحان ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا ذرا مشکل ہے کہ وہ کدھر جائیں ؟
کیا مسلمان برادران وطن سے خود کو الگ تھلگ کر کے محض اپنے کچھ فی صد ووٹوں کے دم پر مسلم ریاست کا خواب دیکھیں یا پھر کسی ایک نام نہاد ہی سہی سیکولر طاقت کو سپورٹ کرکے کم از کم ان مشکل حالات میں اسلام دشمنوں کی حوصلہ شکنی کے لئے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں ؟
اس تعلق سے میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے قومی دشمن کے خلاف متحد ہو جائیں اور اسے ہی ووٹ دیں جو کھلے ہوئے اسلام دشمنوں کو شکست دے سکے
موجودہ سیاسی حالات میں مسلمان متحد ہوکر ایسی پارٹی کو ووٹ دیں جو تقریروں میں ہی نہیں زمین پر بھی مسلمانوں کے لیے فکر مند ہو ہوش سے کام لیں بہت سوچ سمجھ کر ووٹ کریں نہ تو جوش میں آئیں اور نہ ہی ہوش کھوئیں بلکہ پوری دانش مندی کے ساتھ اسی پارٹی کے ساتھ رہیں جو جیتنے کے لائق ہے
تحریر : محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یوپی انڈیا
One thought on “پہنچ گیے ہیں پھر الیکشن کے دوار پر”