دہلی کی جامع مسجد نقوش و تاثرات
دہلی کی جامع مسجد نقوش و تاثرات
اظفر منصور
بین الاقوامی شہرت یافتہ دہلی کی شاہی جامع مسجد اپنی تعمیری باریکیوں کی وجہ سے تقریباً ہر انسانی خواہش کا حصہ ہے، پوری دنیا کے لوگ اس کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی کرنا چاہتے ہیں، تو ایسے میں دہلی میں موجود لوگوں کا یہاں نہ پہنچنا حرماں نصیبی ہی کہی جا سکتی ہے۔
چناں چہ عید الاضحیٰ کی چھٹیوں کے اپنے آخری ایام میں داخل ہوتے ہی ہم نے جامع مسجد کا قصد کر لیا، خواہش ایک طویل عرصے سے تھی کہ شاہجہاں کی اس عظیم یادگار کے سائے میں چند لمحات بسر ہوں اس کی تکمیل آج ایک جولائی کو ہو رہی تھی
بچے کافی خوش تھے کہ جامع مسجد جا رہے ہیں، ہم خوش تھے کہ وہ جامع مسجد جس کی تاریخ محض کتابوں کے اوراق میں پڑھنے کو ملتی تھی آج اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور زبان حال سے سولہویں صدی حالی کے اس منظر کی داستان سنیں گے جب دہلی میں بیٹھ کر شاہان مملکت پورے ملک کا انتظام و انصرام سنبھالا کرتے تھے
خواہش یہ بھی تھی کہ بلند ترین زینہ چڑھ کر جب صحن مسجد میں پہنچیں تو دو منٹ 130 فٹ طویل مینار کے سامنے کھڑے ہوکر پوچھیں کہ اے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی علامت کیسے وہ ایام تھے جب تیری آنکھوں کے سامنے اس ملک میں مسلمانوں نے حکومت کی تھی؟ بلا تفریق مذہب و ملت تیرے سائے میں فیصلے صادر کئے۔
یہ مضمون بھی پڑھیں: رمضان المبارک اور بدنصیب لوگ
اور سب سے بڑھ کر تیرے زوال کی کہانی کیا ہے؟ کیسے باوجود اتنی بلندی کے پستی و ادبار کا شکار ہوا؟ کس نے تیرے بال و پر نوچے؟۔ ان سوالات و خواہشات کے ساتھ ہمارا قافلہ پریم نگر کی گلیوں کو عبور کرتے ہوئے نانگلوئی میٹرو اسٹیشن پہنچا
برادر اکبر مولانا انظر منصور ندوی نے کاغذی ٹوکن لئے، (پہلے ٹوکن پلاسٹک کا ملتا تھا جو کہ کافی اچھا تھا،۔
مگر اب کاغذ کا ملتا ہے جس میں تفصیلات کے ساتھ ایک QR code ہوتا ہے، یہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اسے سنبھالتے ہوئے سفر ختم ہو جاتا ہے) جامع مسجد میٹرو اسٹیشن پہنچنے اور چند قدم پاپیادہ چلنے کے بعد ہی ایک ٹیلے پر بھیڑ نظر آئی تو بھتیجوں نے کہا کہ دیکھئے چاچو جامع مسجد میں بھیڑ کتنی ہے۔ لیکن ہمیں بھیڑ سے کیا غرض کہ ہمیں تاریخ میں لپٹی ایک داستان کو باالمشافہ دیکھنے، سمجھنے، اور پڑھنےکی جستجو سورج کی حرارت کو بھی مات دے رہی تھی۔

مینا بازار کے راستے ہم مشرقی دروازے کی جانب بڑھ رہے تھے اور اس کی خصوصیات اور اپنی قسمت پر نازاں تھے کہ یہی وہ ۳۵ سیڑھیوں پر مشتمل زینہ ہے جس کے ذریعے بادشاہ مسجد میں داخل ہوتے تھے، جس مشرقی دروازے سے ہم داخل ہو رہے تھے اس کا نام گیٹ نمبر دو اور باب شاہجہاں ہے، جیسے ہی ہم مکمل سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے اور پیچھے مڑے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔
ذہن ایک کے بعد ایک تحریری نقوش سامنے رکھنے لگا، اور دل باوجود صدی بیت جانے کے بےمہار دھڑ کے جا رہا تھا کیونکہ سامنے ایک ایسی عمارت اور ندی تھی جسے تاریخ لال قلعہ اور جمنا ندی کا نام دیتی ہے، اور چند منٹ ساکت جسم کے ساتھ ہماری ڈبڈباتی آنکھیں اس کھائی کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھیں
جس میں بادشاہ کے کئی سپاہی انگریزوں سے اپنی جان بچانے کے لیے کود پڑے تھے، اور پھر جاں بحق ہوگئے تھے، آج لال قلعہ کا وہ دردناک منظر آنکھوں کے سامنے تھا جسے تاریخ نے اپنے لفظوں میں پیوست کر رکھا ہے۔
خیر نمدیدہ ہم پھر مسجد کی طرف مڑے اور صحن میں داخل ہونے لگے، نیچے پاؤں تپا دینے والے سرخ سنگ ریزے تھے اوپر چلچلاتی دھوپ تھی مگر ہمارے اندر شوق تھا،۔
جذبہ تھا اپنے بادشاہ کی عظمت کو قریب بالکل قریب سے دیکھنے کا سو ہم نے سب برداشت کیا، وہ صحن (جس میں کم و بیش پچیس ہزار افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں) عبور کر کے مسجد کی عمارت میں پہنچے، ہم نے صحن کے بیچ و بیچ ایک بڑے اور گہرے حوض کا بھی پڑھ رکھا تھا تو اس کے قریب گئے اور شوق کی آنکھوں سے بغور دیکھا۔
پوری مسجد میں سیاحوں اور لطف لینے والوں کی خوب بھیڑ تھی، کچھ لوگ سیلفیوں میں کچھ رشک بھری نگاہوں سے ہاتھ اٹھا اٹھا کر اپنے ساتھیوں کو معلومات دینے میں تو کچھ حوض پر وضو وغیرہ میں مشغول تھے
کچھ اللہ کے خاص بندے بندیاں ایسی بھی تھیں کہ ہم نے دیکھا کہ وہ مسجد میں نمازوں میں مصروف ہیں، کچھ عورتیں ملازمین کی سختیوں پر نکتہ چیں تھیں غرض کہ پورا ماحول نہایت خوشگوار تھا،
گرمی بھی شدت کی تھی مگر مسجد کے ارد گرد اور اندر تو گرمی نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی، بغیر پنکھے کے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں ہم سے ٹکرا رہی تھیں، واقعی ایسی خوشگوار فضا دنیا کے بازار میں ہرگز نہیں مل سکتی۔
یہ اللہ کی بڑی عظیم نعمت ہے کہ پورے شہر کے لوگ اس کے سائے میں آکر چند گھنٹے سکون کے ساتھ بیٹھتے ہیں ورنہ دہلی کی گرمی ایسی ہوتی ہے کہ بس اللہ ہی کی پناہ۔
تھوڑی دیر ادھر ادھر نظارہ کرنے کے بعد ہم نے قصد واپسیں کیا اور پھر جامع مسجد میٹرو اسٹیشن پلیٹ فارم نمبر دو سے جامعہ ملیہ اسلامیہ ہوتے ہوئے شاہین باغ پہنچے۔ یہ دوسری اور آخری قسط دو نششت میں یہیں شاہین باغ میں مکمل ہو رہی ہے۔
قارئین جامع مسجد کی تاریخی حیثیت کے سلسلے میں چند معلومات ویکیپیڈیا سے مستعار لے کر آپ کی خدمت میں پیش ہے اسے بھی پڑھ کر معلومات میں اضافہ کریں۔
” مسجد جہاں نما جو جامع مسجد دہلی کے نام سے مشہور ہے، بھارت کے دار الحکومت دہلی کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے تعمیر کیا جو 1656ء میں مکمل ہوئی۔ یہ بھارت کی بڑی اور معروف ترین مساجد میں سے ایک ہے اور پرانی دلی کے مصروف اور معروف ترین مرکز چاندنی چوک پر واقع ہے۔
بنیادی معلومات
سنہ تقدیس
6 اکتوبر 1650ء
تفصیلات
گنجائش 25,000
لمبائی 40 میٹر (130 فٹ)
چوڑائی 27 میٹر (89 فٹ)
گنبد 3
مینار 2
مینار کی بلندی
41 میٹر (135 فٹ)
مخروطہ کی بلندی
40,000 میٹر (130,000 فٹ)
مواد
لال سنگ ریگ، سنگ مرمر
مسجد کے صحن میں 25 ہزار سے زائد افراد کی گنجائش ہے۔ اس کی تعمیر پر 10 لاکھ روپے کی لاگت آئی۔
شاہجہاں نے اپنے دور حکومت میں دہلی، آگرہ، اجمیر اور لاہور میں بڑی مساجد تعمیر کرائیں جن میں جامع مسجد دہلی اور لاہور کی بادشاہی مسجد کا طرز تعمیر تقریباً یکساں ہے۔
مسجد کے صحن تک مشرقی، شمالی اور جنوبی تین راستوں سے بذریعہ زینہ رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مسجد کے شمالی دروازے میں 39، جنوبی میں 33 اور مشرقی دروازے میں 35 سیڑھیاں ہیں۔ مشرقی دروازہ شاہی گزر گاہ تھی جہاں سے بادشاہ مسجد میں داخل ہوتا تھا۔
مسجد 261 فٹ طویل اور 90 فٹ عریض ہے، اس کی چھت پر تین گنبد نصب ہیں۔ 130 فٹ طویل دو مینار بھی مسجد کے رخ پر واقع ہیں۔ مسجد کے عقبی جانب چار چھوٹے مینار بھی موجود ہیں۔
اظفر منصور
8738916854
Pingback: گورکھ پور کا ایک یادگار سفر اور تاثرات و تجربات ⋆ ظفر منصور
Pingback: رمضان المبارک اور بدنصیب لوگ از : اظفر منصور