تحریک جنگ آزادی میں باشندگان مرادآباد کا اہم کردار

Spread the love

از : محمد فہیم جیلانی احسن مصباحی عفی عنہ معصوم پور ، مرادآباد، یوپی تحریک جنگ آزادی میں باشندگانِ مرادآباد کا اہم کردار

تحریک جنگ آزادی میں باشندگانِ مرادآباد کا اہم کردار

آج ہم بڑی دھوم دھام سے یوم آزادی پرگلیوں کو سنوارتے سجاتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل کرآزادی کا

جشن مناتے ہیں، گل پوشی کرتے ہیں ، ہر طرف آزادی کے نغمے گائے جاتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس آزادی کو حاصل کرنے میں کتنی خوشیاں قربان کرنی پڑی۔ کتنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا۔

کتنی جگہوں سے ہمیں بےدخل کیا گیا۔ اور کس قدربغاوت کے بد نما داغ لگائے گئے۔ اور نا جانے کتنی پردہ نشین خواتین گھر سے نکل کھڑی ہوئیں،اور اس آزادی میں کتنی عفت وعصمت کو تار تار کیا گیا، اور کتنی ہی شام کی سہاگن عورتیں صبح کو بیوہ بن گئیں،اور نا جانے کتنی ہی مائیں بے اولاد ہوئیں، اور کتنے ہی آباد شہر چٹیل میدان اور بے آب وگیاہ جنگل میں تبدیل ہو کر رہ گئے؟؟۔

جس کی مختصر کہانی یہ ہے کہ تب جا کر کہیں یہ آزادی ملی، یوں تو بہت سے لوگوں نے اس تحریک آزادی میں حصہ لیا لیکن قوم مسلم نے اس تحریک آزادی میں اس قدر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کہ۱۸۵۷ء میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں۔

جوبھی مسلمان انگریزوں کے ہاتھ لگا اس کو ہاتھی پر بٹھا کر درخت کے نیچے لے گئے۔پھندا اس کی گردن میں ڈال کر ہاتھی کو آگے بڑھایاگیا،لاشیں پھندے میں جھول گئیں،آنکھیں اُبل پڑی ،زبان منہ سے باہر نکل آئی۔‘‘۔

اور علماے کرام تو انہوں نے اس تحریک میں نا صرف جہاد باللسان، بالقلم کے ذریعے حصہ لیا بلکہ جہاد بالسیف بھی کیا۔ اور اس آزادی میں ایک یا دو عالمِ دین کو پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا ، بلکہ تقریباً بائیس ہزار علما کو پھانسی دی گئی۔ ایک دن میں اسّی اسّی علماے کرام کو پھانسی دی جاتی تھی، اور نا جانے کتنے علماے کرام کو کالا پانی کی سزا کاٹنی پڑی۔ اللہ اکبر!۔

بالاخر اللہ کے فضل سے ظالم انگریز حکمرانوں کو شکست ہوئی اور باشندگانِ ہند کو جیت ملی۔یہ آزادی علمائے کرام اور مسلمانوں کی قربانیوں کی بدولت ہمیں ملی ہے۔

اس تحریک آزادی میں بھارت کے ہر ہر صوبہ،شہر، قصبہ، گاؤں سے لوگوں نے شرکت کی لیکن آج ہم باشندگانِ مرادآباد کی تحریک جنگ آزادی میں جو قربانیاں پیش کی گئی ہیں ان کو ذکر کریں گے

اور اس میں بھی پہلے ہم گمنام مجاہدین جنگ آزادی کے ناموں کو بیان کریں گے، اس کے بعد معروف شخصیات کا ذکر کریں گے

۔(مرادآباد ) بھارتی ریاست اتر پردیش کا ایک تاریخی اور صنعت و حرفت کے نقطہ نظر سے اہم شہر ہے۔مغل شہنشاہ شاہجہان کے عہد حکومت میں گورنر رستم خان نے اس شہرکا نام شہنشاہ کے سب سے چھوٹے بیٹے شہزادہ مراد بخش کے نام پرمرادآباد رکھا تھا۔)

اس فہرست میں پہلا نام ہے:۔

۔ (۱) مولوی ایوب خاں کیفی مرادآبادی : آپ کے والد کا نام انور خاں،مولوی صاحب مرادآباد کے رہنے والے تھے اور مجو خاں مرادآبادی کے یہ بہت ہی قریبی ساتھیوں میں سے ہیں ۔

جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں مولوی صاحب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ جنگ آزادی کے بعد آپ کو کالے پانی کی سزا بھی ہوئی، اور آخری عمر تک آپ وہیں رہے اور ستر سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی

لیکن یہ مرد مجاہد ہماری سرد مہری اور خود فراموشی کی وجہ سے گمنامی کا شکار ہو کر رہ گیا

۔(۲) امان اللہ صدیقی: ان کا تعلق بھی ضلع مرادآباد ہی سے ہے۔ یہ خیر اللہ صدیقی کے صاحبزادے تھے۔ محلہ قریش امروہہ میں ان کا گھر ہوا کرتا تھا، امان خاں بھی جنگ آزادی شادی ۱۸۵۷ میں بڑھ چڑھ کر حصہ ۔

آغاز جنگ کے وقت تو چھٹی پر تھے لیکن اپنے علاقے میں انھوں نے سرگرمیاں شروع کر دی تھیں۔ اور اتنا ہی نہیں بلکہ انقلابیوں کی جدوجہد میں برابر شریک رہے، اور کئی ایسی جنگوں میں بھی مقابلہ کے لیے خود نفس نفیس شریک ہوئے۔

انگریزوں کی زبردست مزاحمت کی اور ہمیشہ شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا اور جنگ کے بعد ان کو بھی کالا پانی کی سزا دی گئی۔ یہاں تک کہ ۹/فروری ۱۸۶۱ء کو ان کو رہا کردیا گیاتھا

۔(۳) تہور خان : ان کے والد کا نام نیاز محمد تھا تھا ان کا تعلق مرادآباد سے تھا تہور خان کا نام بھی ۱۸۵۷ء کے گمنام مجاہدین کی فہرست ہی میں آتا ہے، انقلابیوں کی جدوجہد میں یہ نہ صرف شریک رہے بلکہ ہر قسم کا تعاون بھی کیا۔

اور بہت سی جنگوں میں انگریزوں سے مقابلہ آرائی بھی کی۔ بالآخر وہی ہوا جو کہ اکثر تحریک جنگ آزادی کے مجاہدین کے ساتھ ہوا یعنی ان کو بھی کالا پانی کی سزا دی گئی

۔(۴) خدا بخش: خدابخش نامی چھ شخصیت گزریں جن میں دو کا تعلق امروہہ مرادآباد سے رہا۔ اور ایک جھانسی کی رانی لکشمی بائی کے توپچی اور معتمد خاص تھے جبکہ باقی دو خدا بخش نامی شخص یہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

یہ سبھی حضرات نے جنگ آزادی میں شرکت تو ضرور کی لیکن ان میں سے کسی کو بھی کالا پانی کی سزا نہیں دی گئی تھی، اور ایک اور خدا بخش نامی جن کے والد کا نام رمضان علی ہے اور ان کا تعلق کھٹگودیا لکھنؤ کے رہنے والے تھے۔

انھوں نے بھی جنگ آزادی میں شرکت کی تھی، اور یہ جنگ آزادی کےسرگرم کارکن رہے، ان کی گرفتاری کر فرنگیوں نے ان پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا، اور پھر مقدمہ کا فیصلہ ۲۸/جولائی ۱۸۵۸ء کو ہوا جس میں ان کو کالے پانی بھیج دیا گیا۔

پھر طویل عرصہ کے بعد انہیں رہائی ملی اور پھر یہ اپنے وطن واپس آگئے۔(یہ تفصیل “شخصیات ۱۸۷۵ء ” نامی کتاب میں موجود ہے)۔

۔(۵) درویش علی خاں : امروہہ ضلع مرادآباد یو پی کے رہنے والے تھے۔ اور جنگ آزادی ۱۸۵۷ کہ جانبازسپاہی تھے۔ یہ بھی اپنے رفیق شیخ محمد افضل کی طرح مقامی انقلابیوں کے رہنما تھے

۔ ۱۹/مئی ۱۸۵۷ کو انقلابیوں نے انکی اور شیخ محمد افضل کی قیادت میں امروہہ پر مکمل قبضہ کرلیا اور انگریزوں کو وہاں سے بے دخل کر دیا۔ اس شکست کی وجہ سے مسٹر بی ولسن کو فوری طور پر مرادآباد کا کمشنر مقرر کیا گیا اور وہ چار لیتے ہی امروہہ وہاں پر حملہ آور ہوا۔

انقلابیوں کو شکست ہوئی اور درویش علی خان کے ساتھ تمام دیگر مجاہدین بھی گرفتار ہوئے۔

اور ان کے خلاف مقدمہ قائم ہوا اور عدالت نے انھیں موت کی سزا کا حکم دیا اور ضبطی جائداد کا بھی، لیکن بعد میں پھانسی کی سزا کو کالے پانی میں تا عمر قید کی سزا میں تبدیل کردیا گیا اور انھیں انڈمان بھیج دیا گیا جہاں انھیں قید سے تو رہائی نہ مل سکی لیکن زندگی سے نجات ضرور حاصل ہوئی

تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ پتا نہیں چلا کہ گور و کفن بھی نصیب ہوا یا نہیں بہادر شاہ ظفر کا ایک شعر جو اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے : نہ دبایا زیر زمین انھیں نہ دیا کسی نے کفن انھیں نہ ہوا نصیب وطن انھیں، نہ کہیں نشان مزار ہے۔

۔(۶) سید شبیر علی خاں: امروہہ ضلع مرادآباد کے رہنے والے تھے اور ۱۸۵۷ کی ہنگامہ آرائیوں میں ان کے ہم جان اور ہم قالب سید گلزار علی خاں جیسے بے جگر سورما تھے۔

جنگ آزادی میں ان دونوں نے بے حد نمایاں حصہ لیا تھا اور انگریزوں کو ناکوں چنے چنوادیئے تھے، اور اطراف مرادآباد میں ان کی طوطی بولتی تھی۔

مرادآباد میں جنگ آزادی کا آغاز ۱۹/مئی ۱۸۵۷ کو میرٹھ کی خبر پہنچتے ہی ہوگیا تھا۔ انقلابیوں نے مرادآباد جیل کا دروازہ توڑ ڈالا اور سارے قیدیوں کو رہا کردیا۔ اس طرح کانپور میں غدر ہونے سے پہلے ہی مرد آباد میں شروعات ہوگی جہاں مسلم آبادی زیادہ تھی۔

گلزار علی خان مرادآباد میں مختاری کا پیشہ کرتے تھے۔ انہوں نے پیشہ کو ترک کردیا اور بغاوت کے لیے شیر علی خان کے ساتھ کمر بستہ ہوگئے۔ یہ دونوں حضرات دیگر انقلابیوں کو لے کر امروہہ کے لئے نکل پڑے۔

جہاں انہیں بغاوت کے لئے زمین ہموار ملی۔ دونوں حضرات نے امروہہ میں شیخ رمضان علی خاں کے مکان پر رات کو پنچایت منعقد کی اور ۲۰ /مئی کی صبح کو امروہہ کے تھانے پر حملہ بول دیا۔

اس حملے میں ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگ بھی شامل تھے۔ باغیوں نے تھانے کے عملے کو قتل کرکے تھانے کی عمارت کو آگ لگا دی۔ اس کے بعد تحصیل کا رخ کیا جہاں خزانے کو لوٹ لیا گیا اور تحصیل کے دفتر کو جلا دیا گیا اس طرح عمر وہاں پر بھی انقلابیوں کا قبضہ ہوگیا۔

گلزار علی خان کو امروہہ کا گورنر قرار دیا گیا ۔ انگریزوں نے صورتحال پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے۔جب جنرل ولسن اپنی فوج لے کر امروہہ پہنچا تو گلزار علی خان وہاں سے فرار ہوگئے۔

لیکن ولسن نے گلزار علی خاں کے گھر کو تباہ و برباد کردیا اور ۲۶/ مئی کو مرادآباد واپس چلا گیا، ولسن کے چلے جانے کے بعد باغیوں نے پھر اپنی سرگرمیاں شروع کردی جس کے نتیجے میں امروہہ سے انگریزوں کی حکومت کی چند ماہ کے لیے معطل ہوگئی۔

امروہہ میں بغاوت کا جھنڈا بلند کرنے والے دراصل سید شیر علی خاں ہی تھے۔ یہی وہاں کے رہنما تھے سرکار انگلشیہ سب سے زیادہ انہیں سے ناراض تھی۔ انگریزوں کی توپوں اور دیگر ہتھیاروں کے سامنے بھلا لاٹھیوں ، بلموں یا تلوار کی کیا بساط ہو سکتی تھی۔

لہذا انقلابیوں کو شکست ہوئی اور انگریزوں نے جلد ہی پھر قبضہ کرلیابنوں کے علاقے کے دیگر نواب اور راجے غیرہ بھی انگریزوں کی مدد کر رہے تھے ۔ ۱۸۵۷ کہ شروعات میں بہت سے باغیوں کو گرفتار کیا گیا۔

رسمی مقدمات چلائے گئے اور پھر پھانسیاں دے دی گئیں۔ سید گلزار علی خان ایسے فرار ہوئے کہ ان کا پتہ ہی نہ چلا لیکن شبیر علی خان گرفتار کر لیے گئے تھے اور انھیں حبس دوام سزائے بہ عبور دریائے شور دی گئی تھی۔

انڈمان ہی میں یہ مرد مجاہد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ تاریخ وفات کا علم نہ ہو سکا ۔ تدفین کہاں اور کیسے ہوئی یہ بھی پتہ نہیں گویا کہ گمنام و بے نام و نشاں ہو گئے

۔ (۷) سید شبیر علی: اس لسٹ میں ایک نام اور سید شبیر علی موجود ہے۔ سید صاحب کا تعلق شہر مرادآباد ہی سے تھا۔ یہ امروہہ کے رہنے والے تھے بہادر شاہ ظفر کو انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ جب تک امن نہ قائم ہو جائے دہلی نہ آئیں۔

جنگ آزادی ۱۸۵۷ میں یہ عملی طور پر شریک رہے۔ انقلابیوں کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کئی جنگوں میں خود مقابلوں میں شریک رہے۔

انگریزوں کی ہر جگہ زبردست مزاحمت کی اور بہادری و شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ جنگ کے بعد ان کی بھی جائیداد ضبط کر لی گئی اور کالے پانی کی سزا دی گئی۔ جزائر انڈمان ہیں میں تقریبا ۱۸۹۵ میں ان کا انتقال ہوا۔

آنکھوں میں آزادی کا صدمہ لیے ہوئے جلاوطنی کے عالم میں ابدی نیند سو گیےاور انڈمان ہی میں پیوند خاک کردیا گیا

۔(۸) شیخ محمد افضل : شیخ محمد افضل امروہہ ضلع مرادآباد صوبہ یوپی کے رہنے والے تھے اور جنگ آزادی ۱۸۵۷ کے ایک سرگرم کارکن ہی نہیں تھے بلکہ وہ مقامی انقلابیوں کے رہ نما تھے اور انگریزوں کے جانی دشمن

۔ ۱۹/ مئی ۱۸۵۷ کو شیخ محمد افضل کی قیادت میں انقلابیوں نے امروہہ پر قبضہ کرلیا جس کے نتیجے میں انگریزوں کو۲۲/مئی ۱۸۵۷ کو مسٹر بین۔ ولسن کو مرادآباد کا کمشنر مقرر کرنا پڑا۔

اور انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی امروہہ پر حملہ کردیا اور انقلابیوں کو شکست دے کر بہتوں کو قید بھی کر لیا جس میں شیخ محمد افضل بھی شامل تھے۔ ان کے خلاف مقدمہ دائر ہوا ۔

اور بغاوت و غداری جیسے سنگین الزامات کے تحت ان کی جائیداد وغیرہ ضبط کر لی گئی، اور سزائے دوام بعبور دریائے شور کی سزا دی گئی۔ اور انہیں انڈمان بھیج دیا گیا پھر ان کی باقی زندگی وہی گزری۔ انہوں نے وطن کے اور آزادی وطن کے خواب تو ضرور دیکھے لیکن وطن واپس نہ آ سکے

۔(۹) عباس علی خان: یہ ابن اسد علی خان ابن سیف اللہ خان ابن محبت اللہ خاں ابن دوندے خاں ہیں۔ عباس علی خان نے جنگ مرادآباد میں بڑا ہی زبردست لیا تھا۔ جنرل بخت خان کی مرادآباد آمد پر دونوں میں ملاقات بھی ہوئی تھی۔

عباس علی خان اور ان کے والد اسد علی خان دونوں ہی مرادآباد کی جنگی معرکوں میں سرگرم رہے تھے۔ عباس علی خان جنرل بخت کے ساتھ دہلی چلے گئے تھے اور وہاں کی انقلابی کارروائیوں میں بھی شریک رہے تھے۔

جنرل بخت خان نے بہادر شاہ ظفر سے ان کے والد اسد علی خان کی بہت تعریف کی تھی اور انقلاب سے ان کی پر خلوص وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے ان کے والد کو مرادآباد کی نظامت دینے کی سفارش کی تھی، جس کے نتیجے میں بہادر شاہ ظفر نے اسد علی خاں کے نام مرداباد کی نظامت کی سند جاری کر دی تھی۔

عباس علی خان سند لے کر مرادآباد آگئے اور اسد علی خان ناظم مرادآباد ہوگئے۔ لیکن مجو خان سے اس سلسلے میں ان کا تنازعہ ہو گیا جس کے نتیجے میں اسد علی خاں کو نظامت سے دستبردار ہونا پڑا ۔

اس کے بعد بھی وہ اور عباس علی خان دونوں ہی جنگ آزادی میں سرگرم رہے اور مرادآباد کی ہر جنگ میں شریک رہے، اور انقلابیوں کی ہر صورت سے مدد کی۔

جنگی کے خاتمہ پر عباس علی خان پر مقدمہ چلا اور کالے پانی کی سزا ہوئی۔ لہذا ۱۸۵۷ ہی میں انھیں جزائر انڈمان بھیج دیا گیا اور وہیں پر انھوں نے وفات پائی

۔(۱۰) علی بہادر خاں: ولد امیر خان ان کا تعلق مرادآباد یوپی سے تھا ۔ انہوں نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بہادری کے جوہر دکھائے تھے۔ انقلابیوں کی عملی جدوجہد میں بھی برابر کے شریک رہے۔

کئی جنگوں میں خود بھی انگریزوں کا مقابلہ کیا ہر مزاحمت میں شجاعت کا مظاہرہ کیا ۔ جنگ کے بعد ان کو کالے پانی کی سزا دی گئی

۔(۱۱) غلام بھولن سیوہاروی (شیخ بولن شاہ) : یہ مرادآباد کے رہنے والے تھے۔ ان کو شاہ صاحبی اور پیری مریدی سے بھی شغل تھا۔ ان کے مریدوں کی تعداد کافی تھی اور یہ اکثر لوگوں کے لیے لنگر کا انتظام کیا کرتے تھے۔

انہوں نے جنگ۱۸۵۷ میں بھی یہی خدمت انجام دی شادی اور انقلابیوں کو خوراک اور کھانا وغیرہ فراہم کرتے رہے۔ ان کے اپنے ایک چغل خور مرید نے مخبری کر دی۔ انگریزوں نے انہیں گرفتار کر لیا اور کالے پانی کی سزا دی اور وہی انڈمان میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں دفن کیے گئے

۔(۱۲) کلو خاں : کلو خان کا تعلق مرادآباد سے تھا۔ انھوں نے جنگ آزادی۱۸۵۷ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انقلابیوں کی عملی جد وجہد میں برابر کے شریک رہے۔ اور کی جنگوں میں جنہوں نے مقابلہ بھی کیا اور بل آخر کو گرفتار کر لیا گیا اور کالا پانی کی سزا کاٹنے کے لیے بھیج دے گیا

۔(۱۳) نواب مجد الدین خان عرف مجو خاںآپ کا شمارحاکم و رئیس مرادآباد میں ہوتا تھا۔ اور آپ کی مہمان نوازی اس قدر مشہور تھی کہ آپ کے یہاں سبھی کی مہمان نوازی کی جاتی بلکہ ایک موقع پر مرزا غالب آپ کے مہمان رہے۔

نواب مجد الدین عرف مجو خاں کی سرکردگی میں جب مرادآباد میں آزاد حکومت قائم ہوئی تو علامہ کافی کو مرادآباد کا صدرالشریعہ بنایا گیا اور آپ شرعی احکام کے مطابق مقدمات کے فیصلے کیا کرتے تھے۔

اس وقت انگرویزوں نے غداروں کو ایک لالچ دے رکھا تھا کہ جو شخص کسی بھی مجاہد کو گرفتار کرائے گا اور پھانسی دلوائے گا اس کی جائیداد کا بڑا حصہ اس غدار کو دیا جائے گا

اس لالچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی مجاہد ایسا نہیں بچا جس کو غداروں نے گرفتار کروا کر پھانسی نہ دلوائی ہو جتنے بھی ساہو صاحبان ہیں یہ اسی غداروں کی پیداوار ہیں

لہذا ان حضرات کی بھی مخبری ایک کمینہ صفت انسان نے اس شرط پر کر دی کی گرفتار کے بعد انعام میں میں ان کی تمام جائداد اسکو دے دی جائے 26 اپریل 1858ء کو جنرل مونس گورہ فوج لے کر مرادآباد پر حملہ آور ہوا۔

مجاہدین جاں نثاری سے لڑے۔ نواب مجو خاں آخری وقت تک ایک مکان کی چھت پر بندوق چلاتے نظر آئے۔ آخر کار جامِ شہادت نوش کیا۔

سقوطِ مرادآباد کے ساتھ ہی تمام انقلابی رہ نما منتشر ہو گیے۔ جو انگریز حکومت کے ہاتھ آئے وہ تختۂ دار پر چڑھا دیے گئے یا حبسِ دوام بہ عبور دریاے شور[کالاپانی] کی سزا سے ہم کنار ہوئے

۔(۱۴) مولانا وہاج الدین عرف مولوی منو مرادآبادی خلف مولوی جمیل الدین بن مولوی وجیہ الدین بن مفتی شیر محمد شہر مرادآباد کے بڑے عالم اور رئیس تھے۔ گاؤں بلند اخلاق اور ہمدرد و غم گسار تھے دینی جذبہ قوم پروری میں بے مثال تھے اوکاڑہ شہر آپ کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے عوام و خواص میں آپ یکساں مقبول تھے عربی و فارسی و اردو کے علاوہ انگریزی زبان پر بھی آپ کو قدرت تھی ۔

آپ حریت پسند اور قائدینِ جہادِ آزادی1857ء میں تھے، آپ نے مردآباد میں نمایاں کردار ادا کیا ، 19 مئی 1857 کو مرادآباد جیل خانہ پر ایک ہجوم کے ساتھ حملہ کیا۔ اور قیدیوں کو آزاد کروا لیا۔

مسٹر ولسن یہ خبر سنتے ہی روپوش ہو گیا تھا۔آپ اور مولانا کافیؔ نے مل جُل کر مرادآباد میں ماحول سازی کی اور لوگوں کو جہاد کے لیے آمادہ کیا۔ انگریزی مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور راے عامہ ہم وار کی۔

آنولہ ضلع بریلی میں حکیم سعیداللہ قادری کے یہاں قیام پذیر رہ کر اطراف میں حریت کی صدا بلند کرتے رہے۔یہاں سے بریلی گئے اور خان بہادر خاں نبیرہ حافظ الملک حافظ رحمت خاں روہیلہ سے ملاقات کی،ان سے جہاد کے عنوان پر تبادلۂ خیال کیا۔

مولوی وہاج الدین مرادآبادی نے انقلابیوں کی رہنمائی کی ۔ جب نواب رام کی فوج مجاہدین کی سرکوبی کے لیے مرادآباد پہنچی تو آپ نے نواب رام پورکی فوج سے بھی مقابلہ کیا ۔

بلآخر انقلاب کی ناکامی کے بعد ایک مخبر کی غداری سے مولانا وہاج الدین کے گھر پر رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں عصر و مغرب کے درمیان انگریزوں نے ۱۸۵۸ میں زوردار دھاوا بول دیا اور گھر کے اندر ہی گولیاں مار کر شہید کردیا گیا

۔(۱۵) جلالة العلم حافظ ملت علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی:حافظ ملت ۱۸۹۴ء کوضلع مرادآباد کے گاؤں بھوج پور کے غریب خاندان میں پیدا ہوئے آپ کے والدین اور جد نیک اور سچے محب وطن مسلمان رہے۔۱۹۳۲ء میں آپ کی تعلیم تکمیل کے مراحل تک پہنچی اور ۱۹۳۳ء میں آپ سند فراغت سے نوازے گیے۔

اس دوران آزادی کے لیے برادرانِ وطن کی جد وجہد اور ان پر انتہا پسند انگریزوں کے ظلم و ستم کا بغور مشاہدہ فرمایا اور آپ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کس طرح انگریزوں کے چنگل سے وطن عزیز کے باشندوں کوکو آزاد کرایا جائے،اور وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے آزادی نہیں مل پا رہی ہے۔

تو آپ نے پایا کہ ہندو مسلم میں انتشار اور دوری پیدا ہوچکی ہے اور یہی انتشار ہے جس کی وجہ سے انگریز یہاں اپنے قدم جمائے بیٹھے ہیں ، آپ نے اس انتشار کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا چوں کہ آپ پہلے ہی اپنے استاذ حضرت صدر الشریعہ کے حکم پر مرادآباد سے اعظم گڑھ آ چکے تھے

یہاں آ کر آپ اپنے اس مشن کو پورا کرنے میں لگ گئے اور لوگوں کے درمیان جا کر تقریر کے ذریعہ آزادی کی اہمیت اور اختلاف و انتشار کے نقصانات سمجھاتے کہ : “آزادی کی ایک دن کی زندگی غلامی کے ہزار دن سے بہتر ہے”اور ” اتحاد زندگی ہے اختلاف موت”اور آپ کبھی پیدل کبھی سائیکل کے ذریعہ آس پاس کے گاؤں کا دورہ کرتے اور لوگوں کو یکجہتی کا درس دیتے اور آپ مسلسل کئے سالوں تک پوری تندہی کے ساتھ اپنے مشن میں لگے رہے

حالاں کہ اس دوران آپ کی مخالفت بھی ہوئی اور نتیجتاً آپ نے لوگوں کو آزادی کے لیے آمادہ کر ہی لیا۔ اور لوگ آپسی اختلاف و انتشار کو بھول کر آزادی کے متوالے ہو گئے اور تحریک آزادی میں ہرقسم کی قربانی کے لیے تیار ہوگئے۔

یہی وجہ رہی کے ۱۹۴۲ء میں ” انگریزو بھارت چھوڑو” تحریک میں مبارک پور و اطراف کے باشندوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔

اور بالآخر ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء کو وطن عزیز ظالم انگریزوں کے پنجوں سے مکمل طور آزاد ہو گیا۔ ایک موقع پر سابق وزیراعظم ہند، مسٹر اندراگاندھی نے کہا تھا : “ان حافظ ملت جیسی شخصیت کا ملک میں ہونا ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ ” (بہ حوالہ استقامت، کان پور، جون ۱۹۷۶، ص:۶۵)

۔(۱۶)۔ حضرت مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی:( مراد آباد کے صدر شریعت و قائد و شہیدانقلاب) علم و فضل اور طب و شاعری میں یگانہ روزگار تھے۔
حضرت مفتی ظہور اللہ فرنگی محلی لکھنوی سے بعض علوم و فنون کی مولانا کافی نے تحصیل کی تھی۔

اور حضرت مولانا محمد عبدالشکور اور اور حکیم شیر علی صدیقی الہ آبادی سے علم طب اور شیخ مہدی علی خاں ذکی مرادآبادی سے فن شاعری سیکھ کر طب و شاعری میں کمال حاصل کیا۔

اور حضرت شاہ ذکی القدر، ابو سعید، مجددی، رام پوری (مصطفیٰ باد) جو کہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے شاگرد ہیں ان سے علامہ کافی نے علم حدیث کا درس لیا اور باقاعدہ اس پر آپ نے کام بھی کیا۔

اور آپ سچے عاشق رسول اتباع سنت رہے، مولانا کافی کی تصانیف جن سے آج عوام و خواص استفادہ کرتے ہیں وہ یہ ہیں: ترجمہ شمائل ترمذی (منظوم) مجموعہ چہل حدیث (منظوم) مع تشریح خیابانِ فردوس، بہار خلد، نسیم جنت، مولود بہار، جذبہ عشق، تحمل دربار رحمت بار، دیوان کافی وغیرہ وغیرہ

مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی انقلاب ۱۸۷۵ میں انگرویزوں کے خلاف سینہ سپر تھے اور مرادآباد میں چلنے والی تحریک حریت کے قائدین میں پیش پیش تھے۔

نواب مجد الدین عرف مجو خاں کی سرکردگی میں جب مرادآباد میں آزاد حکومت قائم ہوئی تو آپ کو مرادآباد کا صدرالشریعہ بنایا گیا اور آپ شرعی احکام کے مطابق مقدمات کے فیصلے کیا کرتے تھے۔

مرادآباد میں مولانا کافی نے انگرویزوں کے خلاف فتوائے جہاد جاری کیا۔ اور اس کی نقلیں دوسرے مقامات پر بھجوائیں اور بعض جگہوں پر آپ خود تشریف لے گئے۔

مولانا کافیؔ نے مل جُل کر مرادآباد میں ماحول سازی کی اور لوگوں کو جہاد کے لیے آمادہ کیا۔ انگریزی مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور راے عامہ ہم وار کی۔ آنولہ ضلع بریلی میں حکیم سعیداللہ قادری کے یہاں قیام پزیر رہ کر اطراف میں حریت کی صدا بلند کرتے رہے۔

یہاں سے بریلی گئے اور خان بہادر خاں نبیرۂ حافظ الملک حافظ رحمت خاں روہیلہ سے ملاقات کی،ان سے جہاد کے عنوان پر تبادلۂ خیال کیا۔ واضح ہو کہ روہیلہ پٹھانوں کا یہ قبیلہ بڑا جری و بہادر تھا، مولانا کافیؔ بریلی سے مرادآباد آئے اور تگ ودو میں لگے رہے۔26 اپریل 1858ء کو جنرل مونس گورہ فوج لے کر مرادآباد پر حملہ آور ہوا۔ مجاہدین جاں نثاری سے لڑے۔ مولانا کفایت علی کافیؔ کو فخرالدین کلال کی مخبری سے انگریزوں نے گرفتار کر لیا۔ سزاؤں کا اذیت ناک مرحلہ شروع ہوا۔ جسم پر گرم گرم استری پھیری گئی۔ زخموں پرنمک مرچ چھڑکی گئی۔
اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے انگریزوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔ جب اس مردِ مجاہد سے انگریز مایوس ہو چکے تو برسرِ عام چوک مرادآباد میں اس عاشقِ رسول کو تختۂ دار پر لٹکا دیا

۔ 4 مئی 1858ء کو مقدمہ کی پیشی ہوئی اور 6 مئی کو حکم دے دیا گیا۔(مقدمہ کی پوری کارروائی صرف دو دن میں پوری کردی گئی) اور اسی وقت پھانسی دے دی گئی۔

جب پھانسی کا حکم سنایا گیا مولانا کافیؔ مسرور و وارفتہ تھے۔ قتل گاہ کو جاتے ہوئے زبان پر یہ اشعار جاری تھے ؎ ۔

کوئی گل باقی رہے گا نَے چمن رہ جائے گا پر رسول اللہ کا دینِ حَسَنْ رہ جائے گا

نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا

ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دَم کا چہچہا بلبلیں اُڑ جائیں گی، سوٗنا چمن رہ جائے گا

اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہواس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا

جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود آگ سے محفوظ اس کا، تن بدن رہ جائے گا

سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ ولیکن حشر تک نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا

مولانا سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی اتنے بڑے عاشقِ رسول تھے کہ تختۂ دار بھی آتشِ عشق سرد نہ کرسکا۔ مذکورہ اشعار آپ کی رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے والہانہ محبت و عقیدت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔

مردِ حق آگاہ مولانا کافی نے گویا بزبانِ حال یہ پیغام دیا کہ زندگی وہی ہے جو رسول مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم میں گزرے۔

مولانا سیدکفایت علی کافیؔ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا محدث بریلوی نے اپنے اشعار میں ’’سلطانِ نعت گویاں‘‘ فرمایا ہے ؎ ۔

مہکا ہے مِری بوئے دہن سے عالمیاں نغمۂ شیریں نہیں تلخی سے بہمکافیؔ سلطان نعت گویاں ہیں رضاؔ اِن شاء اللہ میں وزیر اعظم اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ آپ سے بہت متاثر تھے۔ ملفوظات میں کئی مقامات پر عمدہ الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔

اس محبت و تعلقِ روحانی کی اصل وجہ عشق رسالت ﷺ میں مماثلت و انگریز مخالفت ہی ہوسکتی ہے۔لیکن یہ بات بھی یاد رہےکہ بھارت میں ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی شکست خوردہ ضرور ہوئی لیکن اس المیہ کے وقت یہ فیصلہ نہیں ہو پایا تھا کہ فرنگی تسلط کے باوجود فاتحہ کون تھا اور مفتوح کون؟

یہ تو اس شکست کے ۹۰ سال بعد ثابت ہوا کہ شکست ہی دراصل فتح کی بنیاد ہوا کرتی ہے ۔ ۱۵/اگست ۱۹۴۷ کی جب صبح نمودار ہوئی تو یہ حقیقت ثابت ہوگئی لیکن ہم یہ قطعی بھول گئے کہ وہ شکست خوردہ کون لوگ تھے۔

وہ شکست میں فتح کی بنیاد رکھنے والے فاتح تھے یا اپنے مادر وطن اور اس کی آزادی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینے والے شکست خوردہ مفتوح۔ یہ بہرحال ایک قابل بحث موضوع ہے اور مذاکرہ ومناظرہ طلب بھی ہے ۔ ہم اس پہلو پر پھر کبھی بات کریں گے۔

جاری
(شہر امروہہ پہلے ضلع مراد آباد میں آتا تھا، بعدازاں ۲۰۰۸ میں اس کو بھی ایک مستقل ضلع بنادیا گیا)

تحریر: محمد فہیم جیلانی احسن مصباحی عفی عنہ

معصوم پور ، مرادآباد، یوپی

 ان مضامین کو بھی پڑھیں

جمہوریت کا قاتل کون ہے ؟ 

یومِ جمہوریہ قانون کی بالادستی کا دن کسانوں کی حالت بری ذمہ دار کون

ایک مظلوم مجاہد آزادی

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

کام یاب جمہوریت کی پہچان

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

خطرے میں کون ہے ؟

۔ 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں

ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें

3 thoughts on “تحریک جنگ آزادی میں باشندگان مرادآباد کا اہم کردار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *