اوقافی املاک پر حملہ یا اصلاحات کی کوشش
وقف ترمیمی بل 2024: اوقافی املاک پر حملہ یا اصلاحات کی کوشش ؟
وقف یہ وہ ادارہ ہے جو صدیوں سے مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی، اور فلاحی ضرورتوں کو پورا کرتا رہا ہے۔
وقف کے ذریعے نہ صرف مساجد، مدارس اور قبرستانوں کا تحفظ ممکن ہوا بلکہ یہ ادارہ غریب اور بے سہارا افراد کے لیے ایک مضبوط سہارا بھی بنا رہا۔ تاہم، حالیہ عرصے میں پیش کیے گئے وقف ترمیمی بل 2024ء نے اس مقدس ادارے کی بقا پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔وقف ترمیمی بل کی نوعیت اور خدشات:اس بل کا بنیادی مقصد بظاہر وقف املاک کی شفافیت کو یقینی بنانا اور ان کی انتظامیہ کو بہتر بنانا بتایا جا رہا ہے۔
لیکن اس کے متن اور ممکنہ نتائج نے مسلمانوں کے اندر شدید اضطراب پیدا کیا ہے۔ اس بل میں ایسی شقیں شامل کی گئی ہیں جو وقف املاک کو ریاست کے زیرِ کنٹرول لانے یا ان کی حیثیت کو متنازع بنانے کا اشارہ دیتی ہیں۔
وقف املاک پر ریاستی کنٹرول:وقف بورڈ کی خودمختاری کو محدود کرنے کی تجاویز اور ریاستی حکومتوں کو وقف املاک کے معاملات میں مداخلت کا اختیار دینے کی کوشش، درحقیقت، ان املاک کو حکومتی دباؤ میں لے جانے کے مترادف ہے۔
یہ عمل مسلمانوں کے حقِ ملکیت اور ان کی مذہبی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔تاریخی تناظر:ہندوستان میں وقف کی تاریخ مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی بیان کرتی ہے۔
مغلیہ دور سے لے کر برطانوی راج تک، وقف املاک کو ہمیشہ تحفظ دیا گیا۔ تاہم، آزادی کے بعد وقف اداروں کو انتظامی مسائل اور سیاسی دباؤ کا سامنا رہا۔ وقف املاک پر قبضے اور ان کا ناجائز استعمال پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔
اور اب اس بل نے ان خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے ۔ ضرورتِ اصلاحات یا استحصال؟:یہ درست ہے کہ وقف اداروں میں شفافیت کی کمی اور بدعنوانی کے مسائل موجود ہیں
لیکن وقف املاک کو ریاست کے زیرِ کنٹرول لانے سے بدعنوانی ختم ہونے کے بجائے، ان کا استحصال ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔
الحاصل:اس وقت مسلمانوں کو اپنی قیادت اور قانونی ماہرین کے ذریعے اس بل کے خلاف منظم طور پر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ پارلیمانی سطح پر اپنی موجودگی کو مضبوط بنائیں اور عوام کو اس مسئلے کی نزاکت سے آگاہ کریں۔
ازقلم:محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار