برطانوی حکومت اور بھاجپائی حکومت

Spread the love

تحریر: طارق انور مصباحی برطانوی حکومت اور بھاجپائی حکومت

برطانوی حکومت اور بھاجپائی حکومت

ایک زمانہ تھا کہ برطانوی مقبوضات میں سورج نہیں ڈوبتا تھا۔دنیا کے بیشتر علاقوں پر برطانیہ(انگلینڈ)نے قبضہ کر رکھا تھا۔اس کی سلطنت کے کسی نہ کسی حصے میں سورج طلوع رہتا۔ممالک عالم سے انگریزوں کی حکومت گرچہ ختم ہو گئی۔

لیکن اپنے مقبوضہ ممالک کو آزادی دینے سے قبل انگریزوں نے کچھ ایسے اصول وضوابط وضع کر دیئے یا کوئی ایسا کام کر دیا کہ ان ممالک میں فتنوں کی آگ مسلسل بھڑکتی رہتی ہے۔ یہی حال دیگر استعماری ممالک کا تھا۔ لبنان میں مسلمانوں(کلمہ گویان اسلام) کی اکثریت تھی۔

فرانس نے 1932میں محض شناختی کارڈ کے ذریعہ مردم شماری کرائی تھی۔اس وقت تمام مسلمانوں کے پاس شناختی کارڈ نہ تھا

لیکن 22:نومبر 1943کو لبنان کی آزادی کے وقت 1932کی ناقص مردم شماری کے اعتبار سے عیسائیوں کی اکثریت تسلیم کر لی گئی۔اسی اعتبار سے ملک کا سب سے بااثر عہدہ یعنی عہدۂ صدارت عیسائیوں کے لیے مختص کر دیا گیا۔

عہدوں کی ترتیب درج ذیل ہے۔

مارونی مسیحی صدر ہوتا ہے۔

آرتھوڈوکس مسیحی نائب صدر

سنی مسلمان وزیر اعظم اور شیعہ مسلمان اسپیکر ہوتا ہے

۔1947میں انڈیا کی آزادی کے وقت انگریزوں نے ملک کی تقسیم کو قبول کر لیا تاکہ پاک وہند دونوں ملکوں میں اکثریتی اور اقلیتی طبقہ کے مابین ہمیشہ نفرت انگیز ماحول بنا رہے۔

اور بد قسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ بھارت میں اکثریتی طبقہ یہاں کی اقلیتوں پر ہمیشہ ظلم وستم ڈھاتا رہا ہے اور ہمیشہ نفرت کا ماحول تروتازہ اور سر سبز وشاداب رہتا ہے۔مسلم لیگ کا اصل مطالبہ تقسیم ہند کا نہیں تھا,بلکہ وہ حکومت میں حصہ داری چاہتی تھی۔

اگر انگریزی حکومت آزادی کے شرائط میں ایک شرط یہ رکھتی کہ مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سےحکومت میں حصہ دیا جائے تو لامحالہ کانگریس کو یہ شرط ماننی ہوتی۔لیکن ایسا نہ کیا گیا۔بھارت کی جمہوریت بھی آزادی کے شرائط میں تھی۔

انگریزوں نے ملک کو برہمن راشٹر کے طور پر آزاد نہیں کیا ہے بلکہ ایکٹ 1909 نے ہی واضح اشارہ دے دیا تھا کہ انڈیا ایک جمہوری ملک ہو گا۔

آج جو دستور بھارت میں نافذ ہےوہ دراصل ایکٹ 1935 ہےجسے انگریزوں نے تیار کیا تھا۔اس میں بعض جزوی ترامیم کے بعد اسے دستور ہند اور انڈین قوانین کا درجہ دیا گیا ہے۔

آزادی کے شرائط میں یہ تھا کہ بھارت کے تمام طبقات کو حقوق دیئے جائیں گے۔ یہی جمہوریت ہے۔

انگریزوں سے بھی قبل بھارت کے برہمنوں نے بڑی چالاکی دکھلائی۔ایکٹ 1909میں بھارت کے ہر باشندہ کو ووٹ کا حق دیاگیا اور ہر شہری کو ایک ہی ووٹ کا حق دیا گیا۔

اس کے بعد برہمنوں نے 1909 میں بھارت کی مول نواسی قوموں کو بھی ہندو بنا لیاتاکہ ان کے ووٹ بٹور سکیں۔حالاں کہ برہمن لوگ مول نواسی کو نہ ویدک دھرم کے پیروکار سمجھتے ہیں نہ انہیں وید پڑھنے کی اجازت ہےنہ ہی مندروں میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔

چند سال قبل اڑیسہ میں صدر جمہوریہ کو مندر میں داخل ہونے نہ دیا گیا۔انجام کار برطانوی حکومت بھی نیست ونابود ہوئی لیکن اس نے دنیا کو برباد کر دیا۔اسی طرح بھاجپائی حکومت بھی آج یا کل بے نام ونشان ہو جائے گی۔

لیکن بھارت بھی کھوکھلا ہوچکا ہو گا۔سرکاری املاک کو فروخت کیا جا رہا ہے۔تجارت ومعیشت کی پوزیشن روز بروز زوال پذیر ہے۔نہ جانے کتنی کمپنیاں اور فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔انگریزوں نے جب انڈیا پر قبضہ کیا تھا

تب انڈیا سونے کی چڑیا تھا۔جب انگریز انڈیا کو چھوڑ کر جا رہے تھے تب انڈیا مٹی کی چڑیا بن چکا تھا اور تقسیم ملک کے سبب ملک بھر میں ہندو مسلم نفرت کی ایسی سخت آندھی آئی ہوئی تھی کہ بنگال وپنجاب وکشمیر کے سرحدی علاقوں میں لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور سرحد کے ارد گرد انسانی خون بہتے نظر آ رہے تھے۔

اسی طرح پنجاب وبنگال وکشمیر کے اندرونی علاقوں میں بھی خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔حد تو یہ ہے کہ ملک کی راجدھانی “دلی”میں بھی خون کے فوارے اڑ رہے تھے۔یہ ہے انگریزوں سے آزادی کی داستان۔

بھاجپائیوں سے آزادی کی کیفیت کیسی ہو گی ،معلوم نہیں

بھارتی مسلمان بے حس ہیں یا مجبور؟
بھارتی مسلمانوں کے بارے میں عام تأثر یہی ہے کہ سیاسی محاذ پر قوم مسلم بے حس اور غافل قوم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر قوم اپنے پیشواؤں اور لیڈروں کے تابع ہوتی ہے۔

اگر قومی لیڈران بے حس اور پیکر غفلت ہوں تو قوم بھی بے حس اور غافل ہو گی۔بھارت کے اکثر مسلم سیاسی لیڈر بھی قومی فلاح وبہبود کے جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے واسطےکسی سیاسی پارٹی سے منسلک رہتے ہیں۔

قومی مفادات کا تصور بھی ان کے ذہن ودماغ سے کوسوں دور ہوتا ہے۔انتخابات کے وقت اگر وہ قوم مسلم کی ہمدردی میں کچھ بول بھی دیں تو وہ محض سیاسی بازی گری اور انتخابی جملے ہوتے ہیں۔

کوئی قوم اسی وقت صحیح ڈگر پر چلتی ہے جب اس کے قائدین صحیح سمت میں اس کی رہبری کریں۔کسی قوم کے افراد واشخاص سے پہلے اس کے قائدین کا صلاح پذیر ہونا لازم ہے۔

تحریر: طارق انور مصباحی

ان مضامین کو بھی پڑھیں

 تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں 

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

 مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر

قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی 

محبت کریں پیار بانٹیں

ایک مظلوم مجاہد آزادی

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

  قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی 

 اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

 مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز

۔ 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں

ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें

3 thoughts on “برطانوی حکومت اور بھاجپائی حکومت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *