سانحہ اجمیر الزامات اور گستاخیاں

Spread the love

سانحہ اجمیر: الزامات اور گستاخیاں !! غلام مصطفےٰ نعیمی روشن مستقبل دہلی

آستانہ غریب نواز پر ہوئے افسوس ناک سانحہ کے بعد انجمن خدام کے سیکرٹری سرور چشتی نے ایک ویڈیو جاری کیا تھا۔

جس میں اس شخص نے فساد کی ساری ذمہ داری اہل سنت پر ڈالتے ہوئے جو باتیں کہیں ان پر ہر اس انسان کو غور کرنے کی ضرورت ہے جو عقیدہ اہل سنت اور احترام صحابہ واہل بیت کے نظریے پر یقین رکھتا ہے۔

ویڈیو کے اہم نکات یہ ہیں:1۔ان لوگوں نے صدقہ معاویہ مانگا، وہ بھی علی کے لاڈلے حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کی درگاہ پہ! 2۔معاویہ کون؟ أبو سفیان ،ہندہ کا بیٹا… جو یزید کا باپ ہے۔3۔بنو امیہ کے نعرے بنو ہاشم کے گھر پہ لگائے گئے، کیا یہ بغض غریب نواز ہے، بغض اہل بیت ہے؟

4۔سلطان کی درگاہ پہ ان غلاموں کے نعرے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟

5 ۔ہمیں بدنام کر رکھا ہے کہ ہم رافضی ہیں۔6۔کیا ہم بریلی میں جاکے قوالی کر سکتے ہیں؟7۔ہر انسٹیٹیوشن کا قاعدہ قانون ہوتا ہے ہمارا یہاں کا بھی قاعدہ قانون ہے کیوں آکے توڑ رہے ہیں؟8۔یہ اہل سنت و جماعت نہیں ہیں کوئی نیا فرقہ ہے۔یہ وہ اعتراضات ہیں جو سرور چشتی کے جاری کردہ ویڈیو سے لیے گئے ہیں، الفاظ من وعن ہیں۔آٹھ نکاتی اعتراضات میں سے تین کا تعلق براہ راست صحابی رسول، کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات پاک سے ہے۔بقیہ جماعت اہل سنت پر لگائے ہیں۔ہم اہم اعتراضات کا تجزیہ کرتے ہیں اسی سے سرور چشتی کے سارے اعتراضات کی حقیقت اور وقعت کھل جائے گی۔ضرورت محسوس ہوئی تو بقیہ پر بھی تجزیاتی کلام کیا جائے گا۔

اعتراض نعرے پر یا نظریے پر؟ آستانہ غریب پر ہوئی نعرے بازی کی دو حیثیتیں ہیں:1۔نعرہ زنوں کا انداز2۔نعرے بازی کے الفاظنعرے بازی اور نعرہ زنوں کے انداز کی اہل سنت کے کسی ایک ذمہ دار فرد نے بھی تائید نہیں کی۔انداز یقیناً ناپسندیدہ اور قابل تردید ہے۔کسی جاہل/رافضی/سنفضی کی بدزبانی/ایذا رسانی کے جواب میں بھی ایسا رویہ اہل سنت کو زیب نہیں دیتا کہ ہمیں اسلاف نے بزرگوں کی بارگاہوں میں مؤدب رہنے کا حکم دیا ہے۔مجاورین آستانہ کو بھی انداز نعرہ پر ہی اعتراض ہوتا تو یقیناً دنیائے سنیت ان کی تائید کرتی لیکن سرور چشتی نے اس سانحہ کے فوراً بعد جو ویڈیو جاری کیا اس سے یہ بات پورے طور پر صاف ہوگئی کہ سرور چشتی اور اس کے ہم نواؤں کو انداز ہی پر نہیں نعروں کے الفاظ پر بھی اعتراض ہے۔

یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اصل اعتراض ہی نعروں کے روپ میں ظاہر کئے گئے نظریات سے ہے جیسا کہ سرور چشتی نے ویڈیو میں سب سے پہلے یہ اعتراض کیا کہ:”انہوں نے صدقہ معاویہ مانگا۔”حالانکہ نعرہ زنوں نے “صدقہ معاویہ” سے پہلے “صدقہ حیدری” بھی مانگا تھا لیکن سرور چشتی کو امیر معاویہ کا صدقہ مانگنا انتہائی ناگوار گزرا، اور یہ ناگواری اس تبصرے کے روپ میں ظاہر ہوئی: “ان لوگوں نے صدقہ معاویہ مانگا، وہ بھی علی کے لاڈلے حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کی درگاہ پہ!”سرور چشتی کی مانیں تو چونکہ غریب نواز اولاد علی ہیں اس لیے ان سے صدقہ معاویہ مانگنا جائز نہیں ہے۔

اگر اس دعوے کو مان لیا جائے تو خود امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کی مخالفت لازم آتی ہے کہ تاریخ کے صفحات گواہی دیتے ہیں کہ مولیٰ علی کے حقیقی لاڈلوں امام حسن اور امام حسین نے بارہا امیر معاویہ کی مہمان نوازی کا لطف اٹھایا اور “ہدیہ معاویہ” بھی محبت و اپنائیت سے قبول فرمایا ہے۔حضرت امیر معاویہ حسنین کریمین کو پانچ ہزار سے لیکر دس لاکھ/بیس لاکھ درہم تک کا ہدیہ پیش کرتے تھے۔مشہور شیعہ عالم ابو مخنف لوط بن یحی الغامدی (م 170ھ) نے اپنی کتاب “مقتل الحسین” میں لکھا ہے کہ امیر معاویہ مختلف تحائف کے علاوہ حسنین کریمین کو دس لاکھ درہم بطور ہدیہ پیش کرتے تھے۔شیعوں کے ایک اور بڑے عالم اور ان کی سب سے معتبر کتاب نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:”معاویہ دنیا میں پہلے شخص تھے جنہوں نے دس دس لاکھ درہم بطور عطیہ دیے……..حضرت علی کے دونوں بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو ہر سال دس دس لاکھ درہم دیے جاتے۔اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کو بھی دیے جاتے۔(ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ۔ 11/265)سرور چشتی!آنکھیں کھول کر پڑھو، بار بار پڑھو!حسنین کریمین مولائے کائنات سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کے حقیقی لاڈلے ہیں، جب مولیٰ علی کے حقیقی لاڈلوں کی بارگاہ میں امیر معاویہ کا ہدیہ اور تحفہ قبول کر لیا گیا تو ان کی بارہویں پشت میں پیدا ہونے والے لاڈلے کی درگاہ پر صدقہ معاویہ کیوں نہیں مانگا جا سکتا؟یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ صدقہ معاویہ پر اعتراض کرنا حسنین کریمین کے مزاج ومنہج کی مخالفت ہے۔اب سنی اپنے سردار کی مانیں یا رافضیت کے طرف دار کی مانیں!! امیر معاویہ کی نفرت میں رافضی اور سرور چشتی تقریباً ایک جیسی زبان استعمال کرتے ہیں، اس لیے ہم نے ہدیہ معاویہ پر اہل سنت کی بجائے شیعہ مکتب فکر کے حوالے نقل کئے ہیں کہ سرور چشتی اور ہم نواؤں کو یاد رہے کہ شیعہ جیسے دشمنان معاویہ نے بھی ہدیہ معاویہ کی سچائی کو قبول کیا ہے۔حالانکہ ہدیہ معاویہ پر اہل سنت کے یہاں بھی متعدد تحقیقی روایات ہیں، تفصیل کے لیے تاریخ دمشق، البدایہ والنہایہ اور کشف المحجوب کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔____________جاہلی عصبیت کا مظاہرہایک طرف سرور چشتی اور اس کے ہم نوا “ہدیہ معاویہ” والی روایات اور حسنین کریمین کی مخالفت کرتے ہیں تو دوسری جانب اپنی فکر کو صحیح ٹھہرانے کے لیے یہ غیر اسلامی اور متعصبانہ تبصرہ بھی کرتے ہیں:”بنو امیہ کے نعرے بنو ہاشم کے گھر پہ لگائے گئے۔”حضرت امیر معاویہ خاندان بنو امیہ اور غریب نواز خاندان بنو ہاشم سے ہیں اس لیے سرور چشتی کو اس بات کی بھی شکایت ہے کہ بنو ہاشم کے گھر میں بنو امیہ کے فرد کا ذکر کیوں کیا گیا؟قبول اسلام سے پہلے بنو ہاشم اور بنو امیہ کی آپسی شکر رنجیوں کی بنیاد پر افتراق وانتشار کی باتیں کرنا تعصب بے جا اور جاہلی عصبیت کا شرم ناک مظاہرہ ہے۔افسوس! بغض صحابہ نے اس شخص کو جاہلی تعصب کی غلاظت تک پہنچا دیا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ہرگز ایسی گندی بات زبان پر نہ لاتا۔اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اگر بنو امیہ اتنے ہی خراب تھے تو بنو ہاشم نے ان سے دوستیاں/رشتہ داریاں کس لیے قائم کیں؟🔹نبی کریم ﷺ کے نکاح میں خاندان بنو امیہ کی بیٹی ام المومنین سیدہ ام حبیبہ بھی تھیں جو حضرت امیر معاویہ کی سگی بہن اور حضرت ابو سفیان وہندہ کی بیٹی ہیں۔ 🔸 نبی کریم ﷺ نے اپنی تین شہزادیوں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہن کا نکاح خاندان بنو امیہ میں حضرت ابوالعاص بن ربیع اور حضرت عثمان غنی رضی عنہما سے فرمایا۔🔹نبی کریم ﷺ کی سگی پھوپی زاد بہن ارویٰ بنت کریز خاندان بنو امیہ کے بیٹے عفان بن ابوالعاص کی زوجہ اور سیدنا عثمان غنی کی والدہ تھیں۔🔸 حضرت علی کی سگی بھتیجی سیدہ ام کلثوم بنت جعفر طیار بن ابوطالب حضرت عثمان غنی کے بیٹے ابان بن عثمان سے بیاہی تھیں۔یہ تو محض چند مثالیں ورنہ ایسی درجنوں مثالیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خاندان بنو ہاشم اور خاندان بنو امیہ میں قبول اسلام کے بعد کسی طرح کا کوئی اختلاف یا تعصب نہیں تھا۔دونوں خاندانوں کے درمیان قبائلی تعصب پھیلانے کا کام کبھی ابن سبا جیسے منافقوں نے کیا تھا اور آج اس کی جانشینی کا فریضہ سرور اور اس کے ہم نوا انجام دے رہے ہیں۔سرور چشتی کو فرزند بنو ہاشم غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کا یہ اقتباس پڑھنا چاہیے جس میں آپ نے صلح امام حسن کے بعد امیر معاویہ کی خلافت کو ماننا واجب قرار دیا ہے، لکھتے ہیں کہ:”امام حسن رضی اللہ عنہ کے صلح کرنے سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت واجب ہوگئی۔ اس سال کا نام “سن جماعت” اس لیے رکھا گیا کہ مسلمانوں کا اختلاف ختم ہوگیا اور سب نے حضرت امیر معاویہ کی طرف رجوع کرلیا پھر کوئی تیسرا مدعی خلافت باقی نہ رہا۔(غنیۃ الطالبين مترجم ص 165)یہ بھی یاد رہے کہ بنو ہاشم اور بنو امیہ کی رشتہ داریاں معرکہ کربلا سے پہلے بھی ہوئیں اور سانحہ کربلا کے بعد بھی، اس لیے سرور چشتی اختلاف بنو امیہ و بنو ہاشم والا راگ اپنے اور شیعوں تک ہی رکھے اہل سنت میں جھوٹ پھیلانے کی کوشش نہ کرے۔_______کیا یہ اسلوب مشائخ چشت سے ثابت ہے؟سرور چشتی کے ویڈیو میں ایک بات جو سختی سے نوٹ کیے جانے لائق ہے، وہ صحابی رسول امیر معاویہ کے متعلق نہایت بدتمیزی اور بے ہودہ اسلوب ہے۔سرور چشتی اور اس کے حامی مشائخ چشت سے یہ اسلوب اور لہجہ ثابت کر سکتے ہیں؟ایک طرف خود کو مظلوم اور بے قصور دکھانے کی ایکٹنگ کرنا۔غریب نواز کی خدامی کے نام پر عوام اہل سنت سے نذرانے وصولنا اور دوسری جانب نسبت رسالت کو پامال کرتے ہوئے ایک ایسے صحابی کی شان میں بے ادبی کرنا جس کو نواسہ رسول امام حسن نے خلیفہ بنایا۔جن کے ہاتھ پر امام حسن نے لوگوں سے بیعت کرائی۔جن کی مہمان نوازی کا لطف اٹھایا۔ان کے پیش کردہ ہدایا اور تحائف قبول کئے۔انہیں امیر المومنین مانا اور منوایا۔کیا ایسی ذات پر اس بازاری لہجے میں بات کرنے پر بھی اہل خانقاہ اور مشائخین خاموش رہیں گے۔کیا ایک صحابی کی حرمت ذاتی مفادات سے زیادہ عزیز ہے؟یہ سوال انجمن سیدزادگان اور خدام آستانہ سے جواب چاہتا ہے کہ کیا سیدنا غریب نواز اور مشائخ چشت نے امیر معاویہ کے متعلق یہی ہلکا لہجہ اور گھٹیا اسلوب اختیار کیا تھا؟اگر نہیں تو پھر آستانہ غریب نواز کے سیکرٹری جیسے اہم منصب پر بیٹھنے والا شخص اس دیدہ دلیری کے ساتھ حرمت صحابہ پر کس طرح حملے کر رہا ہے۔اب تک اس کی زبان بندی کیوں نہیں کی گئی؟اتنے اہم معاملے پر انجمن کے ذمہ داران کس لیے خاموش ہیں؟اگر حرمت صحابہ جیسے معاملے پر بھی مشائخ خاموش رہتے ہیں تو عوام اہل سنت میں یہی پیغام جائے گا کہ سرور چشتی کی بدتمیزی کو سبھی خدام کی حمایت حاصل ہے۔اس لیے آستانہ غریب نواز کے ذمہ داران سامنے آئیں اور سرور چشتی کی ہفوات پر لگام لگائیں اور توہین صحابہ کی پاداش میں اسے برطرف کرکے کسی صحیح العقیدہ شخص کو اس منصب پر مقرر کریں۔__________سیکولر حضرات کا رویہسانحہ اجمیر کے فوراً بعد ہی کچھ نازک مزاج حضرات نے آداب مزارات کی تلقین وتاکید کا سلسلہ شروع فرما دیا جو کہ ان کا حق بھی تھا مگر اس سانحہ کے بعد جس بے باکی کے ساتھ حرمت صحابہ کو پامال کیا گیا اس پر نازک مزاجوں کی خاموشی نے ان کے دعوی آداب پر سوالیہ نشان لگا دئے ہیں:کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیںخامشی ان کی مجرمانہ ہےنعرہ زنوں کا رویہ اگر آداب درگاہ کے خلاف تھا تو حرمت صحابہ پر حملہ زنی اس سے زیادہ خطرناک ہے لیکن یار لوگوں کی سیکولر مزاجی کی داد دینا ہوگی کہ نعرہ زنوں کی مذمت کے لیے سارے لوگ ادب کی کتابیں کھولے گھوم رہے تھے مگر شان صحابیت میں بدتمیزی کرنے والے مجاور پر کسی سیکولر مزاج کے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکلا۔کبھی ٹھنڈے دل سے سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچنا کہ وہ کون سا سبب تھا جس نے نعرہ زنوں کی مخالفت پر ابھارا اور وہ کون سی وجہ ہے کہ توہین صحابہ پر بھی سیکولروں کی زبانیں گونگی بنی ہوئی ہیں؟اچھی طرح یاد رکھیں! صحابہ کرام کی عزت وحرمت نسبت رسالت کی بنیاد پر ہے اگر کوئی بدنصیب انسان فرمان رسالت کی مخالفت کرتے ہوئے صحابہ کرام کی شان میں بد زبانی کرتا ہے تو وہ صرف صحابی ہی کی نہیں بل کہ نسبت رسالت کی بے ادبی کا مرتکب ہوتا ہے۔سرور چشتی کو چاہیے کہ وہ آستانہ غریب نواز پر ناک رگڑ کر سلطان الہند سے معافی طلب کرے جس نے ان کے جد اعلی حسنین کریمین کے منتخب کردہ امیر المومنین کی شان میں بے ادبی کرکے نہ صرف غریب نواز، حسنین کریمین اور ان کے جد اعلی حضور سید عالم ﷺ کو بھی ناراض کیا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ محبوبوں کے گستاخ کبھی فلاح نہیں ہاتے بل کہ نشان عبرت بنا دئے جاتے ہیں۔کیسے کر لیتے ہیں اصحاب پہ انگشت زنیعام سی شے تو نہیں صحبتِ سلطانِ عربﷺ٢٢ رجب المرجب ١٤٤٤ھ14 فروری 2023 بروز منگل