کیا واقعی اسلام دین اعتدال ہے
کیا واقعی اسلام دین اعتدال ہے؟
از : یاسر ندیم الواجدی
جب بھی کبھی ایسا شرعی موقف اختیار کیا جاتا ہے، جو موجودہ معیارات کے اعتبار سے سخت گیر کہلایا جا سکتا ہو، تو کچھ لوگ فوراً یہ دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ اسلام دین اعتدال ہے، اسلام رواداری کا مذہب ہے اور اسلام بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں، ایک اسلام دشمن ہی ان باتوں کا انکار کر سکتا ہے، لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ ہم اعتدال اور رواداری کے معنی مغرب سے یا سیکیولر دماغوں سے مستعار لیتے ہیں۔ اسلام کو اگر ان مغربی پیمانوں پر پرکھا جائے، تو اسلام کبھی بھی دین اعتدال نہیں ہوسکتا۔
مغربی اعتدال یہ ہے کہ مقدس شخصیات کے حوالے سے تنقید کو برداشت کیا جائے، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ مغربی اعتدال یہ ہے کہ مذہب کے نام پر جنگ نہ کی جائے، اسلام مذہب کے نام پر جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ مغربی رواداری یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی آزادی ہے۔
اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی مسلمان اپنے دین کو ترک کر کے، دوسرے دین کی تبلیغ کے ذریعے معاشرے میں فساد پھیلائے۔ مغربی رواداری یہ ہے کہ منکرین آخرت بھی اپنے مخالفین کی موت پر “ریسٹ ان پیس” کہتے نظر آتے ہیں۔ اسلام واضح اعلان کرتا ہے کہ منکرین دین ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔
آپ مغرب کے ساتھ کہاں تک چلیں گے؟ نوجوانوں کے ذہنوں میں شبہات پیدا ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ مغربی اطوار کو حاکم مان کر اسلام کو ان کے مطابق کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کامیاب نہیں ہوتے تو آہستہ آہستہ دین چھوڑ دیتے ہیں۔
اعتدال اس چیز کا نام نہیں ہے کہ سیاہ اور سفید رنگ کو نظر انداز کر کے سرمئی رنگ کو اصل سمجھ لیا جائے۔ شریعت ایمان وکفر کے درمیان کسی ابہام کی قائل نہیں ہے۔ یہاں سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنا ہی اعتدال ہے
اگر مغرب کے لیے دنیوی عیاشی کے وسائل اتنے اہم ہیں کہ ان کی وجہ سے وہ جنگ وجدال میں کود پڑتا ہے، تو مسلمانوں کے لیے مذہب اور اخروی سعادت سے بڑھ کر اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔ لہذا اسلامی ممالک کے لیے مذہب کی بنیاد پر جنگ کو جائز سمجھنا ہی اعتدال ہے۔
اگر مغربی نظام میں نیشن اسٹیٹ یا ریاست کے خلاف مہم چلانا بغاوت تصور کیا جا سکتا ہے، تو مرتدین کے ذریعے مذہب کے خلاف مہم چلانے کو بغاوت تصور کرنا ہی اعتدال ہے۔
اگر مغرب یہ سمجھتا ہے کہ آپ اپنے مخالف کی زندگی میں اس کے خلاف ہر طرح کی تنقید بلکہ تنقیص کے لیے آزاد ہیں، تو اسلام اس سے کہیں بہتر رویے کی تعلیم دیتا ہے، اسلام حکم دیتا ہے کہ دین مخالف عناصر کی زندگی میں ان کی ہدایت کے لیے دعا کی جائے، لیکن ان کے مرنے کے بعد ان کے جہنم رسید ہونے کا یقین رکھا جائے۔
عیسائیوں نے بائبل میں تحریف اسی لیے کی کہ ان کو لگا کے بائبل کی آیات بدلتے ہوئے زمانے کا ساتھ نہیں دے پا رہی ہیں۔ تحریف کے خلاف بائبل میں واضح حکم نہ ملنے کی وجہ سے وہ تحریف کرتے رہے لیکن پھر بھی عیسائی رہے۔ شریعت نے اگر قرآن کی تحریف کو کفر قرار نہ دیا ہوتا اور اللہ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا ہوتا، تو آج کا مغرب زدہ مسلمان قرآن کو نام نہاد رواداری کے نام پر بدل چکا ہوتا۔
عقل مند انسان کسی نظریے سے اس لیے متاثر نہیں ہوتا کہ اس کے اصولوں میں لچک ہے، بلکہ وہ اس لیے متاثر ہوتا ہے کہ اس نظریے کے اصول پختہ اور واضح ہیں۔ دنیا میں عقلمندوں کی کمی ہے، اسی لیے نسبتا کم تعداد اسلام قبول کرتی ہے، لیکن جو تعداد بھی اسلام میں داخل ہوتی ہے وہ اسلام کے مداہنت سے آزاد اصول و ضوابط کی وجہ سے داخل ہوتی ہے۔