دغا باز

Spread the love

از قلم : محمد اظہر شمشاد مصباحی افسانہ دغا باز

 دغا باز

شمیم شہر کا سب سے نامی چائے والا تھا اس کی دکان میں ہر وقت چائے کے عاشقوں کا میلہ لگا رہتا اور دنیا بھر کے مقدموں کا فیصلہ وہیں پیش کر کے لوگوں کے مختلف راۓ سے مختلف انداز میں حل کر لیا جاتا سونو: شاہ رخ چل بھئی چاۓ واۓ پی کر آتے ہیں۔ ٹھنڈ بھی آج بہت لگ رہی ہے۔ 

شاہ رخ: ہاں بھئی چلو۔ پتہ نہیں کونسی انوکھی جادو ہے چاۓ میں بوڑھا، بچہ، جوان ہر کوئی اس کا دیوانہ ہے میں تو کھانے کے بغیر رہ لوں بھیا مگر چاۓ کے بغیر نہیں۔سونو: ہاں بھئی میرا بھی معاملہ یکساں ہے۔دونوں اپنی زندگی کی رنگینیوں کا بیان کرتے ہوئے مستانہ انداز میں چاۓ کی دکان پہنچیں جہاں پہلے ہی سے چاۓ کے عاشقوں کی لمبی لائن تھی اور وہاں بیٹھے سبھی اپنے اپنے احباب کے ساتھ محو گفتگو تھےسونو: چلو یار آج کسی انکل کے پاس بیٹھ کر گیان کی باتیں سنتے ہیں۔

شاہ رخ: ہاں ہاں چلو۔دونوں خود سے کچھ عمر دراز لوگوں کے پاس بیٹھ گئے۔ ان انکل میں سے ایک نے پوچھا تم شاہ رخ شمشاد صاحب کے بیٹے ہو نا ؟.

شاہ رخ: جی انکل درست فرمایا آپ نے۔انکل: ارے بیٹا تمہارے والد صاحب سے بہت اچھی بنتی ہے میری بہت با ہمت مرد ہیں تمہارے والد صاحب۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ خوش رکھے ۔یہ کہہ کر وہ اپنے احباب کے ساتھ محو گفتگو ہو گۓ۔

سونو شاہ رخ دونوں ان لوگوں سے قریب ہو کر ان کی باتیں سننے لگیں ان میں سے ایک انکل نے کہا یار دنیا میں ہر چیز ممکن ہے ہر کچھ ہو سکتا ہے پر ایک چیز کبھی نہیں ہوگی ۔سونو: سب کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کیا انکل؟.

انکل: ارے بیٹا کنارے کیوں ہو ادھر آ جاؤ تم لوگ ہی تو قوم کے مستقبل ہو آگے چل کر تم لوگ ہی ملک و ملت کے رہنما بنو گے اس لیے تم لوگوں کو اپنے سے بزرگوں کے پاس ضرور بیٹھنا چاہیے تاکہ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکو کیوں کہ کسی مہان آدمی نے کہا تھا کہ زندگی بہت مختصر ہوتی ہے اسے خود سے تجربات کرنے‌ میں مت گنواؤں بلکہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاؤ مگر آج کل کے نوجوان تو فقط گوگل اور سوشل میڈیا ہی پر علم حاصل کرنے میں لگے ہیں شاید انہیں یہ نہیں معلوم کہ گوگل اور سوشل میڈیا سے علم تو حاصل کر سکتے ہیں دوسرے لوازمات زندگی نہیں جیسے کہ تجربہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہم اپنے بزرگوں سے ہی حاصل کر سکتے ہیں ۔شاہ رخ: جی انکل آپ نے بالکل درست فرمایا مگر ہم اب تک اصل بات کی طرف نہیں آۓ ہیں جو کہ آپ کا موضوع سخن ہے۔

انکل: ہاں بیٹا صحیح کہا تم نے مگر یہ ساری باتیں میں اس لیے تم سے کہہ رہا ہوں کہ” شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات” اور تم بھی اپنے بزرگوں سے استفادہ حاصل کرو انہیں اکیلا نہ چھوڑو ان کے ساتھ وقت گزارو کیوں کہ موبائل آنے کی وجہ سے سب سے زیادہ اکیلے وہی لوگ ہو گۓ ہیں

آج کے نوجوان تو اپنے موبائل میں مست رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے بزرگ سب کے ساتھ ہونے کے باوجود بھی خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں ان سے باتیں کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔خیر تو چلو موضوع کی طرف چلتے ہیں جو تم نے پوچھا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر چیز ممکن ہے بہت کچھ ہو سکتا ہے

لیکن ایک چیز کبھی نہیں ہو سکتی وہ ہے ہمارے لیڈران کا وعدہ وفا کرنا الیکشن سے پہلے تو یہ بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں یہ بنا دیں گے وہ بنا دیں گے سڑکیں درست کروادیں گے وغیرہ وغیرہ لیکن وہی لیڈر الیکشن جیتنے کے بعد 4 سال تک نظر ہی نہیں آتا پانچواں سال لوگوں کو پھر سے بے وقوف بنانے کے لیے نۓ نۓ سیاسی ہتھکنڈے لے کر عوام کو گمراہ کرنے پہنچ جاتا ہے

یقیناً دنیا کے سب سے بڑے دغاباز یہی لوگ ہوتے ہیں اگر ہمارے لیڈران عوام کو دغا نہ دیں اور اپنے کیے ہوئے وعدوں میں سے آدھا بھی پورا کر دیں تو ہمارا دیش ہر اعتبار سے دنیا‌ میں سر فہرست رہے گا

ہندوستان کے لوگوں میں خداۓ تعالیٰ نے غضب کی ذہانت عطا کی ہے اگر سیاسی لیڈران اپنے مکر و فریب اور دغا سے باز آ کر ہندوستان کے ذہین لوگوں کی ذہانت کی قدر کریں تو ہم بھی ایک سے بڑھ کر ایک ایٹمی ہتھیار اور نئی نئی چیزیں ایجاد کر سکتے ہیں ۔

سونو: ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے جی انکل! بالکل صحیح کہا آپ نے اپنے پڑوس کا اقبال کو ہی دیکھ لیجیے اچھا پڑھا لکھا ہوشیار تھا پر نوکری نہ ہونے کی وجہ سے کھانے کے لالے پڑے تھے گھر میں ۔

کچھ دن پہلے ہی امریکہ کے کسی کمپنی میں اسے اچھے پوسٹ پر نوکری ملی ہے اور تنخواہ بھی ماشاء اللہ اچھی ہے اگر ہمارے دیش میں بھی روزگار کے مواقع زیادہ ہوتے تو کسی کو اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر باہر دیش نہ جانا پڑتا ۔

سونو: شاہ رخ کی بات کاٹتے ہوئے کہتا ہے ارے میاں! تم یہاں روزگار کی بات کر رہے ہو روزگار بعد میں دیں پہلے خراب سڑک ہی بنوا دیں روز کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا رہتا ہے سڑک کے خراب ہونے کی وجہ سے ہمارے شہر کی سڑکوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ روز کوئی نہ کوئی موٹر سائیکل لے کر گرتا ہی ہے

اور اگر بارش ہو جائے تو پھر پوچھو ہی مت سڑک کی حالت کیا ہوتی ہے پچھلے الیکشن ہی میں کاؤنسلر صاحب نے یہ یقین دلایا تھا کہ وہ اس بار الیکشن جیت گئے تو سب سے پہلے از سر نو سڑک کی مرمت کروائیں گے ان کا الیکشن جیتے ہوئے دو سال سے زیادہ ہو گیا پر ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے ۔

سونو: ہاں بھئی صحیح کہا تم نے وہ اپنے پہلوان چچا ہیں نا ان کا بیٹا اس خراب سڑک پر موٹر سائیکل لے کر ایسا گرا کہ بیچارے کا پیر ہی ٹوٹ گیا ۔انکل: مزاحیہ انداز میں، ارے بیٹا میں تو روز بینک جا کر اپنا اکاؤنٹ چیک کرتا ہوں کہ کہیں پندرہ لاکھ میرے اکاؤنٹ میں آ جائے اور مجھے خبر ہی نہ ہو مگر جس دن بھی آۓ گا میں نے سوچ لیا ہے چاۓ کی دکان ہی کھولوں گا ہو سکتا ہے میں بھی چاۓ بیچتے بیچتے نیتا ویتا بن جاؤں۔

انکل کی بات سن کر پاس بیٹھے سبھی لوگوں کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی اور قریب ہی بیٹھے ایک بزرگ فرمانے لگیں بیٹا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اس حال کے پیچھے سیاسی لیڈران کا بہت بڑا ہاتھ ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کچھ حد تک ہم بھی ذمہ دار ہیں ہم لیڈران کا انتخاب فقط جملوں پر کر لیتے ہیں جو جتنا جھوٹا وعدہ کرتا ہے عوام اسے ہی زیادہ ووٹ دیتی ہے اور پھر الیکشن کے بعد یہ لوگ عوام کو دغا دے کر آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں

اور ان سب میں ان کا سب سے بڑا ہتھیار دھرم ہوتا ہے کبھی ہندو مسلم کبھی سکھ عیسائی کے درمیان پھوٹ پیدا کر کے ہمارے اتحاد کو روند کر بڑی آسانی کے ساتھ الیکشن جیت جاتے ہیں اور جیتنے کے بعد اپنے من سے نا قابل قبول عجیب و غریب بل پاس کر کے عوام پر مسلط کر دیتے ہیں چاہے وہ سی اے اے این آر سی ہو یا کسان بل۔

جب عوام کو یہ بل منظور ہی نہیں تو کیا ضرورت حکومت کو ایسے بل لاکر انہیں پریشان کرنے کی خیر ہمیں کسان بھائیوں کے ہمت و حوصلے کو سلامی دینی چاہیے کہ اتنی پریشانیوں کا سامنا کر کے بھی اپنے حق کے لیے لڑتے رہیں

مگر ہار نہیں مانی اور آخر کار حکومت کو وہ بل واپس لینا ہی پڑا اگر چہ اس میں الیکشن جیتنے کا لالچ ہی کیوں نہ ہو لیکن پھر بھی کسانوں کی اس میں جیت ہوئی اگر اسی طرح ہم ڈٹ کر کھڑے رہیں تو ایک دن ہم سارے غلط سسٹم کو بدل سکتے ہیں

مگر ہم ایسا‌ نہیں کرتے اس لیے ہمارے اس حال کے ہم بھی ذمہ دار ہیں اگر ہم اپنے آپسی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر الیکشن کے وقت متحد ہو کر ایسے لیڈر کا انتخاب کریں جو واقعی ہمارے ووٹ کا مستحق ہو جو ہمارے مستقبل کو تابناک بنانے کی بھرپور کوشش کرے جو الیکشن جیتنے کے بعد عوام کے ساتھ دغا بازی نہ کرے تو پھر ہمارے دیش کا نقشہ بھی کچھ اور ہوگا ہمارا نام بھی ہر چیز میں سر فہرست ہوگا ۔

سونو: ہاں دادا جی بالکل صحیح بات کہی آپ نے۔شاہ رخ سونو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے جی دادا جی آپ نے پتے کی بات کی ہے اور ایک چیز تو سمجھ آگئی کہ زندگی خود سے تجربات کرنے کے لیے بہت چھوٹی ہے اس لیے دوسروں کے  تجربے سے ہی ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے

اور یہ ہمیں اپنے بزرگوں سے ہی حاصل ہوگا ۔داداجی: مسکراتے ہوئے ہاں بیٹا! بالکل صحیح۔شاہ رخ: آپ لوگوں نے تو آج چاۓ کا مزہ دوگنا کر دیا بہت شکریہ دادا جی۔ اچھا ہم لوگ اب چلتے ہیں بہت تاخیر ہوگئی ہے۔ خدا حافظ!یہ کہہ کر دونوں اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑیں ۔

سونو: یار شاہ رخ آج تو مزہ آ گیا بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔شاہ رخ: ہاں صحیح کہا تم نے پر آج سب سے اہم بات جو میں نے سیکھی وہ یہ ہے کہ دنیا میں سب سے بڑے دغاباز نیتا ہی ہوتے ہیں ۔سونو: ہاں بھئی بالکل صحیح بات ان سے بڑا دغا باز دنیا میں کوئی نہیں ۔یہ کہہ کر دونوں جدا جدا راہوں سے اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑیں ۔
محمد اظہر شمشاد مصباحی برن پور بنگال 


ان مضامین کو بھی پڑھیں

 تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں 

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

 مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر

قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی 

محبت کریں پیار بانٹیں

ایک مظلوم مجاہد آزادی

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

  قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی 

 اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

 مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز

۔ 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें 

One thought on “دغا باز

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *