عوامی نمائندوں ایکٹ اور اداروں کی جلد بازی
عوامی نمائندہ ایکٹ اور اداروں کی جلد بازی !!
غلام مصطفےٰ نعیمی روشن مستقبل دہلی
ابھی راہل گاندھی کی پارلیمانی رکنیت منسوخی کا معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں پڑا تھا کہ لکشدیپ کے ایم پی محمد فیضل کی رکنیت بحالی کے معاملے نے ایک بار پھر بی جے پی حکومت کو کٹگھرے میں کھڑا کردیا ہے۔
سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر بی جے پی کے متعین کردہ اسپیکر اور الیکشن کمیشن جیسے ادارے غیر بی جے پی ارکان کے معاملے میں اتنی جلد بازی سے کام کیوں لیتے ہیں۔
چوں کہ دونوں معاملوں کے درمیان محض پانچ دن کا فاصلہ ہے اس لیے بی جے پی کے خلاف یہ الزام مضبوط ہوتا جارہا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لیے قانون، عدلیہ اور سرکاری اداروں کا بے جا استعمال کر رہی ہے۔
محمد فیضل کا معاملہ
محمد فیضل لکشدیپ جزیرے کے ایم پی تھے۔ان کے خلاف مقامی عدالت میں اقدام قتل کا کیس درج ہوا تھا۔ اسی کیس میں انہیں نچلی عدالت نے گیارہ جنوری 2023 کو دس سال کی سزا سنائی۔ٹھیک دو دن بعد 13 جنوری لوک سبھا اسپیکر نے ان کی رکنیت منسوخی کا نوٹس جاری کردیا۔
نوٹس کے پانچویں دن ہی الیکشن کمیشن نے تیزی دکھاتے ہوئے لکشدیپ سیٹ کے لیے ضمنی انتخاب کا اعلان بھی کردیا۔محمد فیضل نے اپنے خلاف آئے نچلی عدالت کے فیصلے کو کیرل ہائی کورٹ میں اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔25 جنوری کو کیرل ہائی کورٹ نے فیضل کی سزا پر روک لگا دی۔
اسی کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اعلان پر پابندی لگا دی۔یہ سارے معاملات پندرہ دنوں کے اندر ہوئے۔گیارہ کو فیضل کو سزا ہوئی، 13 کو رکنیت منسوخ ہوئی، 18 کو ضمنی الیکشن کا اعلان، 25 کو ہائی کورٹ سے سزا پر روک اور 27 کو ضمنی الیکشن پر پابندی!
اس کے بعد محمد فیضل نے لوک سبھا اسپیکر کو خط لکھ کر اپنی رکنیت بحال کرنے کی گزارش کی لیکن جن اسپیکر صاحب نے اعلان سزا کے ایک دن بعد ہی فیضل کی رکنیت منسوخ کر دی تھی انہوں نے اگلے دو مہینوں تک فیضل کی عرضی پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔
تنگ آکر محمد فیضل نے لوک سبھا اسپیکر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جہاں 28 مارچ کو شنوائی ہوئی۔آج انتیس تاریخ کو فیصلہ سنایا جانا تھا۔قبل ازیں کہ کورٹ کی کاروائی شروع ہوتی، پارلیمنٹ سکریٹریٹ کی جانب سے آنا فاناً محمد فیضل کی رکنیت بحالی کا لیٹر جاری کردیا گیا اس طرح محمد فیضل صاحب کی پارلیمانی رکنیت بحال ہوگئی۔
عجلت کی وجہ کیا ہے؟
محمد فیضل کے معاملے میں پارلیمنٹ سکریٹریٹ کی حالیہ کاروائی سے جہاں محمد فیضل کو راحت ملی وہیں اس پر کچھ گمبھیر نوعیت کے سوالات بھی کھڑے ہوگیے ہیں جو براہ راست اسپیکر اور الیکشن کمیشن سے جواب چاہتے ہیں:
1۔محمد فیضل کو سنائی گئی نچلی عدالت کی سزا پر فوراً رکنیت منسوخ کرنے کیا ضرورت تھی۔دنیا جانتی ہے کہ ہر متاثر انسان نچلی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ/سپریم کورٹ میں چیلنج کرتا ہے۔
اس کے باوجود بھی پارلیمنٹ اسپیکر نے محض دوسرے ہی دن فیضل کی رکنیت کس لیے منسوخ کی؟
2۔رکنیت منسوخی کے بعد ان کی سیٹ خالی مان لی گئی تھی۔خالی سیٹوں پر انتخاب کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس چھ مہینے تک کا وقت ہوتا ہے لیکن فیضل کے معاملے میں محض پانچ دن کے اندر ہی ضمنی الیکشن کا اعلان کردیا گیا آخر اسپیکر کی طرح الیکشن کمیشن کو بھی کون سی جلدی تھی۔
جب دستور میں چھ مہینے تک کی مہلت رہتی ہے تو محض پانچ دن میں فیصلہ لینے کیا ضرورت تھی۔کیا وہ متاثرہ فریق کے اگلے اقدام تک انتظار نہیں کر سکتا تھا؟
3۔جب کیرل ہائی کورٹ نے محمد فیضل کی سزا پر روک لگا دی اور دوسری جانب سپریم کورٹ نے ضمنی الیکشن کا اعلان بھی منسوخ کردیا اس کے بعد بھی محمد فیضل کی رکنیت بحال کیوں نہیں کی گئی؟
4۔جب سپریم کورٹ میں اسپیکر کے فیصلے کو چیلنج کردیا گیا، شنوائی ہوگئی اور آج ہی فیصلہ آنا تھا تو فیصلے آنے سے پہلے ہی رکنیت کس لیے بحال کی گئی؟
کیا حکومت کو اندازہ ہوگیا تھا کہ سپریم کورٹ فیضل کی رکنیت بحال کردے گی۔اس لیے سپریم کورٹ کے حکم سے بچنے کے لیے ایسا کیا گیا یا پھر کورٹ کی سرزنش سے بچنے کے لیے آناً فاناً رکنیت بحالی کا فیصلہ لیا گیا؟ حالانکہ یہ فیصلہ دو مہینے سے التوا میں پڑا ہوا تھا مگر اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا۔اب جب کہ فیصلہ آنے ہی والا تھا کہ رکنیت بحال کردی گئی۔
بی جے پی کا دوہرا رویہ
عوامی نمائندہ ایکٹ کے معاملات میں اسپیکر/الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کا رویہ غیر بی جے پی ارکان کے لیے ضرورت سے زیادہ سخت نظر آتا ہے جب کہ یہی ادارے اس وقت انتہائی نرمی اور ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں جب معاملہ بی جے پی ارکان سے جڑا ہو۔جس کی ایک نظیر بھاجپا لیڈر وکرم سینی ہے جو بی جے پی کے ایم ایل تھا۔
اسے 2013 کے مظفر نگر کے مسلم کش فساد میں قتل وغارت کا قصور وار پایا گیا اور دوسال کی سزا سنائی گئی لیکن سزا یافتہ ہونے کے مہینوں تک بھی یوپی اسمبلی کے اسپیکر اور الیکشن کمیشن کانوں میں تیل ڈالے سوتے رہے ہاں جیسے ہی اعظم خان کو سزا ہوئی فوراً ہی اسپیکر اور الیکشن کمیشن بیدار ہوگئے اور چند گھنٹوں ہی میں رکنیت منسوخی اور ضمنی الیکشن کا اعلان ہوگیا۔ایسا ہی معاملہ راہل گاندھی کے ساتھ بھی پیش آیا۔
چوبیس تاریخ کو راہل کے خلاف فیصلہ آیا اگلے ہی دن اسپیکر نے رکنیت منسوخی کا نوٹس جاری کردیا اور ایک دن بعد ہی لوک سبھا ہاؤسنگ کمیٹی نے راہل کو سرکاری بنگلہ خالی کرنے کا نوٹس بھی جاری کردیا۔کیا اس تیزی کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ ادارے ضرورت سے زیادہ فعالیت دکھا رہے ہیں۔
جب کہ یہی وہ ادارے ہیں جو بی جے پی سے قربت کی بنیاد پر سالوں سال تک سرکاری بنگلوں میں رہنے والے سابق ممبران کو بھولے سے بھی نوٹس جاری نہیں کرتے لیکن معاملہ بی جے پی مخالفین کا ہو تو ان اداروں کا جوش دیکھتے ہی بنتا ہے۔اس لیے اپوزیشن پارٹیوں کا یہ الزام بالکل صحیح ہے کہ اس وقت ادارے پوری طرح مرکزی حکومت کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔
ایک جمہوری ملک میں اداروں کا اس طرح خود سپردگی کرنا کسی بھی طرح نیک فالی نہیں ہے۔کام یاب جمہوری ملک کے لیے اداروں کا غیر جانب دار ہونا بے حد ضروری ہے
Pingback: یوگا ورزش ہے یا کچھ اور اردو دنیا غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: قرآن کی بے ادبی کیوں ⋆ اردو دنیا
Pingback: جامعۃ المصطفی میں جلسہ تقسیم انعامات ⋆
Pingback: تعلیم اصلاح معاشرہ کی بنیاد ہے ⋆ مفتی ثناءالہدی قاسمی
Pingback: علامہ امام تہذیب الاسلام اور ان کی شہادت ⋆ تحریر: محمد جسیم اکرم مرکزی
Pingback: بزم رضائے قدسی کی جانب سے 122واں عرس سرقاضی بنگلورمنایاگیا ⋆
Pingback: سیاسی بے قدری اور بڑھتی ہوئی رسوائیاں ⋆ اردو دنیا
Pingback: پٹتے اورقتل ہوتے ائمہ ⋆ از:مفتی محمدعبدالرحیم نشترؔفاروقی
Pingback: یونی فارم سیول کوڈ کا معاملہ ابھی ٹھنڈا ہے ختم نہیں ہوا ہے ⋆
Pingback: قائدین کی خاموش مزاجی ملت کی تباہی کا پیش خیمہ ⋆ اردو دنیا ⋆ از : مفیض الدین مصباحی