نفرت انگیز نفسیات کو پروان چڑھانے والے عوامل
نفرت انگیز نفسیات کو پروان چڑھانے والے عوامل
علیزے نجف
پچھلے دنوں ممبئی ٹرین میں ہونے والا حادثہ بےشک بہیمانہ اور انسانیت سوز تھا جس نے عام لوگوں کے دلوں میں ایک خوف پیدا کر دیا ہے، یوں لگتا ہے کہ ایسے شرپسندوں کی ایک فوج تیار ہو چکی ہے جو کہیں سے بھی نمودار ہو سکتے ہیں
جس طرح سے ایسے واقعات کا تناسب بڑھ رہا ہے اس کو دیکھ کر یوں لگ رہا ہے کہ اس کو کر گزرنے والوں کو ذہن میں نہ کوئی خوف ہے نہ کوئی ڈر بلکہ وہ ایسا کر کے انتہائی فخر محسوس کرتے ہیں۔
عام انسانی فطرت کے خلاف کام کر کے خوشی حاصل کرنے والا انسان بےشک کبھی نارمل نہیں ہو سکتا اس کی ایبنارمل بنانے والے عوامل کو تحقیق کے ذریعے سامنے لا کر اس پہ قدغن لگانا ازحد ضروری ہے
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ایسے جرم کرنے والے انسان کو ہر گناہ سے بری کر دیا جائے کیوں کہ ہر انسان اپنے اندر صحیح اور غلط کی تمیز کرنے والی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اس کو بروئے کار نہ لانے کا مجرم وہ بھی ہے جس کی سزا اسے ملنی چاہیے اس کے ذریعے دوسرے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ اس انسانی معاشرے میں ایسے جرائم و مجرمین کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
اس وقت چیتن سنگھ پولیس کی کسٹڈی میں ہے اس حادثے کے بعد مختلف طرح قیاس آرائیاں ہونا شروع ہوگئی ہیں جو کہ اپنا ایک پس منظر بھی رکھتی ہیں کیوں کہ اس طرح کے حادثات اتفاقیہ طور پہ نہیں رونما ہوتے، اس کے پیچھے اس ایک فرد کی بھی ذہنیت ہوتی ہے اور ایک جماعت کی بھی جو پیچھے رہ کر اس سے یہ کام لیتی ہے، اس وقت میں اس ایک مجرم فرد کی ذہنیت کے پس پشت کارفرما نفسیات کا تجزیہ کرنا مقصود ہے۔
اس لئے سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی ذہنیت کے پروان چڑھانے میں کون سے عناصر اہم کردار ادا کررہے ہیں؟
سب سے بڑا کردار گودی میڈیا ادا کر رہا ہے، وقتی فائدوں کے لئے وہ ایسی خبروں کو ہیڈلائن بنا رہا ہے جس سے اکثریت طبقے کے لوگوں کے اندر یہ خوف پیدا ہو کہ دیکھو اقلیتی طبقے کے لوگ کس طرح ہم پہ غالب آنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان سے جڑے ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعے میں میڈیا مذہب، نفرت اور بغاوت کا کوئی نہ کوئی نکتہ نکال ہی لیتا ہے وہ خبریں بتاتا نہیں بلکہ خبریں بناتا ہے
جھوٹ کو حقیقت کی آڑ میں پیش کرتا ہے یا اگر سچ ہو بھی تو اس کو اس کے اصل حجم سے بڑا کر کے دکھاتا ہے، ان کی بھوک ٹی آر پی ہے خواہ وہ نفرت سے ملے یا محبت سے انھیں ان سے کوئی غرض نہیں ہے، دوسری طرف گودی میڈیا اپنے اچھے دن کو باقی رکھنے اور مزید اچھا بنانے کے لیے حکومتی طبقے کے تلوے چاٹنے میں کبھی شرم محسوس نہیں کرتا
صحافتی دنیا میں بھی اب اصول کی وہی اہمیت ہے جو سیاسی دنیا میں ہے جہاں پہ مفادات کے لئے کسی بھی اصول کو بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے، اور ذاتی مفاد کے لیے کسی کے بھی گیت گائے جا سکتے ہیں
جب اصول و اخلاقیات کو اس طرح پامال کیا جائے تو پھر چیتن سنگھ جیسی ہی ذہنیت پیدا ہوتی ہے، اس طرح سے نجانے کتنے لوگوں کی صالح ذہنیت و سوچ پہ پردے ڈال دئے جاتے ہیں کچھ اس طرح کہ ان کے پاس سوچنے کو کچھ باقی نہیں بچتا وہ وہی سوچتے ہیں جو انھیں گودی میڈیا اور ارد گرد کے ماحول کے ذریعے پروسا جاتا ہے، ان کے ذہن میں یک طرفہ خیالات و نظریات کے تحت پیدا ہونے والی نفرت بھانبھڑ کی طرح جلنے لگتی ہے
جب انسانی ذہن میں کسی بھی جذبے کو یک طرفہ طور پہ پروان چڑھا کر شدت کی انتہا تک پہنچا دیا جائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو ممبئی ٹرین میں ہوا بےشک ایسے لوگ نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں کیوں کہ ایک نارمل انسان ایسا کبھی نہیں کر سکتا کہ وہ کسی بھی اجنبی پہ یوں حملہ آور ہو
ہے کام یابی اصول و شعور سے مشروط
سینئر صحافی سراج نقوی سے علیزے نجف کی ایک ملاقات
ایس آر میڈیا کے ایڈمن قمر اعظم صاحب سے علیزے نجف کی ایک ملاقات
یو۔این۔این۔ کے اعزازی مدیر اور صحافی ڈاکٹر مظفر حسین غزالی کا علیزے نجف کا انٹرویو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر ظفر سریش والا سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو
انسان اسی وقت ردعمل ظاہر کرتا ہے جب اس کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے یا اس کا مفاد داؤ پہ لگتا ہے، یک طرفہ طور پہ اس طرح کی بہیمانہ حرکت کرنے والا بےشک نفسیاتی مریض ہی ہوتا ہے، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کو نفسیاتی مریض بنایا کس نے ؟
اگر اس معاشرے ، گودی میڈیا نے اسے نفسیاتی مریض بنایا ہے تو اسے معتوب ٹھہرا کر کیفر کردار تک کیوں نہ پہنچایا جائے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس پہ سوال کون کھڑا کرے اس کا جواب کون دے؟ ہر کوئی اپنے آپ کو بری الزمہ سمجھ رہا ہے جب کہ پورا معاشرہ اس میں شریک ہے۔ ہندوستان جو مختلف تہذیب و ثقافت کا منبع رہا ہے جس میں تکثیریت کو نمایاں مقام حاصل رہا ہے
جہاں پہ مذہب کے نام پہ انسانوں کی تعظیم نہیں کی جاتی تھی بلکہ انسان سے جڑی ہر شئے کو تعظیم حاصل تھی اب خواہ وہ مذہب ہو یا تہذیب و ثقافت، لیکن اب منظرنامہ تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے
تنوع پہ ضرب لگا کر ایک مخصوص وحدت اور اس سے جڑے نظریے کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، میں یہاں پہ یہ نہیں کہوں گی کہ اس کی ذمےدار مکمل طور پہ حکومت کی ہے، نہیں اس کے ذمےدار بلاتفریق مذہب و مسلک ہم سب انسان ہیں خواہ اس کا تعلق سیاست و صحافت نہ بھی ہو
ہم سب میں ایک فطرت کی الوہی روشنی ہے اس کو روشن کئے رکھنا ہماری ذمےداری ہے جس میں کہ ہماری اکثریت ناکام ہے۔ ہمارا خاندانی و تعلیمی ادارہ بھی اس میں برابر کا شریک ہے
ہر دور میں ایسے عناصر موجود رہے ہیں جو معاشرے میں شرانگیزی کرتے ہیں مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس شر پہ قدغن لگانے کے بجائے اس کو دفاع میں اٹھنے والی آوازیں اس قدر بلند ہو جائیں کہ انسانیت سسکیاں بھرنے اور ڈرتے ہوئے آہ و زاری کرنے پہ مجبور ہو جائے۔پچھلے دنوں میں نے ایک ماہر نفسیات کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے ملک کی %82 ابادی کسی نہ کسی طرح کی نفسیاتی مرض کا شکار ہے
یہ ایک بہت بڑا تناسب ہے جو کہ باعث تشویش ہے، ہم عام زندگی میں نفرت کا بےمحابہ استعمال کرتے ہیں، یک طرفہ رائے کے تحت شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں، گذرتے وقت کے ساتھ مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے لوگ مسائل کو حل کرنے کے بجائے اسے دوسروں کی دشمنی میں پڑ کر اسے پالنے لگے ہیں
اور اس کا دفاع کرنے کے لیے اسے کوئی اچھا سا نام دے دیتے ہیں جیسے مظلومیت، بےبسی، ہر عمل اپنا ردعمل رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ خاندانی سطح پہ بچوں کے جذبات اور احساسات پہ بلکل توجہ نہیں دی جاتی اس کے سامنے ہر طرح کی خبریں آرام سے دیکھی جاتی ہیں، گودی میڈیا وقتی مفاد کے لیے اپنے مہربان آقا کی شان میں قصیدہ پڑھتا رہتا ہے
صرف قصیدہ ہی پڑھتا تو شاید اتنی مشکل نہ پیدا ہوتی ان کے لیے اپنی محبوب جماعت کو اونچا ثابت کرنے کے لیے مدمقابل کی عزت کو ملیامیٹ کرنا ضروری ہوتا ہے اس طرح کی خبریں دیکھنے والے بچوں کے ذہن میں یہ نفرت پیدا نہیں ہوتی بلکہ تھوپی جاتی ہے کہ یہ تمھارے دشمن ہیں اور دشمن سے نفرت کرنی چاہیے۔
ان کی پوری نفسیات اسی کے گرد تشکیل پاتی ہے، رہی بات تعلیمی اداروں کی وہاں پہ بھی ایک مشین کی طرح ان میں صرف معلومات کو فیڈ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ان کے اندر موجود سوچنے کی صلاحیت کو کبھی ایکٹو کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی بس بنی بنائی سوچوں پہ ان سے عمل کرنے کا تقاضہ کیا جاتا ہے، انسانی ذہن کا اصل کام سوچنا اور غور فکر کرنا پھر رائے قائم کرنا ہے، جب اس کی اس کارکردگی پہ ضرب لگائی جاتی ہے
تو پھر انتہا پسند نفسیات اور نتائج کا پیدا ہونا فطری ہے ایک انسان low extreme پہ اگر جاتا ہے تو اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے اور اگر high extreme پہ جاتا ہے تو لوگوں کے لیے متشدد بن جاتا ہے اس کے بدترین نتائج خود اس کے ساتھ ساتھ اس کا خاندان اور معاشرہ بھی بھگتتا ہے۔چیتن سنگھ جیسے کردار کے بڑھتے تناسب پہ حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے
تعلیمی نظام کو بہتر بنائے اس کے لیے اساتذہ کو وہ عزت و سہولت دینے کی ضرورت ہے کہ لوگ ایک اچھا استاد بننے میں فخر محسوس کریں، کیوں کہ استادوں کے ہاتھوں میں پورے قوم کا مستقبل ہوتا ہے اگر وہی قوم کے بچوں کو زہر ناک رویہ اپنانے کی ترغیب دینے لگ جائیں تو پھر ملک و قوم میں اخلاقی پستی کا پیدا ہونا یقینی ہے، اوشو نے کہا کہ استاد ہی انقلابی ہے اگر وہ چاہے تو قوموں کی تقدیر بدل کر رکھ دے
لیکن یہ سیاست دان ایسا ہونے نہیں دیں گے کیوں کہ اگر لوگوں میں شعور آ گیا تو ان کی نفرت اور شرانگیزی کی دکانیں بند ہو جائیں گی، بےشک اوشو نے بلکل صحیح بات کہی ہے لیکن افسوس اس کی آواز پہ کسی کان دھرنے کی فرصت ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ان دفعات اور قانون پہ سختی سے عمل بھی کروائے جو کہ ان مجرمین کے لیے ملک کے دستور میں موجود ہے
جب تک سزا سے فرار کی راہیں کھلی ہوں گی کوئی بھی انسان مجرم بنتے ہوئے خوف زدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی جرم کرنے کے بعد شرمندہ ہوگا کیوں کہ اس کو ویلیڈیٹ کرنے والے لوگ اور نظام موجود ہے۔
میڈیا کی بے لگام آزادی کو اصول و حدود کو پابند کروانا بھی حکومت کی ذمےداری میں شامل ہے اگر اس کو اب نہ روکا گیا تو اس نفرت کے سیلاب میں پورا ملک اپنی شناخت اور بقا کی اساس کھو دے گا، حکومت پہ یہ بھی ذمےداری عائد ہوتی ہے کہ نفرت انگیزی میں شریک ہر شہری کے ساتھ بلا تفریق مذہب اور قیادت کے یکساں طور سے سختی سے نمٹے وقتی مفاد کے لیے ملک کے مستقبل کو داؤ پہ نہ لگائے
اس کے ساتھ ساتھ ہم سب عوام کی ذمےداری ہے کہ ہم شعور کے ساتھ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمت عملی کے ساتھ اپنا ردعمل ظاہر کریں نا کہ جذباتیت میں ا کر ایسے اقدام کر بیٹھیں جو کہ ان کے ہی گرد پھندا کسنے کا سبب بن جائے، یہ ملک ہم سب کا ہے اس کی جمہوریت اور آپسی بھائی چارے کی فضا کی حفاظت ہم سب کی ذمےداری ہے۔
Pingback: حافظ محمد سعد انور شہید آئینۂ حیات اور مظلومانہ شہادت ⋆
Pingback: فیمنزم کے سافٹ اثرات اور ہم ⋆ پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی