بریلی کو کیش کرنے کی ناکام کوشش
بریلی کو کیش کرنے کی ناکام کوشش !!
غلام مصطفےٰ نعیمی روشن مستقبل دہلی
پہلا منظر نامہ زمانہ 1976 کا تھا۔ایمرجینسی کا دور اور نسبندی کا جبری فرمان، ایسے پر آشوب دور میں مفتی اعظم ہند مولانا مصطفےٰ رضا قادری(1892 1981ء) کے حکم پر حکم نسبندی کے خلاف مدرسہ مظہر اسلام سے فتوی جاری ہوا۔ان دنوں حکومت کی خلاف ورزی کا مطلب جیل رسید ہونا تھا۔
بڑے بڑے اپوزیشن لیڈر جیلوں میں ڈال دئیے گئے تھے۔دیوبند کے مہتمم صاحب بھی حکومتی غضب کی تاب نہ لاکر اس کی حمایت کر چکے تھے
ایسے میں بریلی کے فتوے نے ارباب حکومت کو غیظ وغضب سے بھر دیا۔
اولاً سختی کا ارادہ کیا لیکن بعض مشیروں کے کہنے پر حکومت نے اپنا نمائندہ بھیجا تاکہ راست بات چیت کے ذریعے ‘فتوی واپسی’ کا راستہ نکالا جا سکے۔
وقت معین پر حکومتی افسر مفتی اعظم ہند کی خدمت میں حاضر ہوا۔خادم نے خبر کی تو 76 سال کے بزرگ اور بیمار عالم نے مومنانہ تیور کے ساتھ فرمایا:
ہاں پردہ کرو تاکہ اس(افسر) کی مکروہ صورت سامنے نہ پڑے۔” (ماہنامہ سنی دنیا جولائی 1990)
اس اہلکار نے رسمی بات چیت کے بعد قدرے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ مفتی صاحب، تقریباً سبھی مفتیوں نے اپنے فتوے واپس لے لئے ہیں اگر آپ بھی
ابھی جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ 76 سالہ بزرگ جو اٹھنے میں کسی کا سہارا لیا کرتے تھے، فوراً اٹھ کر بیٹھ گیے اور نہایت جلال میں کہا:
بریلی کا فتوی بدلا نہیں جاتا، بدلنا ہوگا تو حکومت بدل دی جائے گی۔”
جو جذب کے عالم میں نکلے لب مومن سے وہ بات حقیقت میں دستور الٰہی ہے
ہمیں یقین ہے کہ یہ اُس مرد مومن کی زبان ہی کا اثر تھا کہ اگلے ہی سال مغرور کانگریس حکومت کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور فتوی بدلنے کی دھمکی دینے والی حکومت فتوی تو نہ بدلوا سکی خود ہی بدل گئی۔
اس پورے منظرنامے میں مفتی اعظم ہند کا یہ جملہ نہایت اہمیت کا حامل ہے؛ “یہاں پردہ کرو تاکہ اس(افسر) کی مکروہ صورت سامنے نہ پڑے۔”
یعنی جو افسر شریعت میں دخل اندازی کی نیت لے کر ملنے آیا تھا آپ نے اس کی صورت دیکھنا بھی غیرت ایمانی کے خلاف سمجھا اور اسے سامنے بٹھانے کی بجائے آڑ سے بٹھایا۔
اس جملے اور مفتی اعظم ہند کی غیرت ایمانی کو نگاہ میں رکھیں اور ذرا دوسرا منظر نامہ بھی دیکھیں۔
دوسرا منظر نامہ
سال 2023 کا ہے، شہر بریلی اور مقام سرکٹ ہاؤس ہے۔مفتی اعظم ہند کے وصال کو 42 سال ہورہے ہیں۔اِسی مرد مجاہد کے خلفا کے پر ایک کتاب لکھی گئی۔کتاب کی رسم اجرا کے لیے مصنف کتاب نے گورنر آف کیرل مسٹر عارف محمد خان کو مہمان خصوصی بنایا۔
بھارت کے سیاسی اور ملکی حالات پر ذرا سی نظر رکھنے والا انسان بھی مسٹر عارف محمد خان کی فکر اور نظریے سے اچھی طرح واقف ہے۔
موصوف کی زندگی کا بڑا حصہ اسلام وشریعت کی مخالفت اور قرآن کریم کی مَن مانی تشریح میں گزرا ہے۔یہ وہی عارف صاحب ہیں جنہوں نے شاہ بانو کیس میں شرعی فیصلے کی پر زور مخالفت کی حتی کہ اپنی پارٹی کانگریس اور مرکزی وزارت سے استعفیٰ دے دیا لیکن شرعی قانون کو تسلیم نہیں کیا۔
ان کے اس جذبے کی بی جے پی نے بڑی قدر کی اور انہیں کیرل جیسی بڑی ریاست کا گورنر بنا دیا۔گورنری ملنے کے بعد موصوف مزید کھلتے چلے گیے اب تو آنجناب مندروں میں سر جھکاتے/مورتیوں پر دودھ، پانی اور پھول چڑھاتے ہوئے بھی خوب نظر آتے ہیں۔
ایسی فکر ونظر رکھنے والے انسان سے اُس عالم دین پر لکھی ہوئی کتاب کا اجرا کرانا جس نے شرعی مداخلت کرنے والے افسر کا چہرہ تک دیکھنا پسند نہیں کیا، انتہائی بھدّا اور گھنونا مذاق ہے۔
ایک عام آدمی بھی سوچے تو حیران رہ جائے کہ ایک مذہبی شخصیت پر لکھی ہوئی کتاب کے رسم اجرا کے لیے سیاسی شخصیت کا انتخاب چہ معنی دارد؟ اور شخصیت بھی ایسی جو نیشنلزم کے نام پر اہل ایمان کے درمیان ہندو کلچر کو بڑھاوا دینے کی جی توڑ کوشش کر رہی ہو۔
گورنر کی حالیہ گفتگو
گورنر صاحب نے خصوصی خطاب میں کتاب اور صاحب کتاب کو چھوڑ کر وہ سب کچھ کہا جو بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ ہر مسلم لیڈر مسلمانوں سے زور دے کر کہتا ہے
موصوف پڑھے لکھے اور صاحب مطالعہ ہیں اس لیے انہوں نے بہ کمال ہشیاری مذہبی رنگ اور مطالعاتی چھونک لگا کر ساری باتیں کہیں لیکن ذرا سی توجہ سے موصوف کی اصل فکر ظاہر ہوجاتی ہے۔مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر صرف ایک دو پہلو پیش کئے جاتے ہیں تاکہ قارئین کو بھی موصوف کی تقریر اور فکر کا صحیح اندازہ لگانے میں آسانی ہوسکے۔
🔹گورنر صاحب نے دوران خطاب ایک حدیث پڑھی جس کا مکمل متن اس طرح ہے: أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشوا السَّلامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا باللَّيْل وَالنَّاسُ نِيامٌ، تَدخُلُوا الجَنَّةَ بِسَلامٍ۔(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 3251)
“اے لوگو! سلام عام کرو ، کھانا کھلایا کرو ، صلہ رحمی کرو ، اور جب لوگ سو رہے ہوں تو تم رات کو نماز پڑھو ، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔”
گورنر صاحب نے حدیث رسول کی تشریح کرتے ہوئے دو غلط دعوے کیے: 1۔ ‘افشو السلام’ میں لفظ سلام کا لغوی معنی بیان کیا اور اس پر بہت زیادہ زور دیا کہ یہاں لفظ سلام لغوی معنی ہی میں استعمال ہوا ہے
حالاں کہ یہاں لفظ سلام لغوی نہیں بل کہ اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ہاں حدیث پاک کا آخری ٹکڑا ‘تَدخُلُوا الجَنَّةَ بِسَلامٍ’ میں لفظ سلام لغوی معنی کے طور بیان کیا گیا ہے۔اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو ‘سلام’ پہلے استعمال ہوا ہے اس سے مراد وہ دعا ہے جو دو مسلمان بوقت ملاقات ایک دوسرے کو ‘السلام علیکم’ کہہ کر دیتے ہیں۔ اِسے زبردستی لغوی معنی قرار دینا سراسر غلط ہے۔
2۔ دوسرا دعوی کرتے ہوئے مسٹر عارف صاحب کہتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں حضور ﷺ نے مسلمانوں کو نہیں بل کہ عام انسانوں کو خطاب کیا ہے۔حالانکہ مسٹر عارف کی یہ تشریح بھی سراسر غلط ہے کیوں کہ اسی حدیث کا اگلا ٹکڑا “وَصَلُّوا باللَّيْل وَالنَّاسُ نِيامٌ” “اور نماز پڑھو جب کہ لوگ سو رہے ہوں”
صاف صاف بتا رہا ہے کہ یہاں خطاب صرف مسلمانوں سے ہے عام انسانوں سے نہیں، کیوں کہ اگر یہ خطاب عام انسانوں سے ہوتا تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا جاتا کہ نماز کے مکلف صرف مسلمان ہیں عام انسان نہیں۔
اس حدیث کے راوی حضرت عبد اللہ ابن سلام فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے یہ الفاظ اس وقت سنے جب آپ ہجرت کرکے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو لوگ خوشی ومسرت سے آپ کے ارد گرد جمع ہوگیے اور مبارک بادیاں دینے لگے، اس وقت نبی کریم علیہ السلام نے مسلمانوں کو یہ نصیحتیں فرمائیں۔
اس پس منظر سے بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ حدیث رسول میں ‘اَیّھا النّاس’ سے مسلمان مراد ہیں غیر مسلم نہیں، لیکن گورنر صاحب نے اغیار کی نظروں میں خود کو اچھا بنانے کے لیے زبردستی وہ معنی بیان کیے جو منشائے رسول کے سراسر خلاف ہیں۔اس کے علاوہ بھی موصوف نے اپنے مزاج کے مطابق کئی ایسی باتیں جو بہر صورت قابل گرفت تھیں لیکن افسوس صد افسوس منتظمین اور مؤلف کتاب اس طرح سنتے رہے مانو کوئی استاذ اپنے بچوں کو پڑھا رہا ہو اور بچے اظہار فرماں برداری میں سر ہلائے جا رہے ہوں۔
مؤلف کا مقصد کیا ہے؟
مذکورہ کتاب کے مؤلف ایک معروف صاحب قلم ہیں۔درجن بھر سے زائد کتابیں اور سو سے زائد مضامین لکھ چکے ہیں۔رضویات ان کا خاص میدان رہا ہے۔
اس باب میں انہوں نے تاریخ جماعت رضائے مصطفےٰ، دنیا اسلام کی تلاش میں، امام احمد رضا کے خطوط، شمع فروزاں جیسی کتابیں لکھی ہیں۔حالیہ کتاب مفتی اعظم ہند اور ان کے خلفا تین جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔
اس کی پہلی جلد 1991 میں شائع ہوئی تھی اور اب تینوں جلدیں ایک ساتھ 2023 میں شائع ہوئی ہیں۔انہیں کتابوں کے اجرا کے لیے موصوف کی نگاہ انتخاب ایک ایسے شخص پر پڑی جو مورتیوں پر پھول چڑھاتا پھرتا ہے
اس سے پہلے اِنہیں مصنف صاحب نے شری شری روی شنکر سے اس وقت ملاقات کی جب وہ شخص مسلمانوں سے رام مندر کے حق میں بابری مسجد سے دستبردار ہونے کی مہم چلا رہا تھا۔حالانکہ جب وہ بریلی پہنچا تھا تو حضرت تاج الشریعہ مفتی اختر رضا قادری ازہری علیہ الرحمہ نے تمام تر منتوں کے باوجود روی شنکر سے ملنے سے صاف انکار کردیا تھا۔
لیکن آنجناب پر خدا جانے کس چیز کی دھن سوار تھی کہ اپنے مرشد کے خلاف جاتے ہوئے انہوں نے روی شنکر سے ملاقات کی، جس کی پاداش میں انہیں جماعت رضائے مصطفےٰ سے بے دخل کردیا گیا۔
بجائے اس کے کہ موصوف اپنی روش کو سدھارتے، انہوں نے ایک اور قدم آگے بڑھ کر مفتی اعظم پر لکھی ہوئی کتاب کا اجرا اس شخص سے کرانے کا فیصلہ لیا جو کسی بھی طور پر اس کا حق دار نہیں تھا۔
کیا مؤلف کتاب یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر مفتی اعظم ہند حیات ہوتے تو کیا عارف محمد خان کا چہرہ دیکھنا پسند فرماتے؟
ایک افسر جو شرعی قانون میں تبدیلی کی خواہش لے کر آیا تو آپ نے اس کی صورت دیکھنا بھی گوارا نہ کیا، تو اس شخص کے ساتھ آپ کا رویہ کیا ہوتا جو دعوی اسلام کے ساتھ علانیہ شرکیہ کام انجام دیتا پھرتا ہے؟
جس بریلی میں اعلی حضرت اور مفتی اعظم ہند کا خاندان رہتا ہے۔جہاں سیکڑوں علما درس وتدریس اور کار افتا انجام دیتے ہیں۔جہاں درجنوں مصنفین تصنیف وتالیف میں لگے رہتے ہیں ایسے مردم خیز شہر میں انہیں اپنی کتاب کے اجرا کے لیے ایک عالم بھی نہیں ملا؟
کیا مؤلف کی نگاہ میں کوئی عالم اس لائق نہیں تھا یا مؤلف ہی خاندان اعلی حضرت اور علماے بریلی کی نگاہوں میں اس قدر اچھوت ہوگیے ہیں کہ کوئی شخص ان کے علمی و تحقیقی کام میں بھی شریک ہونا پسند نہیں کرتا؟
موصوف اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کی حالیہ روش اور نظریات کی بنا پر خاندان اعلی حضرت سے کوئی بھی فرد شریک نہیں ہوگا پھر بھی انہوں نے رسم اجرا کا پروگرام لکھنؤ یا دلی کی بجائے بریلی میں ہی رکھا، کیا یہ بریلی کے نام کو کیش کرنے کی کوشش نہیں ہے؟
موصوف سیاست کرنے یا سیاسی مناصب کے خواہش مند ہیں تو براہ راست سیاست کریں۔مذہب ومسلک اور خانقاہ اعلی حضرت کو کیش کرنے کی کوشش نہ کریں۔سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے کو کھاد پانی فراہم کرنے کے لیے بریلی کا استعمال کرنے کی کوشش کس لیے؟
مؤلف صاحب ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ وہ کون سا موڑ تھا جہاں انہوں نے اکابرین کی راہ چھوڑ کر نئی راہوں کا سفر شروع کیا اور اس کے نتیجے میں انہیں کیا ملا۔وقتی شہرت اور معمولی سے عہدوں کی خواہش میں انہوں نے کیا کچھ گنوا دیا؟
کاش! وہ خواہشات کے دام فریب میں نہ آتے تو آج بھی ہزاروں کے جھرمٹ میں مرکز توجہ ہوتے لیکن فانی دنیا کی خواہشات نے انہیں وہاں تک پہنچا دیا ہے جہاں چاروں طرف پھسلن ہی پھسلن ہے۔ابھی بھی واپسی کی راہ نہیں پکڑی تو آگے کا راستہ مزید آزمائشوں اور بربادیوں سے بھرا ہے۔بہتر ہوگا موصوف پھر سے اُنہیں راہوں پر لوٹ جائیں جہاں انہیں عزتیں ملی تھیں ورنہ تاریخ ایسے کتنے ہی لوگوں کے تذکروں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے جوانی کی کمائی ہوئی عزت وشہرت کو عمر کے آخری میں حصے میں ضائع کردیا اور زمانے کے لیے نشان عبرت بن گئے۔
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُو سیاہی
Pingback: یوگا ورزش ہے یا کچھ اور اردو دنیا غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: قرآن کی بے ادبی کیوں ⋆ اردو دنیا
Pingback: جامعۃ المصطفی میں جلسہ تقسیم انعامات ⋆
Pingback: تعلیم اصلاح معاشرہ کی بنیاد ہے ⋆ مفتی ثناءالہدی قاسمی
Pingback: سیاسی بے قدری اور بڑھتی ہوئی رسوائیاں ⋆ اردو دنیا
Pingback: غریب نواز پر الزام تراشی سازش پرانی اور تیاری پوری ہے ⋆ غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: لٹتے مکان، خطرے میں جان، کہاں جائیں مسلمان ⋆ غلام مصطفےٰ نعیمی