یکساں سول کوڈ اور ہماری قومی سیاست
یکساں سول کوڈ اورہماری قومی سیاست
عادل فراز
یونیفارم سول کوڈ پر چوطرفہ بحث جاری ہے ۔جبکہ اس کا حتمی مسودہ ابھی تک ہمارے پیش نظر نہیں ہے ،لیکن اندیشے اور امکانات کی بناپر مسلسل چہ مگوئیاں ہورہی ہیں ۔
اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آئین میں موجود مختلف مذاہب اور ذات و قبائل کے پرسنل لا کے چاروں شعبوں میں ترمیم اور اصلاحات کی بات ہورہی ہے ،اس لیے حتمی مسودے کا پیش نظر ہونا ضروری نہیں ہے ۔
ہمارے آئین میں پرسنل لا کو چار شعبوں میں تقسیم کیاگیاہےجس میں شادی ،طلاق، جانشینی ،وراثت ،سرپرستی ،گود لینے اورنان و نفقہ جیسے اہم فرائض شامل ہیں۔
ہر مذہب اور ہر طبقے میں ان تمام مسائل کو اپنے لحاظ سے حل کیاجاتاہے ۔
ضروری نہیں ہے کہ ان مسائل کوحل کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی الہامی آئین موجود ہوبلکہ صدیوں سے چلی آرہی روایت ،شخصی قوانین ،داخلی اور خارجی اثرات کے تحت ان پر عمل ہوتا رہاہے ۔
اب سرکاریہ چاہتی ہے کہ ان عائلی مسائل کو اپنے طریقے سے حل نہ کرکے سرکار کے مطابق یکساں طورپر عمل کیاجائے ۔پرسنل لاء میں اس سے پہلے بھی ترمیم و اصلاحات ہوتی رہی ہیں لیکن اس پر کبھی ہنگامہ اور واویلا نہیں مچایا گیا ۔
اس بار ایساکیا ہو رہا ہے کہ اکثر یت ذہنی اور قلبی اضطراب کی شکار ہے ،اس پر سرکار کو سنجیدگی سے غورکرناچاہیے ۔
ملک پر مسلط یرقانی تنظیموں نے یکساں سول کوڈپر اپنے حاشیہ برداروں اور آلۂ کاروں کو میدان میں اتاردیاہے ۔
یہ لوگ مختلف دلائل اور توجیہات کے ذریعہ مسلمانوں کو فریب دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ان کی تقریروں،بیانات اور مضامین کا اصل موضوع کچھ ہوتاہے اور دکھڑا مسلمانوں کے استحصال کا روتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک جمہوریت اور سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کا استحصال ہوتاآیاہے ۔
سیکولر سیاسی جماعتوں نے بڑی تگ و دو اور انتہائی مخلصانہ جدوجہد کے بعد مسلمانوں کو ہر میدان میں پسماندگی کا سرٹیفیکٹ تھمادیا اور اس پر اپنی پیٹھ بھی تھپ تھپائی ۔لیکن اس پسماندگی کو دورکرنے کا لایحۂ عمل کسی نے پیش نہیں کیا ۔
اس کا براہ راست فائدہ یرقانی تنظیموں اور بی جے پی کو پہونچا ۔
آج مسلمان ان کے پروپیگنڈوں اور حیلوں کا آسان شکارہیں کیونکہ اعدادوشمار اور آزاد ہندوستان کی تاریخ کی روشنی میں جو باتیں وہ کہہ رہے ہیں ،وہ غلط نہیں ہیں ۔
لیکن ان حقائق کو پیش کرنے کا ان کا اپنا اندازاور مفاد ہے ۔یہ لوگ بھی مسلمانوں کے ہمدرد اور مخلص نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان سیندھ لگانے کی فکر میں ہیں ،جس میں وہ کامیاب نظر آرہے ہیں ۔
ان کا یہ کہناکہ مسلمانوں کے پرسنل لاء پر الگ الگ بادشاہوں اور حکمرانوں کے اثرات ہیں،بے بنیادنہیں ہے ۔
پرسنل لاء جو قرآن و سنت سے اخذ کیاگیاہے اس میں ترمیم نہیں ہوسکتی لیکن جو روایات مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں نے قانون اسلامی کے نام پر تھوپی ہیں ،ان کو ختم کیاجانا چاہیے ۔اس طرح کی باتیں مسلسل سامنےآرہی ہیں جس پر ہمارے علما اور مسلم پرسنل لا کو بھی غوروخوض کرنا چاہیے۔
یکساں سول کوڈ تنہا مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے ۔اس کی زد میں تمام مذاہب اور الگ الگ ذات و قبائل کے افراد بھی ہیں ۔
اس کے باوجود میڈیا میں اس پر مسلمانوں کے حوالے سے بات کی جارہی ہے ،تاکہ تقسیم کی سیاست کو تقویت حاصل ہوسکے ۔مسلمانوں کو چاہیے کہ یکساں سول کوڈ کے مسئلے پر انفرادی اظہار خیال سے پرہیز کریں ۔
خاص طورپر اجتماعی پلیٹ فارم پر اس مسئلے پر بات کرنے سے گریز کیاجائے۔صرف اور صرف قانون کے ماہرین اور مسلم پرسنل لا ء کو اس پر اظہار خیال کا حق ہونا چاہیے ۔
کیوں کہ مسلم پرسنل لا ء میں تقریباً تمام مکاتیب فکر کی نمائندگی موجود ہے ،اس لئے مسلمانوں کا موقف صلاح و مشورے کے بعد مسلم پرسنل لا کو رکھنا چاہیے ۔ہرکس و ناکس کو میڈیا،سوشل ذرائع ابلاغ اور دیگر اجتماعی پلیٹ فارمزپر اظہار خیال سے بچنا چاہیے ۔
کیونکہ یرقانی تنظیمیں اور فرقہ پرست طاقتیں اس مسئلے کو فقط مسلمانوں کا مسئلہ بنادینا چاہتی ہیں تاکہ انہیں اجتماعی ہمدردی اور حمایت حاصل ہوسکے ۔
جب کہ یکساں سول کوڈ میں ہندوستان کا ہر فرقہ ،ہر مذہب اور تمام قوم و قبائل کو شامل کیاگیاہے ،اس لئے یہ تنہا ہمارا مسئلہ نہیں ہے ۔
بی جے پی بخوبی جانتی ہے کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ آسان نہیں ہے ۔
اس کے باوجود اس حسّاس مسئلے کو ابھارنا اس کی اہم انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔کیوں کہ اس طرح ووٹوں کی تقسیم کو ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔
اس کے علاوہ بی جے پی دیگر اہم مسائل سے عوام کی توجہ بھٹکانا چاہتی ہے ۔جیسے ملک میں روز بہ روز بڑھتی مہنگائی ،اقتصادی و معاشی بحران ،منی پور میں ناکام ہوتی ہوئی سیاسی حکمت عملی ،کشمیر میں بڑھتے ہوئے دہشت گردانہ واقعات ،اس طرح کے اور بھی ڈھیروں مسائل ہیں جو بی جے پی کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں ۔
اس لیے بی جے پی نے یکساں سول کوڈ کا راگ چھیڑا ہے تاکہ اہم قومی مسائل سے توجہ کو بھٹکایا جاسکے ۔وہ اپنی اس سیاست میں کامیاب اس لئے ہیں کیوں کہ مسلمان بغیر سوچے سمجھے میدان میں کود پڑتے ہیں ۔خاص طورپر وہ مسلمان جنہیں بزعم خود رہبری کا شوق ہے ۔
دوسرا و ہ طبقہ جو ہمہ وقت میڈیا اور سوشل ذرائع ابلاغ پر اظہار خیال کرنے میں ذرا بھی عقل کا استعمال نہیں کرتا ۔
اس لیے مسلم پرسنل لا اور دیگر اداروں کو ایسے افراد پرقابو پانا چاہیے ۔خاص طورپر مولوی حضرات کو اس مسئلے پر اظہار خیال سے پرہیز کرناچاہیے ۔
یکساں سول کوڈ کی بعض شقیں شریعت سے ضرور متصادم ہوسکتی ہیں ،لیکن اس کے لیے قانون اور شریعت کے ماہرین کو حق رائے دہی ہونا چاہیے ۔
اس کے برعکس بعض وہ قوانین جن کا قرآن مجید اور سنت پیغمبرؐ سے کوئی تعلق نہیں ہے ،ان پر اصرار کرنا بھی صحیح نہیں ہے ۔
کیوں کہ ہم سبھی اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ شریعت میں پیغمبر اسلامؐ کے بعد کس قدر تبدیلیاں اور تحریف کی گئی ہے ۔ہمیں اللہ کے قانون اور پیغمبر کی سنت کو حجت سمجھنا چاہیے ناکہ کسی بادشاہ اور حکمراں کی رائے اور مداخلت کو۔
البتہ اس کا تعین علما کو کرناچاہیے سرکار کو نہیں!
قانون کے ماہرین یکساں سول کوڈ کو غلط نہیں مانتے ،لیکن اس کے نکات اور نفاذ کے طریقے پر اتفاق رائے نہیں ہے ۔
کیوں کہ یکساں سول کوڈ کا ذکر آئین میں ہے ۔اس لیے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ اس کو بی جے پی نے پیش کیاہے ،بلکہ بی جے پی اس سے انتخابی فائدہ اٹھاناچاہتی ہے ۔
بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کے لیے وہی طریق کار اختیار کرنا چاہیے جو 1949 میں ہندوقوانین میں اصلاحات کے لئے کیا گیا تھا
۔1956 میں ماہرین کی کمیٹی نےکئی سالوں کی دیدہ ریزی کے بعد قانونی مسودہ پیش کیاتھا ،جس نے قانونی شکل اختیار کی ۔یعنی ان کا کہنا یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کے لئے ماہرین قوانین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو سول کوڈ کا مسودہ پیش کرے ۔
یہ مسودہ تمام مکاتیب فکر اور سبھی اقوام و ملل کو قبول ہوگا ۔اس کے لیے پہلے گفت و شنید ہواور سبھی کوکمیٹی کی تشکیل پر قائل کیاجائے ۔
یکساں سول کوڈ کے سلسلے میں مسلم پرسنل لا نے اعتراضات کا مسودہ لا ء کمیشن کو بھیج دیاہے ۔امید کرتے ہیں کہ لاء کمیشن مسلم پرسنل لا کے اعتراضات پر سنجیدگی سے غورکرے گا ۔
کیونکہ اس کے مسودے میں ترمیم کے اشارے خود وزیر داخلہ امت شاہ نے دیئے ہیں ۔
امت شاہ نے ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ کو اطمینان دلایاہے کہ عیسائیوں اور آدی واسی قبائل پر یکساں سول کوڈ نافذ نہیں ہوگا ۔
اسی طرح سرکار مختلف قبائل اور ذاتوں کی مخالفت سے بچنے کے لیے مناسب حکمت عملی ترتیب دے رہی ہوگی ۔اس کے لیے سرکار پارلیمنٹ میں الگ سے ترمیمی بل پاس کرواسکتی ہے جس طرح سی اے اے کے موقع پر کیا گیا تھا ۔
اس وقت سرکار نے ترمیمی بل پاس کرکےنئے شہریت قانون سے سکھوں، ہندوئوں ، عیسائیوں ،پارسیوں ،بدھشٹوںاور جینیوں کو الگ کردیا تھا ۔
اس وقت یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ سی اے اے تنہا مسلمانوں کے خلاف ہے ۔اسی طرح یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے پہلے ترمیمی بل لایا جاسکتاہے جس سے سرحدی قبائل ،ناگالینڈ اور مختلف ذات و قبائل کو مستثنیٰ کردیا جائے گا ۔
اس طرح حکومت ایک بارپھر یہ پیغام دینے میں کامیاب ثابت ہوگی کہ یکساں سول کوڈ فقط مسلمانوں کے خلاف نافذ کیاگیاہے ،اس طرح قومی سطح پر اس کی مخالفت ماند پڑجائے گی ۔ کیوں کہ برسراقتدار جماعت کو فقط انتخابات میں کامیابی چاہیے ،اس لیے وہ اقتدار کے حصول کے لیے کسی بھی حدتک جاسکتی ہے ۔
بہرکیف! مسلمانوں کواس سلسلے میں مناسب حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تاکہ سرکاریں ان کا سوئے استعمال نہ کرسکیں۔
ایسا تبھی ممکن ہوگا جب وہ ہر موقع پر انفرادی رائے سے گریز کریں اور ان کا اجتماعی موقف منظر عام پر آئے ۔
Pingback: یکساں سول کوڈ ایک متنازع شوشہ ⋆ اردو دنیا
Pingback: نفرت انگیز نفسیات کو پروان چڑھانے والے عوامل ⋆ اردو دنیا علیزے نجف
Pingback: حافظ محمد سعد انور شہید آئینۂ حیات اور مظلومانہ شہادت ⋆
Pingback: دور حاضر کی وہ لڑکیاں جن سے نکاح کرنے کے بعد پچھتاوا کنفرم ہے محمد آفتاب عالم
Pingback: قائدین کی خاموش مزاجی ملت کی تباہی کا پیش خیمہ ⋆ اردو دنیا ⋆ از : مفیض الدین مصباحی