دور حاضر کی وہ لڑکیاں جن سے نکاح کرنے کے بعد پچھتاوا کنفرم ہے
دور حاضر کی وہ لڑکیاں جن سے نکاح کرنے کے بعد پچھتاوا کنفرم ہے
(1)ایسی لڑکیاں جو کسی ڈرامہ ایکٹر یا کسی بھی میل سیلیبریٹی کی فین ہوں ۔ان سے نکاح کے بعد پچھتاوا کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہونے والا ۔ ایسی لڑکیاں اپنے شوہر میں حلیہ و کردار کے اعتبار سے وہی چیزیں دیکھنا چاہتی ہیں جو اسکے ممدوح سیلیبریٹی میں موجود ہوں ۔ جو نہ ملنے پر مزاج کا خراب ہونا نفسیاتی تقاضا ہے ۔اور نتیجہ طلاق کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔
(2) ایسی لڑکیاں جو خالی الدماغ ہونے کے ساتھ پاکستانی ڈرامے دیکھنے کی عادی ہوں۔ چونکہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا اصل مقصد ہی مسلم معاشرے میں لبرلزم و فیمنزم کے نام پر فحاشی پھیلانا ہے ۔ایسی لڑکیاں نہ ہی دینی اعتبار سے پختہ ہوتی ہیں اور نہ ہی معاشرتی اعتبار سے ۔ جو چیزیں ڈرامے میں دیکھتی ہیں
انہیں حقیقی زندگی میں اڈوپٹ بڑی آسانی سے کئے لیتی ہیں ۔بطور دلیل پاکستانی ڈرامے عام ہونے سے پہلے کی شادیوں کی رکارڈ دیکھیں اور عام ہونے کے بعد کی ۔پردہ و حیا کی بنا پر کافی تفریق ہے ۔ جو لڑکیاں اپنی عام زندگی میں لال کو ریڈ ،سیاہ کو بلیک، باورچی خانے کو کچن اور دیوار کو وال کہہ کر احساس برتری کی شکار ہوتی ہیں ،وہی لڑکیاں چند پاکستانی ڈرامے کو دیکھنے کے بعد مردوں کو دقیانوسی اور مرد ذات کہہ کر طعنے مارتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔
(3)ایسی لڑکیاں جو میچیور ہونے کے بعد بھی مغربی ویب سریز اور پورن موویز وغیرہ کی عادی ہوں ۔چونکہ مغربی موویز اور سیریز میں جنسی معاملات میں صد فیصد غیر حقیقی اور بناوٹی مناظر دکھائے جاتے ہیں ۔بالخصوص رومانس اور سیکسول انٹر کورس(coitus) گھنٹوں تک دکھائے جاتے ہیں ، پرائیویٹ آرگین آرٹفیشیل ہارمون و دیگر پرنسپل کی بنا پر تغیر شدہ ہوتے ہیں جو بالکل حقیقت کے برعکس ہیں ۔
ان مناظر کو دیکھنے سے نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں مستقبل میں اپنے پارٹنر سے بھی ایسی توقعات رکھتی ہیں ۔صد فیصد ذہنی مطابقت ہو جاتی ہے ۔ چونکہ یہ فطری و نفسانی تقاضا ہے تو عبور نہ کرنے پر دماغ کا خراب ہونا طے ہے ۔اور نتیجہ طلاق کی صورت میں بہت جلد دکھ جاتا ہے ۔اس طرح کی بہت ساری کیسیز بھی دیکھنے کو ملی ہیں ۔
(4) ایسی لڑکیاں ،جن کے والدین خود ہی مغربی کلچر سے بہت زیادہ متاثر ہوں ۔اپنی بچیوں کی تربیت کے لئے کسی مغرب زدہ اسکول یا انسٹیوشن کی بھینٹ پر چڑھا دی ہوں ۔ایسی بچیاں جب جوان ہوتی ہیں تو ان کے مزاج و ذہن مغرب زدہ ہوتے ہیں ۔جس وجہ سے انکی نظر میں ازدواجی رشتے کی حیثیت سوائے کانٹریکٹ کے کچھ نہیں ۔حرام رلیشن شپ ہو یا حلال انہیں فرق نہیں پڑتا ۔حرام رلیشن شپ میں رہ رہ کر پارٹنر چھوڑنے اور نئے بنانے کی عادی ہو چکی ہوتی ہیں ۔
اس لیے اگر نکاح کر بھی لیں تو شوہر کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا ۔شوہر ڈائوورس دے تو نیا بوائفرینڈ بنے گا ۔
(5)ایسی لڑکیاں جو سب کچھ نارمل ہونے کے باوجود بھی لڑکوں سے دوستیاں کرنے کو عام سمجھنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اس میں ملوث ہوں ۔کسی خاص کے رہتے ہوئے بھی دوسرے لڑکوں سے آسانی سے بات چیت کو نارمل سمجھتی ہوں ۔ ایسی لڑکیوں سے نکاح کے بعد مشاہدہ یہ ہے کہ میل کژن اور نام نہاد دوستوں سے رابطے جاری رہتے ہیں ۔کزنز کی آمد و رفت عام ہوتی ہے ۔اور ہنسی مذاق بھی ۔
جب شوہر اچانک قدغن لگانا چاہیں تو لڑکیاں بدذبانی اور شک کرنے کے الزام کی بنا پر جان مارنے کے علاوہ مرد کے ساتھ سب کچھ کئے دیتی ہیں ۔جس وجہ سے علیحدگی بہت جلد ہو جاتی ہے ۔
(6)ایسی لڑکیاں جو اسکول اور کالج لائف میں اپنی سہیلیوں کی درجہ بندی کر کے کچھ مخصوص سہیلیوں کو بیسٹ فرینڈ کا درجہ دیتی تھیں ۔اور یہ معاملہ تعلیم سے فراغت کے بعد بھی جاری رہا ۔مشاہدے کی حد یہ ہے کہ اس کیٹیگری کی لڑکیاں شادی کے بعد اپنی بیسٹ فرینڈز کو شوہر سے بھی زیادہ اہمیت دیتی ہیں ۔ ایسی لڑکیوں میں ہم جنس پرستی کا بھی خدشہ ہوتا ہے ۔
میری نظر میں دو ایسی لڑکیاں ہیں جو اسکول لائف میں اپنی بیسٹ فرینڈ کے ساتھ بوسہ و کنار کے علاوہ دیگر بد فعلی میں مبتلا تھیں ۔اتفاق سے شادی کے بعد دونوں کی اسٹیٹس بہت جلد ڈائوورسڈ ہو گئی ۔
تحریر : محمد آفتاب عالم ،کولکاتہ