مدارس اسلامیہ کی تاریخ اور ہندوستانی مسلمانوں پر اس کے اثرات
مدارس اسلامیہ کی تاریخ اور ہندوستانی مسلمانوں پر اس کے اثرات
(پہلی قسط)
امان اللہ شفیق تیمی مدھوبنی بہار
9546884882
بلاشبہ خاکدان گیتی پر کسی بھی قوم وملت اور جماعت و گروہ کو عزت ووقار،کامیابی و کامرانی ،ظفرواقبال اور سربلندی و سرخروئی سے ہمکنار ہونے کیلئے تعلیم و تربیت، علم و عرفاں کی فولادی قوت اور اس کے حسن انتظام کی انتہائی سخت ضرورت ہوتی ہے
مذہب اسلام نے ابتدا سے ہی نہ صرف تعلیم وتربیت کے لازوال اثاثہ سے سرفراز ہونے کی تعلیم دی ہے بلکہ اسکے انتظام وانصرام پر بھی پوری توجہ مبذول کیا ہے۔معلم انسانیت نبی رحمت محمد ؑکو جب نبوت کی دولت سے سرفراز کیا گیا اور آپ کو دین متین کی تبلیغ واشاعت کا حکم دیا گیا تو آپ نے کھلے عام مکہ کے بادیہ نشینوں کے سامنے اللہ کا پیغام عام کرنا شروع کردیا ،کفار مکہ کی طرف سے جہاں سخت مخالفت کاسامنا کرنا پڑا وہیں بہت سارے ذی شعور ،صاحب الرائے اور حق پسند لوگوں نے اسلام قبول کرلیا
جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو آپ ؑ کو اپنے جانثاروں کی تعلیم وتربیت کی فکر دامن گیر ہوئی آپ نے کوہ صفا کے دامن میں حضرت عثمان بن ارقم کے گھر کو پہلا اسلامی تربیتی کیمپ بنایا اور صحابہ کرام کی جماعت کو یہیں تعلیم وتربیت اور مجلس و مشاورت سے فیضاب کرنے لگے۔
حضرت ابوبکر ؓ،حضرت عمر ؓ،حضرت عثمان غنی ؓ ،حضرت علی ؓ،حضرت حمزہ ؓ،حضرت ابو ذر غفاری ؓاور حضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابہ کرام اسی نادرو نایاب عظیم درسگاہ نبوی کے فیض یافتگان رہے ۔ اسی دوران مذہب اسلام کی شہرت اور اللہ کے دین کی روشنی مکہ کے اطراف و اکناف میں پھیلنے لگی تو مدینہ منورہ سے بھی کچھ لوگوں کا قافلہ بیت اللہ کی زیارت کے غرض سے مکہ آیا اور سب سے پہلےقبیلہ خزرج کے 6 افراد مشرف بہ اسلام ہوئے اور آپ ؑ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے بعد جب مدینہ لوٹ گئے تو وہاں بھی دین اسلام کا چرچا ہونے لگا اور جب جب اگلے سال ( نبوت کے بارہویں سال)جب مدینہ کے لوگ بیت اللہ کی حج کیلئے مکہ تشریف لائے تو 12 لوگوں نے منی کی گھاٹی میں چھپ کر نبی ؑ سے بیعت کیا ،اس بیعت کو تاریخ و سیر میں بیعت عقبہ اولی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
اور جب یہ لوگ مکہ سے واپس مدینہ جانے لگے تو وہاں ان نو مسلم صحابیوں اور مدینہ کے دیگر لوگوں کی تعلیم وتربیت کیلئے نبیؑ نے حضرت مصعب بن عمیر رؓ کو معلم بناکر بھیجا ،حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے مدینہ پہنچ کر حضرت اسعد بن زرارہ کے گھر کو تعلیم وتربیت اور دعوت و تبلیغ کیلئے انتخاب فر مایا اور صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت اور افہام تفہیم کےساتھ ساتھ دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں پوری طرح منہمک رہے آپ کی جانثارانہ کاوشوں اور مخلصانہ عمل پیہم نے مدینہ کی سرزمین پر عظیم انقلاب برپا کر دیا ،صرف دوسال ہی کی قلیل مدت میں مدینہ کے بیشتر لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ۔
بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد اللہ تعالی کے حکم سے نبی ؑ بھی ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے ،آپ نے یہاں بھی سب سے پہلے دین کی محافظت اور اسلام کی بلندی کیلئے مسجد قبا کی تعمیر فرمائی اور اسکے بعد جب آپ نے مسجد نبوی کی تعمیر کرائی تو ساتھ ہی اسکے شمالی جہت میں ایک بڑاچبوترہ کا انتخاب فرمایا اور بعد کے دنوں میں یہی چبوترہ صفہ کےنام سے متعارف ہو اور یہاں تعلیم وتربیت سے آراستہ ہونے والی خوش نصیب جماعت اصحاب صفہ کہلائی ۔
مدرسہ صفہ یہ اسلام کا پہلا منظم تعلیمی ادارہ تھا جسکی پوری تعلیم وتربیت رسول اللہ ؑ ہی کے زیر نگرانی ہوا کرتی تھی۔اللہ تعالی نے مذہب اسلام کو بے پناہ ترقیوں اور بلندیوں سے ہمکنار کیا،نبیؑ کے انتقال کے بعد بھی اسلامی سلطنت کے قابل رشک زمانہ کا آغازہوا،تمام خلفاء راشدین نے بھی دینی تعلیم و تربیت کی ترویج و اشاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ عرب کے صحرانشیں ،بکری بھیڑ کے چرواہے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان علم و عرفاں پر مہر و ماہ کیطرح چمکنے لگے۔
اور ان کے علم و ہنر کی ضیاپاشیاں پورےعالم اسلام کے سینوں کو منور کرنے لگی۔ملک عزیز ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم پڑتاہے کہ یہاں مستقل اسلامی حکومت کا قیام ساتویں صدی ہجری(602/604ھ) کے شروع میں قطب الدین ایبک سے شروع ہوتا ہے اور اسلامی سلطنت کے قیام کا مشکل سے ایک صدی گزری تھی کہ ہندوستان علوم و فنون کا گہوارہ بن چکا تھا ۔مفتی عبد الشکور ترمذی رحمہ اللہ نے ماہنامہ الفاروق کراچی پاکستان میں مدارس اسلامیہ کی تاریخ کے نام سے ایک تفصیلی تحریر میں مشہور مورخ علامہ مقریزی کی کتاب کتاب الخطط کے حوالہ سے انتہائی اہم بات لکھی ہیں
آپ رقمطراز ہیں “سلطان محمد تغلق کے عہد میں دہلی کے اندر ایک ہزار اسلامی مدارس قائم تھے ،جن میں مدرسین کے لیے شاہی خزانے سے تنخواہیں مقررتھیں ،تعلیم اس قدر عام تھی کہ کنیزیں تک حافظ قرآن اورعالمہ ہوا کرتی تھیں”ہندوستان میں جب تک اسلامی سلطنت قائم تھی مدارس و مکا تب کی تعمیر و ترقی کیلئے بادشاہوں ،امراء اور مخیرین حضرات نے اپنی دولت وثروت ، جائداد واملاک اور قوت و سطوت کو چشمہ صافی کیطرح جاری رکھا جس سے تشنگان علوم و فنون اورعلماء کرام پوری طرح سیراب ہوتے رہے لیکن اس ملک کو جب انگریزوں کے پنجہ استبداد نے اپنے آہنی زنجیروں میں جکڑنا شروع کیا تو مدارس اسلامیہ کے زوال کا وقت شروع ہوگیا۔
انگریز حکمران ،عیسائی ماہرین تعلیم اور ولایتی مفکرین اس حقیقت کو اچھی جانتے تھے کی مدارس اسلامیہ ملت اسلامیہ کی شہ رگ ہے اور مسلمانوں کو محکوم بنانے سے قبل انکے مدارس اسلامیہ کو مفلوج کرنا انتہائی ناگزیر ہے چناں چہ 1857 کے غدر سے پہلے ہی 1838ہی میں کمپنی کے قانون نے تمام اوقاف کو منسوخ کردیا تھا جو مدارس اسلامیہ کے حسن انتظام کے لیے مختص تھی ۔
ہندوستانی مدارس کے لیے یہ انتہائی خطرناک اور مایوس کن حالات تھے،وقت کے نابگاۓ روزگار ہستی ،عظیم محدث اور بے نظیر مبلغ حدیث شیخ الکل فی الکل حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے حلقہ درس کو بھی مسمار کر دیا گیا ،سید سلیمان ندوی کے مطابق “حضرت میاں صاحب نے پہلے تو مسجد اورنگ آبادی میں درس گاہ
قائم کی
اس کو بھی پڑھیں :
ملحقہ مدارس کے بچوں کو کتابیں دستیاب کرانا حکومت بہار کا مستحسن قدم
جہاں 1270ھ تک جملہ علوم وفنون کی تدریس کرتے رہے پھر 1857کوجب مسجد اورنگ آبادی کا علاقہ مسمار کردیا گیا تو حضرت میاں صاحب نے پھاٹک بخش خاں میں قیام کیا اور 1320ھ تک تفسیر و حدیث اور فقہ کا درس دیتے رہے ” (شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ 1220ھ۔۔۔۔۔1320ھ ،محد ث اکتوبر 1996۔۔مولاناعبدہ الفلاح)اسی طرح حضرت میاں صاحب کہ ایک شاگردرشید مولوی ابراہیم آروی جنکا تعلق ملکی محلہ آرہ بہار سے تھا انہوں نے بھی ہندوستان میں پہلا ایسا ادارہ قائم کیا جس میں دارالاقامہ کا انتظام تھا اور یہ ادارہ انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ کئی سالوں تک چلتارہا ۔
مدرسہ ہذا کے متعلق سید سلیمان ندوی نے بھی اپنی شہرہ آفاق تصنیف حیات شبلی میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے آپ لکھتے ہیں” مولوی نذیر حسین کے شاگردوں میں مولوی ابراہیم صاحب آروی خاص حیثیت رکھتے تھے ،وہ نہایت خوشگوار پرزور واعظ تھے ،وعظ کہتے تو خود روتے اوردوسروں کو رولاتے ،نئی باتوں میں سے اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے چناں چہ نئے طرز پر انجمن علما،اور عربی مدرسہ اور اس میں دارالاقامہ کی بنیاد کاخیال پہلے انہی کے دل میں آیا اوران ہی نے 1890ء میں مدرسہ احمدیہ کےنام سے ایک مدرسہ آرہ میں قائم کیا اور اس کے لئے جلسہ مذاکرہ علمیہ کے نام سے ایک مجلس بنائی جس کا سال بہ سال جلسہ آرہ میں ہوتاتھا”(حیات شبلی ۔سید سلیمان ندوی صفحہ 308) ۔
مذکورہ مدرسہ کو مولانا عبد اللہ صاحب غازیپوری،مولانا عبد السلام مبارکپوری،مولانا عبد الرحمن مبارکپوری،مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اور مولانا ابو بکر محمد شیث صاحب، جونپوری جیسے نابگائے روزگا علمی ہستیاں ،عظیم محدثین اور بے بےنظیر مبلغان اسلام کی خدمات کاشرف حاصل ہے ۔
اسی دور کی بات ہے اسی دوران عالم اسلام کی عظیم شخصیت مولانا محمد قاسم نانوتوی،فضل الرحمان عثمانی،سید محمد عابد دیوبندی ،مہتاب علی،نہال احمد اور ذولفقار علی دیوبند کے ذریعہ 30 مئی 1866ء کو دارالعلوم دیوبند جیسے دینی قلعہ کا قیام عمل میں آیا۔ہمارے اسلاف ،بزرگان دین اور علماء کرام نے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ حکومتیں بنتی اور بگڑتی رہینگیں لیکن اگر مدارس اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ نہیں ہوئی تو ملک عزیز میں مسلمانوں کے ایمان ویقین کی حفاظت بھی دشوار ہوجائے گی۔
اور انگریزی حکومت ہندوستانی مسلمانوں کو بھی بتدریج عیسائیت کے رنگ میں رنگ دیگی نیز اس وقت ہمارے اسلاف نے اس بات پر بھی پوری سنجیدگی سے توجہ دیا کہ ہم ایسے مدارس کا قیام کریں جسکا دور دور تک حکومت کے تعاون سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہ ہو تاکہ یہ دینی قلعہ پوری آزادی کے ساتھ اپنے مشن کی ترویج و اشاعت میں سرگرم عمل رہے اور حکومت کی دسیسہ کاریوں ،ریشہ دوانیوں اور رخنہ اندازیوں سے پاک رہے ۔
امان اللہ شفیق تیمی مدھوبنی بہار
اولاد کی تربیت کے چند رہ نما اصول
Pingback: مدارس اسلامیہ کی تاریخ اور ہندوستانی مسلمانوں پر اس کے اثرات ⋆ امان اللہ شفیق تیمی