نکاح کو آسان بنائیں
نکاح کو آسان بنائیں !
مزمل حسین علیمی آسامی
ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی آسام
رب تعالیٰ نے انسان کو بہترین تقویم، یعنی اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے۔ انہیں ان بےشمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے، جنہیں عقل انسانی شمار کرنے سے قاصر ہے۔انہی نعمتوں میں ایک عظیم نعمت نکاح ہے۔جس طرح انسانی زندگی بسر کرنے کے لیے اللہ کی بے شمار نعمتیں ہیں -چنانچہ بھوک و پیاس مٹانے کے لیے اشیاے خورد ونوش، بدن اور شرمگاہوں کو چھپانے کے لیے لباس اور تھکے انسان کو آرام کے لیے مکان وغیرہ ہیں ویسے ہی جسمانی تسکین کے لیے اللہ کی نعمت نکاح بھی فطری ضرورت ہے۔
نکاح صرف جسمانی تسکین کا نام ہی نہیں، بلکہ رب تعالیٰ کا حکم بجا لانا بھی ہے۔
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جو نکاح کرتا ہے، تو وہ اپنا آدھا ایمان مکمل کر لیتا ہے۔(مشکوٰة: نکاح)
نکاح سے قلبی و ذہنی اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے- عصر حاضر میں مغربی تہذیب نے نکاح کو غیر اہم سمجھ بیٹھا ہے۔ وہ نہ صرف انسانی حقوق و خواہشات کے خلاف ہے، بلکہ نظام قدرت کے بھی خلاف ہے۔
بعض اہل مغرب کا ماننا ہے کہ انسان جنسی خواہشات بغیر نکاح کے بھی جیسے چاہے جس طرح چاہے پوری کر سکتا ہے اور یہی آسان راہ ہے، در اصل یہ نکاح سے راہِ فرار کا یہ ایک بہانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انکے مابین نہ تو خاندانی تصور ہے، اور نہ ہی والدین اور اقارب کے درمیان کوئی تعلق باقی رہا۔ بایں سب مغرب کےلوگ بہت مضطرب اور پریشان ہیں کہ کیسے ان خرافات پر قابو پایا جایےاور انسانی سوسائٹی و ثقافت کو کیسے بحال کیا جاسکے۔ان پریشان کن حالات سے نجات پانے کے لیے مغرب و اطرافِ مغرب غور وفکر کر رہے ہیں۔
ہمارے بچے ۔۔ان کے(اہل مغرب) کے نقش قدم پر چلنے والے ہمارے اکثر بچے انہیں اپنے آئیڈیل سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں ”Girlfriend-Boyfriend“ کے نام پر ناجائز تعلقات قائم کرکے انسانی حقوق و سماجی سوسائٹی کو داغدار کر رہے ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں یہ وبا عروج پر ہے،مگر اگر صرف ہندوستان کی بات کی جاۓ تو ہندوستانی “ٹنڈر ڈیٹنگ ایپ” کے 2019 کے سروے کے مطابق 18-24 سال کی عمر کے ٪53 ہندوستانی اسٹوڈنٹس ناجائز ریلیشن شپ میں مبتلا ہیں۔ یہ تو Dating کے سروے ہے
لیکن اگر Chatting کی بات کریں تو اس کے لیے Instgram, Facebook,اور WhatsApp یہ تین ایپس عشق بازی کے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
سروے کے مطابق تقریباً 74 فیصد اسٹوڈنٹس اس ناجائز ریلیشن شپ میں مبتلا ہیں۔جان لیں کہ ہماری لڑکیوں کا مرتد ہونے میں بھی ان تین ایپس کا بھی اہم کردار رہا ہےاور اب بھی جاری ہے، اللہ ہماری بچیوں کی حفاظت فرماے۔۔اسٹوڈنٹس اس مرض میں مبتلا ہوکر اپنا تابناک مستقبل نہیں بناپارہے ہیں۔ رات بھر گھنٹوں چاٹنگ میں مصروف رہتے ہیں۔ مجازی عشق بازی میں خود کو نہیں پہچان پارہے ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں کس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔
اور وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔والدین کی ذمہ داری!ذمّہ داری نبھانا ایک پیچیدہ اور محنت کش عمل ہے۔ جو ہر ایک کے لیے مختلف ہے۔ اس دنیا میں ہر ایک انسان کسی نہ کسی شئی کا ذمّہ دار ضرور ہے، اور ہر کوئی ذمّہ داری کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بعض اپنی ذمّہ داریاں بخوبی نبھاتے ہیں، تو بعض کاہلی و سستی کے شکار ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں سنگین نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔
مثلاً:اساتذہ اگر ذمّہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام نہیں دیتے ہیں تو طلبا علمی بصیرت سے محروم ہو جاتے ہیں- اور یہ خلا مستقبل میں پُر ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے اساتذہ کرام کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے طلبا کو پوشیدہ نکات سے واقف کرائیں، اور ان کے اندر فکری بصیرت پیدا کریں تب جاکر طلبہ اپنے مستقبل کو روشن بناسکیں گے۔چناچہ والدین کی ذمےداریاں یہ ہیں کہ وہ اپنے بچّوں کو بنیادی ضروری تعلیم وتربیت، صحت و تندرستی اور ان کی اقدار و شخصیت کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ وقت پر ان کی شادی کا بھی خاص خیال رکھیں بلکہ وقت پر ان شادی کی ذمّہ داری سے سبکدوش ہو جائیں تاکہ نیٔ نسل بے راہ روی کے شکار ہونے سے محفوظ رہ سکیں ۔
آپ اپنے بچّوں کی بہترین تعلیم کے لیے یقناً کوشاں ہیں۔ وہ جو طلب کرتے ہیں خود پریشان ہوتے ہوۓ بھی آپ انہیں ضرور مہیا کر دیتے ہیں، یہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ آپ کا بچہ مالی بحران کا شکار نہ ہو اور بے فکر ہو کر بہترین تعلیم حاصل کرسکے۔ کیا آپ کو کبھی اپنے بچے کا موبائل چیک کرنے کی توفیق ہوتی ہے ؟ آپ کا جواب ہوگا نہیں، اور یہ اکثر والدین کا جواب ہے۔
اگر آپ کا لڑکا مجازی عشق میں گرفت ہے اور وہ اپنا وقت اس میں صرف کررہا ہے، تو بہتر ہے کہ آپ اس کی شادی کرادے -شادی کے بعد بھی وہ تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ بعض اہل علم کم عمری میں شادی کرنے کو عیب سمجھتے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ مغربی تہزیب کے پیروکار ہیں۔ آپ وہ کریں جو اسلام کہتا ہے۔
آپ اپنے بچے کا نکاح وقت پر کردیں ورنہ اسکے گناہ کے ذمے دار آپ بھی ہوں گے۔ محبت محبت انسان کی سرشت میں داخل ںے -محبت زندگی کا نچوڑ ہے۔ محبت رشتوں کی بنیاد ہے۔ محبت رحم دلی ہے۔ محبت شفقت و سمجھ ہے۔ محبت یہ وہ شیٔ ہے جو خاندانوں، رشتےداروں اور برادریوں کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے۔
محبت ایک انمول تحفہ ہے، جو ہم ہر روز ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ محبت وہ شیٔ ہے، جو ہمیں متحد ہونے میں مضبوط بناتی ہے۔ زندگی جینے کے لیے محبت نہایت ہی اہم ہے۔ محبت کے بغیر زندگی کی راہ نہایت ہی مشکل ہے۔ محبت ایک ایسا تحفہ ہے جو ہم بلاجھجک ایک دوسرے کو دے سکتے ہیں۔ محبت کے مختلف اقسام ہیں: چناں چہ اللہ و رسول سے محبت، اولیاےعظام سے محبت،والدین سے محبت، وطن سے محبت، رشتےداروں اور اقارب سے محبت۔
غرض یہ ہے کہ ہر ایک سےمحبتیں مختلف ہیں- میں اپنی قوم کے جواں سالوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو کسی دوشیزہ سے محبت ہو جائے تو سب سے پہلے آپ اس سے بچنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کا تعلیمی وقت یا تجارتی کام وغیرہ برباد نہ ہونے پائے اور اگر اجتناب ناگزیر ہو جایے تو ممکن ہوتو نکاح کا پیغام بھیج کر رشتہ ازدواج سے منسلک ہو جائیں ورنہ کنارہ کشی اختیار کر لیں اسی میں عزت و آبرو کی حفاظت ہے اور دارین کی بھلائی بھی ۔
جوانو! آؤ نکاح کو آسان بناتے ہیں!!حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اے نو جوانو! جو تم میں سے نان و نفقہ اور نکاح کی طاقت رکھتا ہو۔ تو اسے نکاح کر لینا چاہئے (بخاري، نكاح)نکاح کو آسان بنائیں – لڑکی والوں سے بیجا مطالبہ نہ کریں۔
ان پر کسی قسم کا بوجھ نہ ڈالیں اور شرعی طریقے سے نکاح کریں تاکہ سماج میں نکاح کا چلن زیادہ ہو اور زنا سے لوگ بچتے ہوئے نظر آئے.
Pingback: روشن مستقبل کے لیے درست سمت کی تعیین ضروری ہے ⋆ مزمل حسین علیمی
Pingback: قدر و قیمت ⋆ مزمل حسین علیمی