استاذ محترم مولانا محمد امتیاز صاحب ندوی خدمات و تعارف!‎

Spread the love

استاذ محترم مولانا محمد امتیاز صاحب ندوی

خدمات و تعارف!‎

ااظفر منصور

نسانوں کی اس بھیڑ میں معدودے ہی

ایسے ہوتے ہیں جو ہر لحاظ سے قابل تقلید اور نمونہ و مثال ہوتے ہیں، الحمدللہ ہمیں کئی ایسے لوگ ملے ہیں، جن میں ایک حضرت الاستاذ بلکہ کہنا چاہئے استاذ الاساتذہ مولانا محمد امتیاز صاحب ندوی دامت برکاتہم کی ذات ِبابرکات ہے، اللہ رب العزت نے جہاں آپ کو بیشمار ذہانت و فطانت سے نوازا ہے، وہیں آپ کی زندگی میں کئی ایسے دُرّ نایاب بھی رکھ دئیے ہیں جس کی جستجو کے بعد ڈوبتی زندگی کو سفینہ اور دگرگوں حیات کو قرینہ مل جائے۔

مولانا اپنے مولد و مسکن کے اعتبار سے ایسے نہیں تھے کہ زمانے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چل سکیں، مگر چونکہ آپ سے ہزاروں تشنگان ِعلوم ِنبوت کو وابستہ ہونا تھا تو اللہ رب العزت کی خاص عنایت آپ پر ہوئی۔ 

آپ کی پیدائش سالنامہ الاصلاح معہد سیدنا ابی بکر الصدیق ؓ مہپت مئو لکھنؤ کو دئیے گئے ایک انٹرویو کے مطابق ۶/مئی ۱۹۶۷ء ہے، سولہ سال کی عمر میں ندوۃ العلماء لکھنؤ میں عالیہ اولی سے باضابطہ آپ کی تعلیم کا آغاز ہوا، اس سے پہلے آپ تاج المساجد بھوپال، مدرسہ شمس العلوم گوسی، مدرسہ محمدیہ وغیرہ میں مختلف موقعوں پر مختلف کتابیں پڑھتے رہے، مثلاً شمس العلوم گھوسی میں میزان منشعب، کافیہ، قدوری، شرح جامی، مرقاۃ اور برہان سلمی جیسی اہم کتابیں پڑھیں۔

بہار و جھارکھنڈ جیسے پسماندہ علاقوں سے نیز قدیم طرز تعلیم کو چھوڑ کر ندوۃ العلماء کی تحریک کو قبول کرنا یقیناً ایک عالی ہمت بشر کا ہی کام ہو سکتا ہے۔ جب مولانا ندوۃ العلماء سے ۱۹۸۷ء میں فارغ ہوئے تو ان کے استاذ گرامی مولانا مفتی محمد ظہور صاحب ندوی ؒ نے انہیں اور ان کے ساتھ تین رفقاء کو منتخب کر کے اعظم گڑھ کے ایک درس نظامی کے تابع مدرسے میں بھیج دیا، مگر وہاں بہت کم یعنی ایک سال گذارا کہ مادر علمی معہد سیدنا ابی بکر الصدیق ؓ مہپت مئو لکھنؤ کے لیے اللہ رب العزت نے آپ کو قبول کیا، اور مولانا شمس الحق صاحب دامت برکاتہم کی اعانت و سفارش سے ۱۹۸۹ء میں یہاں کے استاذ مقرر ہوگئے۔ 

مولانا کی خدمات بحیثیت استاذ مشاہدات کی روشنی میں! 

یوں تو یہاں سے فارغ ہر طالب علم آپ کا مداح نظر آتا ہے، آپ کے طرز تفہم کی تعریف کرتے نہیں تھکتا، گھنٹوں کی پابندی، وقت پر آنا وقت پر جانا، دوران گھنٹہ چند الفاظ بھی غیر درسی نہ بولنا یہ وہ خاصیات ہیں جن کی وجہ سے آپ فراغت کے بعد ہر طالب علم کے محبوب ِنظر بن جاتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمیں بہت زیادہ استفادہ کا موقع تو نہیں ملا مگر ثانویہ خامسہ (موجودہ رابعہ) میں قطری الندی، ثانویہ سادسہ (اب خامسہ) میں قطری الندی اواخر اور منثورات پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔

معہد کا ایک ایک طالب علم مولانا کی اس عظیم جد و جہد سے واقف ہے کہ عذر ِمعقول کی وجہ سے بھی بسااوقات آپ درجے کا ناغہ نہیں کرتے کہ برکت نہ زائل ہو جائے۔ گذشتہ سال ایک اکسیڈنٹ میں پاؤں میں چوٹیں آئیں مگر اس کے باوجود آپ درجے حاضر ہوتے رہے اور اپنا حق ادا کرتے رہے۔ امسال مولانا سے مشکوۃ المصابیح پڑھنے کا موقع ملا، پڑھانے انداز نہایت جداگانہ، بسم اللہ کسی طالب علم کی عبارت خوانی سے کراتے،

پھر حدیث کے ترجمہ کے ساتھ تشریح و پس ِمنظر بھی بتاتے، ساتھ ہی مستنبط مسائل کے علاوہ اختلافات بھی اس طرح بتاتے کہ گویا ھدایہ کی کتاب کھلی ہو اور اس میں سے دیکھ کر آپ مسائل و اختلافات سمجھا رہے ہوں۔ اللہ اکبر۔ شروع سال کی بات ہے مشکوۃ المصابیح میں ایک باب ہے ”باب الایمان بالقدر“ یہ باب ذہن میں پیدا ہونے والے اشکالات کے اعتبار سے بہت پیچیدہ ہے مگر اس کے باوجود یہ مولانا ہی کا عزم ہو سکتا ہے کہ اشکالات کو رفع کرتے ہوئے نہایت خوش اسلوبی سے مکمل کرا دیا۔ اور یہ معاملہ صرف اس کتاب کے ساتھ نہیں بلکہ ہر درجے میں ہر کتاب کے ساتھ مولانا اسی طرح پیش آتے ہیں

کہ طلباء کے اشکالات بھی دور ہوں، اور وقت پر سبق بھی مکمل، ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانا کثرتِ سوال کو زیادہ پسند نہیں کرتے، ( اس کی وجہ مولانا کے مطابق شاید یہ ہے کہ لڑکے جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں تاکہ وقت ختم ہو، مگر ایسا نہیں ہے۔) مولانا کی تدریسی خدمات اس واقعہ کے بغیر ادھوری رہے گی کہ ابتدا میں جب آپ کو یہاں مقرر کیا گیا تھا تو آپ ندوۃ العلماء سے مہپت مئو روزانہ گاڑیوں سے آمد و رفت کرتے تھے، صبح آتے تھے تو گھنٹے پڑھانے کے بعد ظہر بعد بچوں کی تعلیمی نگرانی بھی کرتے تھے،

پھر گئے سورج کے ساتھ دوبارہ ندوۃ تشریف لے جاتے، اور یہی کچھ روز کا معمول رہتا، نیز ندوۃ میں رہائش کا بھی کوئی بہتر نظام نہیں تھا، بلکہ طلباء کے ساتھ ہی قیام و طعام ہوتا تھا، اسطرح پر مشقت راہوں سے گذر کر آج آپ یہاں تک پہنچے ہیں کہ پیچھے شاگردوں کی ایک لمبی قطار ہے، جو آنکھوں اور پلکوں پر بٹھانے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں، اور صبر کا انعام منجانب اللہ یہ ملا کہ الحمدللہ ندوۃ العلماء نے مہپت مئو ہی میں ایک کوارٹر کی تعمیر کروا دی اور مولانا یہاں برسوں سے رہائش پزیر ہیں۔ 

مولانا کی خدمات بحیثیت مربی جمعیۃ الاصلاح مشاہدات کی روشنی میں! 

معہد سیدنا ابی بکر الصدیق ؓ مہپت مئو لکھنؤ کی تاریخ اگر کبھی کسی صاحب قلم کے ذریعے لکھی جائے تو نہایت جلی حروف لکھا جائے گا کہ جمعیۃ الاصلاح جیسا انقلابی پلیٹ فارم جو کہ تحریک ندوۃ العلماء کا ایک کامیاب شعبہ ہے اس کی باقاعدہ ابتدا معہد مہپت مئو میں آپ ہی کی نگرانی میں ہوئی، اور وہ بھی سال چند سال بعد نہیں بلکہ جس سال آپ یہاں تدریسی امور کے لیے بھیجے گئے تو بس دو چار ماہ کے فاصلے سے آپ کو جمعیۃ الاصلاح کی کمان بھی سونپ دی گئی۔

جس کے بعد جمعیۃ الاصلاح کا نظام روز افزوں ترقی کرتا رہا، اس کے اسٹیج سے بیشمار ایسے خطیب و قلمکار نکلے جن سے ملک و بیرون ممالک کا ذرہ ذرہ درخشاں ہے۔ 

جمعیۃ الاصلاح کے نظام کے تحت رہنے کا موقع ہمیں ثانویہ ثانیہ تا عالیہ اولی ملا، ہر سال ہم نے دیکھا کہ درس کے ساتھ جو فائدہ اٹھاتے ہیں وہ تو ہی قابل تعریف مگر مولانا کوششوں، تحریکوں اور ترغیبوں کی وجہ سے یہ پلیٹ فارم بھی کبھی خشک نہیں رہا۔ یہ مولانا کی محنتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر سال مختلف موقعوں پر مختلف نوعیت کے تقابلی پروگرام کرائے جاتے ہیں، جس سے طلباء کی خوابیدہ صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں، اور Self conscious پیدا ہوتا ہے۔ دارالکتب میں کتابوں کی ذخیرہ اندوزی مولانا جس ذوق و شوق سے کرتے ہیں وہ بھی قابل تعریف اور اپنی ذمہ داریوں کے تئیں آپ کا خلوص ہی کہا جا سکتا ہے۔ 

مولانا کی زندگی ایسی سادہ کتاب ہے کہ اس پر جو دیکھنا چاہیں صاف و شفاف اور واضح نظر آئے گا۔ نہ بہت شان و شوکت کا غرور ہے اور نہ ہی بیکسی و بیچارگی کی تصویر ہیں بلکہ نہایت پروقار ندوی ٹھاٹ باٹ آپ کا شعار ہے، سفید کرتا پائجامہ، سردیوں میں صدری و مفلر کا استعمال، راستوں میں نظریں نیچی رکھنا، طلباء سے تبسم فرمانا، طلباء کے سامنے نہایت جامع گفتگو کرنا، اپنے بڑے اساتذہ کا ادب و تذکرہ کرنا کوئی آپ سے سیکھے۔

امسال سالانہ مسابقات کے بعد تقسیم انعامات کی تقریب کی مناسبت سے معہد سے پانچ لوگوں ( مولانا اسماعیل صاحب ندوی، مولانا موصوف محمد امتیاز صاحب ندوی، محمد ارقم، اظفر منصور، عبداللہ فیض ) پر مشتمل ایک وفد ندوۃ العلماء حضرت ناظم صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات و تاریخ لینے کے لیے پہنچا، وہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے اساتذہ کے ادب کا وہ منظر دیکھا کہ طبیعت بے کیف سی ہوگئی تھی، کہ ہم تو ابھی طالب علم ہی ہیں، اس کے باوجود ہمارے درمیان سے اساتذہ کے ادب کا پردہ اٹھتا جا رہا ہے،

اور مولانا! مولانا تو عرصہ ہوا فارغ ہو چکے ہیں پھر بھی ایسا لگتا ہے اب بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے ہوئے ہیں، اللہ اکبر۔ 

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام اساتذہ خصوصاً مولانا محمد امتیاز صاحب ندوی دامت برکاتہم العالیہ کو عمر طویل عطا کر کے فیض کا سلسلہ دراز فرمائے۔ آمین ثم آمین

8738916854

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *