ایک ماں کا گم شدہ بچہ
ایک ماں کا گم شدہ بچہ
گذشتہ سال دسمبر کے مہینے میں ایک عزیز نے اپنے چچازاد بھائی کی گمشدگی کی داستان سنائی تھی، لیکن وہ واقعہ گذرتے لمحات کے ساتھ ذہن سے فراموش ہوگیا، آج اتفاق سے اسی عزیز کا فون آیا، حال و احوال کے فوراً بعد کہا کہ وہ! ہم نے بتایا تھا نا کہ میرے چچا کا اکلوتا لڑکا کھو گیا ہے وہ مل گیا۔
مارے مسرت کے میں نے مکرر یہ خبر سنانے کا کہا، ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیوں کہ اس بچے کے ملنے سے ہمیں بس اس ماں کا خیال آ رہا تھا جس ماں نے ایک مدت تک بلکہ سولہ سال تک اس کی پرورش کی تھی، آنکھوں کا نور، دل کا قرار، دماغ کا سکون، جسم کی طاقت، اپنی عزت بنایا تھا، اسے اس کا لخت جگر آٹھ سال بعد اپنے ہونے کی خبر دے رہا تھا، اس بچے کی جو اب کڑیل نوجوان کی شکل میں لحیم شحیم واپس گھر جائے گا، ماں کی آنکھیں اپنے پلکوں کو آنسؤں میں سجاکر استقبال کریں گی،۔
باپ کے جذبات کا دھارا بہے گا، گھر کا عجیب ماحول ہوگا، گاؤں کی شان کے مطابق تمام ملنے جلنے والے جوق در جوق اس کے گھر جمع ہو جائیں گے، کیونکہ بیٹا ہو یا بیٹی وہ صرف اپنے گھر کی (/کے) نہیں ہوتی (/ہوتے) بلکہ پورے سماج و معاشرے (/کی) کا ہوتی (/ہوتے) ہیں۔
جس کا مشاہدہ گاؤں دیہات میں بدرجہ اتم ہوتا ہے۔ واضح ہوکہ یہ واقعہ ہمارے ضلع ارریہ کے ایک گاؤں جس کا نام پوٹھیا ہے وہاں کا ہے، دو چار دنوں قبل جب اس گم شدہ بچے نے اپنے گھر فون کیا تو اس کی چھوٹی بہن نے فون اٹھایا تھا، جیسے ہی اس نے نام بتایا بچی فوراً فرط طرب میں جھومتے اور چلاتے ہوئے ماں کے پاس بھاگی کہ ”بھائی مل گیا بھائی مل گیاگیا“، ہم نے خبر دینے والے سے پوچھا کہ اس گم شدہ بچے نے اب آٹھ سال بعد کیوں فون کیا جب اسے گھر کا پتہ اور نمبر وغیرہ معلوم تھا تو؟
تو اس نے بتایا کہ وہ ہمیشہ گھر فون کرتا مگر فون اٹھتا تو پوچھتا فون کہاں لگا؟ ادھر سے جواب آتا کہاں لگایا؟
یہیں بات رخ بدلتی اور فون کاٹ دیا جاتا مگر اس مرتبہ اس بچے نے جو کہ اب اچھا خاصا نوجوان ہے بتایا کہ ہمیں فلاں جگہ فلاں سے بات کرنی ہے میرا نام ”یہ“ ہے تو ماں کی آنکھوں پر چھائے ناامیدی کے بادل چھٹے اور آٹھ سال سے جس کی تڑپ نے گھر کو ویران دل کو سنسان بنا رکھا تھا اس کی خوش خبری موصول ہوئی، بتایا گیا کہ یہ گم شدہ بچہ تقریباً دو سال تک دہلی میں چائے کی دکان پر رہا، پھر چھ سال سے وہیں دہلی میں ہی ایک غیر مسلم کے کارخانے میں کھلونے وغیرہ بنانے کا کام کرتا تھا۔
اطلاع کے مطابق جب ماموں وغیرہ اسے لینے مالک کارخانہ کے پاس پہونچے تو اس نے نہ صرف یہ کہ اجازت دی بلکہ ایک مہنگا ترین فون مع پچاس ہزار کی خطیر رقم بھی دی اور پچاس ہزار چند دنوں میں دینے کا وعدہ کیا، بقول خود اس بچے کے کہ ”اس غیر مسلم مالک نے بالکل اپنے لڑکے کی طرح پرورش کی، رکھا، و دیگر خدمات انجام دیں، “
آج کے اس نفرت انگیز دور میں ایسی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ اس خبر کو تحریر کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ایک ماں جو کہ آٹھ سال سے اپنے بچے کی آمد کا انتظار کر رہی تھی، ہر اس عامل و مولوی کے پاس پہونچ جاتی جہاں سے کچھ امید و تسکین کی بو آتی، اس کی ممتا و محبت سامنے آئے نیز اس غیر مسلم مالک نے کیسے آٹھ سال ایک بچے کو چائے کی دکان سے اٹھا کر اپنے پاس رکھا، تربیت کی، پروان چڑھایا، فنون سکھائے، اور بوقت رخصت دریا دلی کا وہ مظاہرہ کیا کہ آنکھیں حیرہ و خیرہ رہ گئیں۔
اللہ اکبر۔ قارئین دعا کریں کہ ایک ماں اور نجیب کی ماں ہاں نجیب جسے دوہزار پندرہ میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی سے آر ایس ایس کی طلباتنظیم نے غائب کیا ہے، جس کی تلاش میں سی بی آئی جیسی ایجنسیاں بھی ناکام ہیں اس ماں کو اپنے پروردگار سے اب بھی امید ہے کہ نجیب آئے گا، اور امید ہو بھی کیوں نہ کہ ”لاتحزن ان اللہ معنا“ اور ”یا ایھا الذین آمنوا لاتقنطوا من الرحمتہ اللہ
اظفر منصور
8738916854
Pingback: دہلی کی جامع مسجد نقوش و تاثرات ⋆ اظفر منصور
Pingback: گورکھ پور کا ایک یادگار سفر اور تاثرات و تجربات ⋆ ظفر منصور
Pingback: اپنوں کے ہاتھوں عورتوں کا قتل ⋆ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Pingback: مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے دور حاضر کی بہترین کتاب ⋆ محمد رفیع