نئے سال کے خرافاتی جشن سے بچیں
نئے سال کے خرافاتی جشن سے بچیں
تحریر: اورنگ زیب عالم رضوی مصباحی
مکرمی !
انسانی زندگی میں غم اور خوشی معمولی بات ہے، اور یہ عموماً اللہ کی جانب سے آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے کہ غم میں ہوش کھو کر کہیں غیر شرعی افعال کے شکار نہ ہو جائیں اور خوشی کے اوقات میں اپنی اوقات بھول کر فضول خرچی، رقص و سرور اور عیاشی کے شکار نہ ہو جائیں بعدہ ہزاروں دنیوی ذلّتیں جھیلتے آخرت کی عذاب میں گرفتار ہوجائیں۔ ایسے موقعوں پر بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ غم میں ہوش کھونے کے بجائے صبر و تحمل اور خوشی میں پاگل ہونے کے بجائے حمد و شکر کا دامن تھامے۔
مگر آج کے اس من مانی اور خودمختاری کے دور میں لوگوں کے رویّے مذکورہ احتیاط سے میلوں دور ہوتے ہیں، کہ غم میں حواس باختہ ہو کر رونے چلانے کپڑے پھاڑنے حتی کہ خود کشی تک کے غیر شرعی افعال کر جاتے ہیں اور دن بدن نت نئے رنگ و ڈھنگ میں ترقی پذیر بھی ہوتے ہیں، وہیں معمولی سی مسرت پر کروڑوں کا سرمایہ برباد کر بیٹھتے ہیں بالخصوص جبکہ کوئی خوشی ہو بھی نہیں۔
اور جبری مسرت کا اظہار کرے اور مغرب زدہ لوگوں کے نقش قدم اور ان میں نامی بننے کے چکر میں ہزارہا عیاشیوں میں دولت صرف کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔انہیں جعلی مواقع مسرت اور فرضی تیوہار میں سے ایک “ہیپی نیو ایئر” بھی ہے۔ جو کہ عیسائی تہذیب و ثقافت کا حظ وحصہ ہے اور انہیں کا ایجاد بھی ہے۔ اس کا آغاز
عیسائیوں میں تقریبا 700ء مسیح سے یہ روایت چلی آرہی ہے کے انگریزی سال کے اختتام پر یا اس کے آغاز پر خوشیاں مناتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بتائی جاتی ہےکہ 25 دسمبر کو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اس کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے
اسی مناسبت سے نئے سال کے آنے تک یہی خوشی کا ماحول رہتا ہے، اور چونکہ کرسمس ڈے کے موقع پر کثیر کفریات و شرکیات اور محرمات انجام دئیے جاتے ہیں اس مناسبت سے انتہائی گھٹیا رسم ہوگا۔
جب کہ دوسری وجہ محض یکم جنوری اور نئے سال کی خوشی منائی جاتی ہے۔ کیا نیا سال پر خوش ہونا چاہیے؟
کیا واقعی سال کے نیا ہونے پر ہمیں خوشی کا اظہار کرنا چاہیے؟ ان میں بدکاریوں سے قطع نظر، جواب یہی ہوگا کہ اگر نیا سال ہونا خوشی کی بات ہے تو نیا مہینہ،نیا ہفتہ، نیا دن یہ ساری چیزیں منانی چاہیے کہ ہر آنے والا پل انسان کے لیے نیا ہی ہے، گزرا پل واپس نہیں آتا، اگر یہ سب نہیں مناتے تو نیا سال بھی نہیں منانا چاہیے۔ نئے سال کے فنکشن میں کیا ہوتا ہے
نئے سال کے فنکشن میں سڑکوں اور گلیوں یا پارک اور ہوٹلوں کو رنگ برنگی لائیٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے ، جس میں تقریبا اربوں کھربوں یا جشن منانے والوں کی حیثیت کے اعتبار سے بہت زیادہ رقم آتش فشانی اور جگمگاہٹ کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں
پھر31 دسمبر کی رات بارہ بجنے کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے اور اس سے قبل خوب ڈی جے بجتے ہیں اور دلکش مگر شیطانی سُر تال سے گانے بجتے ہیں ساتھ ہی رقص و سرور کی محفلوں میں دوشیزائیں مردوں سے ہاتھ میں ہاتھ اور کندھے سے کندھا ملا کر خوب ناچ گانے کرتے ہیں
12 بجتے ہی ڈھیر سارے پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں اور نیو ایئر کا کیک کاٹ کر ایک دوسرے کو مبارکباد دیا جاتا ہے ہر چہار جانب ہیپی نیو ایئر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ، خوب آتش بازیاں ہوتی ہیں ،مختلف نائٹ کلبوں، شو رومز اور پارکوں میں بلکہ شہر کے ہر چوراہے پر تفریحی پروگرام ، ناچ گانے ڈانس کا بھرپور انتظام کے ساتھ شراب و کباب اور جوان جسم فروش حسیناؤں کا مکمل بند و بست ہوتا ہے، جس میں کہیں آپسی رضامندی سے بدکاریاں انجام پاتے ہیں، تو کہیں جبرا چھیڑخوانی سے لے کر بلاتکار تک کے واقعات سرزد ہوتے ہیں۔
بھلے ہی اس کا ایجاد عیسائی تہذیب و ثقافت کا حظ وحصہ ہوں مگر دورحاضر میں تقریبا سارے غیر مسلم اپنی تہذیب وارتقاء بیچ کر عیسائی تہذیب میں ڈوب کر اس کے دیوانے نظر آتے ہیں رہے مسلمان تو کچھ ہی سہی مگر عیسائی تہذیب کے خرافات سے کچھ حد تک محفوظ ہیں مگر بعض مسلمان بھی اس کے زد میں آ چکے ہیں۔
پر نیو ایئر منانے والے مسلمانوں سے سوال ہے کہ اے مسلمانوں!! کیا تم بھی اپنی ثقافت و روایا ت اور اقدار بیچ بیٹھے یا تمہارے پاس اپنا کیلنڈر نہیں؟
ہمیں دل کی گہرائی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اپنی روایات و تہذیب ہیں جو ہر موڑ پر بھلائی کی ترغیب اور بدکاریوں سے روکتی ہیں۔ مگر کس قدر شرم کی بات ہے کہ عیسائی کی ایجاد نئے سال کی محفل میں مسلمان شرکت کے خواہاں ہیں۔
حالاں کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سرمائے کی حفاظت کے لیے فرمایا کہ “فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے” ، تو کہیں یہ فرما کر لایعنی باتوں سے منع فرمایا کہ “آدمی کے اسلامی خوبی یہ ہے کہ وہ وہ فضول چیزوں سے بچے”(ترمذی)
یوروپین اور غیر مسلموں کو تو چھوڑیئے مسلم ممالک کے لبرل خیال افراد بالخصوص عرب ممالک اس معاملے میں زیادہ بے راہ روی میں مبتلا ہیں، اس موقع پر یو اے ای (UAE)کی اہم ترین عمارتوں کی لائٹنگ اور وہاں آتشبازیاں جس انداز سے کی جاتی ہیں قابل مذمت اور افسوس ناک ہے،اس کے تمام ڈیزائن اور منصوبے کی ذمہ داری یونائیٹڈ کنگڈم اور دوسرے مغربی ممالک اور ان کے ماہرین سنبھالتے ہیں۔
اور پھر اربوں کھربوں روپے چند منٹوں میں مغربی ممالک یا ان کے ماہرین کے جیب کی نذر ہو جاتی ہیں،ایک موقع پر صرف اس جشن میں70000 ایل ای ڈی بلب اور تقریبا پانچ ٹن آتشبازی کے سامان اور سیکڑوں ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ ذرا سوچئے!
مسلمان اور ان کے حکمران اگر اس قدر بڑے رقم اور کثیر سرمائے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور مسلم ممالک کے اتحاد میں صرف کیے ہوتے یا اپنے ہتھیار اور میڈیکل سائنس یا دیگر تجارتی اور غیر تجارتی شعبوں میں صرف کئے ہوتے تو آج قوم مسلم پوری دنیا کے ظالموں کو قدموں میں رکھتی مگر اس کے برعکس ان لبرل خیال مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کا مغربی تیوہاروں میں پیش قدمی اور ان میں اسراف اور مسلموں سے عدم توجہی نے قوم مسلم کو یہود و نصارٰی اور ہنود کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے ترجمہ :اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ یقینا جو مغربی تہذیب و تمدن کے زد میں ہیں وہ شیطان کے پیروی کرنے والے ہیں۔
خرافات کا نتیجہ
ان خرافاتی اور بے حیائی کے رسومات سے ایک سلیم الطبع شخص بہت پریشان ہوتا ہے، دل کے مریضوں کی جان پہ بن آتی ہے، کئی گھر اور دکانیں نذر آتش ہو جاتی ہیں، بطور نمونہ کچھ خبریں ملاحظہ ہوں: پیراگویہ میں 2004ء کے دوران آتش بازی کے باعث 400افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔
یکم جنوری 2005ء میں ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس کے ایک نائٹ کلب میں نئے سال کی خوشی میں موسیقی کے پروگرام کے دوران آتش بازی کے نتیجے میں آگ لگنے کی وجہ سے کم از کم 300افراد جل کر ہلاک اور 500سے زائد شدید زخمی ہوگئے ۔
نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں اندھا دُھند ہوائی فائرنگ کی گئی،اس دوران15افراد زخمی ہوگئے۔
(جنگ آن لائن یکم جنوری 2017)(بحوالہ ماہنامہ فیضان مدینہ، جنوری 2018)
تحریر: اورنگ زیب عالم رضوی مصباحی
(خادم: دارالعلوم غریب نواز،جھلوا،گڑھوا)