مدارس کے نئے فضلا سے چند گزارشات

Spread the love

مدارس کے نئے فضلا سے چند گزارشات

مولا نا محمد عمران عیسی استاذ : جامعہ بنوری ٹاؤن

شعبان ۱۴۴۴ھ میں درس نظامی میں سے فراغت حاصل کرنے والے نوجوان فضلا مدارس مبارکب اد قبول فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر، صحت علم اور عمل میں برکت عطا فرمائے … (آمین)

بلا شبہ آٹھ سے دس سال آپ نے اور آپ کے والدین نے حوصلے و استقامت کے ساتھ اپنے آپ کو علم دین کے حصول کے لیے فارغ کیا

اب عملی میدان میں جانے کا وقت ہے جس کے لیے آپ نے اپنے مخلص اساتذہ سے بہت سی نصائح سنی ہوں گی ۔ الدین النصیحۃ کے تحت ، راقم بھی اپنا حصہ اس میں ملانا چاہتا ہے۔

پہلی بات اس بات کو طے کر لیا جائے کہ جب اللہ پاک  نے آپ کو اپنے علم کے لیے قبول کیا تو اب مرتے دم تک اس کے ساتھ جڑے رہیں گے ، یہ نہ ہو کہ مدرسہ سے نکل کر کلی طور پر دنیاوی مشاغل ہی میں پھنس کر رہ جائیں۔

جس طرح ہمارے لیے یہ تعجب خیز بات ہے کہ ڈاکٹر بننے کے بعد ڈاکٹر دودھ کی دکان کھول لے ، اسی طرح ہمیں بھی آسمانی علم کے ساتھ نسبت کی لاج رکھنی ہے، معاش کی فکر غلط نہیں ،مگر غالب وقت اور ترجیح علم اور دین کے لیے ہونی چاہیے۔

اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا أُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ أَجْمَعَ الْمَالَ وَأَكُونَ مِنَ التَّاجِرِينَ وَلَكِنْ أُوْحِيَ إِلَيَّ أَنْ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السَّاجِدِينَ، وَاعْبُدُ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِين. (مشكاة المصابيح: الفصل الثالث ، (۴۳۶/۳) ط: المكتب الإسلامی، بیروت)

میری طرف یہ وحی نہیں کی گئی کہ میں مال جمع کروں اور تاجروں میں سے ہو جاؤں ، بلکہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ : ” اپنے رب کی حمدو ثنا بیان کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں ، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں حتی کہ آپ وفات پا جائیں۔“

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے لیے فارغ اور ” فاضل“ کا لفظ بولا تو جارہا ہوگا مگر ہم نے اپنے آپ کو نہ فارغ سمجھنا ہے نہ فاضل، بلکہ ابھی بہت کچھ پڑھنا اور سیکھنا ہے…. اور بہت سے کام کرنے ہیں ۔

تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ علم کا حصول ہوتا تو عمل سے پہلے ہے جیسے وضو نماز سے پہلے کیا جاتا ہے مگر جیسے وضو برائے وضو نہیں ، بلکہ برائے نماز ہے، اسی طرح علم بھی برائے عمل ہے۔ اس لیے اس کا عزم کرنا ہے کہ ہمیں صالح و دین دار بن کر زندگی گزارنی ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ طلب علم کے زمانے کی کمی کوتاہی کی وجہ سے حوصلے پست نہیں کرنے ۔ مصری ادیب مصطفیٰ لطفی منفلوطی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک باپ نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ بڑے ہو کر کیا بننے کا ارادہ ہے؟ ( یعنی تمہارا Ideal کون ہے؟) بیٹے نے کہا: ابا جی! آپ ہی میرے لیے Ideal ہیں، اس پر باپ نے انا للہ پڑھی کہ کیسی چھوٹی نیت کی ، میں جب تمہاری عمر کا تھا تو نیت کرتا تھا کہ میں علی ابن طالب رضی اللہ عنہ جیسا بنوں گا

( واضح بات ہے کہ ان جیسا تو بن ہی نہیں سکتا مگر اپنا ہدف ایسا بنایا کہ آگے بڑھنے کا میدان وسیع رہے۔ ) اس لیے اونچے عزائم کے ساتھ میدانِ عمل میں جانا ہے۔

ان تمہیدی و بنیادی باتوں کے بعد عرض ہے کہ ہمارے جدید فضلا کے سامنے بالعموم دو راستے ہوتے ہیں۔ یا تو تخصص کی طرف جاتے ہیں، یا تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔

دونوں ہی فائدہ مند و درست ہیں تخصص کرنے والوں سے تو عرض ہے کہ یکسوئی کے ساتھ تفصیلی نصاب والی جگہ کو ترجیح دیں۔

تدریس کی طرف جانے والے ساتھی درج ذیل بنیادی باتیں ذہن میں رکھیں۔

الف :: تدریس و تعلیم براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وظیفہ ہے، اس لیے اس میں اسوہ و نمونہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو بنایا جائے ۔ اس کے لیے شیخ عبد الفتاح كي كتاب الرسول المعلم وأساليبه في التعليم بہت حد تک کفایت کا کام دے گی۔

خاص طور پر اس کتاب کا وہ حصہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کی نفسیات و طبائع کی رعایت کے واقعات ہیں ۔

ب:: فنون کی ابتدائی کتب پڑھانے کو عار نہ سمجھے بلکہ اس کو ترجیح دی جائے تدریس شروع کرنے کے بعد اندازہ ہوگا کہ حقیقت کسی کتاب کو پڑھانے کے ذریعے گویا خود پڑھنا شروع کرتا ہے، اس لیے ایک کتاب کم از کم
چار سال زیر درس رہے تو اس کتاب و فن سے فی الجملہ مناسبت پیدا ہوتی ہے۔

ج :: تدریس بھی ” سیکھنے ” سے تعلق رکھتی ہے جیسے ڈاکٹر محض ایم بی بی ایس کر کے علاج شروع نہیں کرتا یا جیسے عصری تعلیمی اداروں میں بی ایڈ کیا جاتا ہے، اسی
طرح تدریس کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔

اکابر وفاق بھی اس سلسلے میں کسی رسمی نظم کے قائم کرنے میں کوشاں ہیں، تاہم جب تک ایسی صورت سامنے نہیں آتی تو کم از کم اپنے طور پر تدریس کے اصول و آداب کو کسی کہنہ مشق استاذ سے سمجھا ضرور جائے۔

و :: تدریس کے لیے مطالعہ کا اہتمام ہو اور وہ مطالعہ ایک آدھ شرح / کاپی پرمنحصر نہ ہو بلکہ متعلقہ فن کی تمام اہم کتب کی مراجعت کی جائے ۔ یہ تفصیلی مطالعہ آپ کے اپنے استفادے کے لیے ہے، نہ کہ طلبہ کے لیے کیوں کہ طلبہ کو تو اس میں سے دس فیصد باتیں بتائی جائیں گی۔

کام کرنے کے دیگر مواقع :

چوں کہ فضلا و مخرجین کی تعداد مدارس کے بنسبت زیادہ ہے اور اہلِ مدارس کی ترجیح بھی بعض مرتبہ نئے (Fresh) فاضل کو لینا نہیں ہوتا بلکہ وہ تجربہ کار مدرس کی تلاش میں ہوتے ہیں ( جس میں وہ حق بجانب ہیں ) لہذا اب اگر آپ کے احوال آپ کو شخص کے لیے فارغ نہیں کرتے اور تدریس کی جگہ بھی میسر نہیں ہوتی تو آپ اس صورت حال سے پریشان نہ ہوں کیوں کہ آپ مثلا درج ذیل کاموں میں بھی اپنے آپ کو مشغول کر سکتے ہیں:

قرآنی مکتب / شعبہ حفظ .

عام طور پر درس نظامی کے فاضل کی ترجیح قرآن کریم پڑھانا نہیں ہوتا ، بلکہ یہ شعبہ یا تو حفاظ کے حوالے ہو جاتا ہے جن کو عرف میں قاری صاحب کہتے ہیں ، دوسرے نمبر پر وہ فاضلِ درسِ نظامی جو کمزور استعداد اور مقبول کی تقدیر کے ساتھ (مثلاً) وفاق کے امتحان میں کامیاب ہوا ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جید فضلا ، احتساب کی کیفیت کے ساتھ اس شعبہ کو اختیار کریں ، کیوں کہ ہمارا مقصد تو احیاء دین ہے اور یہ شعبہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ مسلمان باپ اپنے بچے کو عالم بنائے نہ بنائے تبلیغ میں بھیجے نہ
بھیجے ،مگر بالعموم مکتب ضرور بھیجتا ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ مکتب کے بچوں کو نورانی قاعدے و ناظرے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بطور مشن اسلام/ ایمان/ توحید اور اخلاق و آداب کا تخم مسلمان بچے کے دل میں ڈال دیا جائے ۔

کتنی حیران کن بات ہے کہ ہمارے دیو بندی سلسلۃ الذھب کے دو روشن مینار ، حضرت نانوتوی و حضرت گنگوہی کو اس مقام پر پہنچانے میں بڑا دخل حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کا تھا ، اور حضرت حاجی صاحب کو حاجی صاحب بنانے والے ان کے مکتب کے میانجی تھے۔

اس لیے فضلا مدارس اگر کسی ماہر مشاق مجود کو اپنا قرآن کریم ، حدر میں سنا کر تجویدی اغلاط کی اصلاح کرالیں اور پھر اس شعبہ میں ثواب و استخلاص کے ساتھ لگ جائیں تو استعمال کی جگہ بھی میسر ہوگی اور ان شاء اللہ بہت بڑا صدقہ

جاریہ بھی ہوگا۔

دراسات دینیہ : اللہ کا دین تمام مسلمانوں کے لیے ہے اور مسلمان زندگی کے مختلف شعبوں میں منتشر ہیں ، ان مسلمانوں کو دین کی طرف لانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کی آسان صورت ہر بالغ / مکلف مسلمان کو

دین اور علم دین کے ساتھ جوڑنا ہے۔

یہ کام کسی درجہ میں تبلیغی جماعت صحبت صالحین کے ذریعہ ہو بھی رہا ہے مگر وہ نا کافی ہے، دوسری طرف ایک طبقہ مسلمانوں کا ایسا ہے جو تر جمہ قرآن عربی زبان وغیرہ جیسے عنوانات پر مسجد کے قریب آنے کو تیار ہوتا ہے۔

وفاق المدارس کے تحت دو سالہ دراسات دینیہ کورس میں عوامی دل چسپی کے سارے مواد مجتمع ہیں۔ اس لیے ہر فاضل اپنی مقامی مسجد کو مرکز بنائے اور بڑی تعداد کے جمع ہونے کا انتظار نہ کرے بلکہ دارالعلوم دیوبند کی ابتدا کو یاد رکھے کہ انار کے درخت کے نیچے ایک استاذ کے سامنے ایک ہی طالب علم تھا۔

ممکن ہے دراسات کے مقررہ نصاب پر ہمیں کچھ تحفظات ہوں ، مگر نصاب میں آپ جو بھی تبدیلی کریں گے وہ پھر بھی موضوع بحث رہے گا، اس لیے اجتماعی دھارے میں چلتے ہوئے طے شدہ نصاب کو ہی اختیار کر لیا جائے اور بہتری کے لیے دعا کی جائے اور متعلقہ حضرات تک مشورہ پہنچایا جائے مگر کام سے پیچھے نہ رہا جائے۔

بندہ اس کورس سے بحمدہ تعالی اس وقت سے وابستہ ہے جب وفاق نے پہلی مرتبہ اس کورس کا اعلان کیا ( جب یہ کورس تین سالہ تھا ) اور ذاتی طور پر شاہد ہوں کہ عملی زندگی سے جڑے مسلمانوں کی زندگی ، اس کورس سے کیسی بدلتی ہے، اور نظریاتی وفکری لحاظ سے یہ حضرات کتنے پختہ ہو جاتے ہیں۔ پھر اس کورس کے انعقاد کے لیے مالی مصارف کا بوجھ نہیں، نہ جگہ درکار، مسجد ہی میں کلاس لگ سکتی ہے، تبلیغی جماعت کی ترتیب پر ہر مسجد مسلمانوں کو اپنی ضرورت کا دین سکھانے کا مرکز بن سکتی ہے۔

وقتی مناسبات و مواسم کے لحاظ سے مختصر دور ایسے کے کورس / محاضرے

سال بھر مسلمانوں کو کسی نہ کسی عنوان سے ان کی ضرورت ، دل چپسی کا دین سکھانے کا بندوبست کیا جائے جو ایک یا ایک سے زیادہ نشستوں پر مشتمل ہو، جس میں ہمارے فضلا تیاری کر کے اپنی ذات سے بھی خوب مستفید ہوں اور لوگوں کا بھی بھلا ہو۔

یہ محاضرات بے شک تجربہ چاہتے ہیں مگر واضح بات ہے کہ ہر تجربہ کا شخص بھی ابتدا میں تو غیر تربیت یافتہ ہوتا ہے پھر محنت و دل چپسی ولگن سے کام کرنے سے وہ تجربہ کار کہلایا جانے لگتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابتداء ، آپ بے شک ان مجالس کے انعقاد کا انتظام سنبھالیں اور محاضرات کے لیے علاقے کے پرانے علما سے استفادہ کریں، رفتہ رفتہ آپ
بھی اس میں چل پڑیں گے۔

ذیل میں نمونے کے لیے چند عنوانات ذکر کرتا ہوں، جس سے انداز ہوگا کہ اگر کام کرنا چاہیں تو یہ موسمی /علمی دروس گو کہ مختصر دورانیے کے ہوں مگر ان کی تیاری و محنت میں مشغولیت مستقل کام ہے

ا۔ دروس سیرت

۲۔ استقبال رمضان کریم

۳۔ زکوۃ آگا ہی کورس

۴۔ نماز سنت کے مطابق پڑھیں۔

۵۔ گھریلو جھگڑے اور اسلام کی روشنی میں ان کا حل

۶ ۔ بچوں کی دینی تربیت کیسے کریں۔

بہر حال یہ چند گزارشات، اختصار کے ساتھ اپنے مشاہدے و تجربے کی روشنی میں پیش کر دیں۔ اصل بات ابتدا والی ہے کہ ہم اللہ کے دین کی آبیاری کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے کا عزم کریں اور اللہ سے صدق دل سے قبولیت کی دعا کریں، (الفرقان)۔ پھر جب اللہ قبول کرنے کا فیصلہ فرمالے گا تو استعمال کے را ہم بھی وہ خود دکھادے گا

وصلى الله وسلم على سيدنا محمد وعلى اله وصحبه أجمعين.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *