علم و عمل کے بحر ذخار اور چلتی پھرتی لائیبریری کا نام تھا

Spread the love

علم و عمل کے بحر ذخار اور چلتی پھرتی لائیبریری کا نام تھا صوفی محمد نظام الدین ۔ علما

سنت کبیر نگر/گورکھ پور

حضرت صوفی نظام الدین علیہ الرحمہ کا عرس پاک 25 نومبر 2022 کو ضلع سنت کبیر نگر کے گاؤں “اگیا چھاتا”میں ان کے جانشین ، نازش اہل سنت ، پیکر اخلاص ، حضرت علامہ حبیب الرحمن خان قادری رضوی مصباحی مدظلہ کی سرپرستی اور نبیرہ خطیب البراہین علامہ ضیاء المصطفیٰ نظامی مصباحی کی قیادت میں بڑے ہی تزک و احتشام سے منایا گیا ۔

واضح ہو کہ حضرت علامہ مفتی صوفی محمد نظام الدین برکاتی مصباحی علیہ الرحمہ، سابق شیخ الحدیث دارالعلوم تنویر الاسلام امرڈوبھا ضلع بستی ایک مُرشد کامل ، صوفئ باصفا ، خطیب البراہین ، پیکر زہد و تقوی ، فخر اہل سنن تھے

آپ علماے اہلِ سنت میں ایک ذی وقار عالم دین اور مدرسین میں ایک بلند پایہ شیخ الحدیث کی حیثیت سے مشہور تھے، جن کے کثیر التعداد شاگرد پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں ، حضرت ایک گراں قدر مرشد اور کثیر المریدین شیخ اور پیر طریقت تھے، رشد وہدایت اور وعظ و تقریر میں پورے ہندوستان میں خطیب البراہین کے نام سے معروف ومشہور تھے ، ان کی تقاریر اور سیرت و کردار سے لاکھوں  بھٹکے ہوؤں کو راہ ہدایت نصیب ہوئی۔

عرس کی تقریبات کا آغاز حضرت صوفی صاحب کے مزار پر قرآن خوانی اور ایصال ثواب اور گُل پوشی سے ہوا۔بعدہ بعد نماز عشاء ایک عظیم الشان جلسے کا اہتمام ہوا جس میں ملک وبیرون ملک کے سیکڑوں علما ودانش وران کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں عوام و خواص موجود رہے ۔

جلسے کا آغاز تلاوت کلام اللہ سے کیا گیا۔

اس موقع پرجلسہ عرس سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے سینئر استاذ حضرت مفتی صدالوریٰ مصباحی صاحب نے کہاکہ

مجدد ملت امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب مقال العرفاء میں حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حوالے سے تصوف کی یہ تعریف کی ہے کہ تصوف نام ہے ” سنت نبوی پر قائم رہنا اور احکام شریعت کا التزام کرنا ” یعنی ہر امر میں شریعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی پاس و لحاظ رکھنا

تصوف کی اس تعریف کی روشنی میں جب ہم حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ کو پرکھتے ہیں تو ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ احکام خداوندی اور سنت نبوی کی پابندی میں گزرتا نظر آتا ہے

آج عمومی طور پر لوگ حرام سے بھی بچنے کی کوشش نہیں کرتے مگر حضرت صوفی ملت نہ صرف حرام سے  بلکہ شبہات سے بھی احتراز فرماتے ،

موصوف نے مزید کہا کہ ہم نے خود بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت صوفی نظام الدین علیہ الرحمہ مقیم ہونے کی حالت میں تو مسجد میں جاکر نماز باجماعت کا پابندی سے اہتمام فرماتے ہی تھے حالت سفر میں بھی جب کسی گاؤں یا شہر میں قیام ہوتا تو اذان ہوتے ہی قریبی مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔

حضرت موصوف نے کہا کہ جس طرح صحابہ کرام اور تابعین جب حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رخ زیبا دیکھتے تھے تو بے ساختہ ان کی زبانوں پر اللہ کا ذکر جاری ہوجاتا تھا اسی طرح جب لوگ حضرت صوفی صاحب کو دیکھتے تھے تو ان کی زبانیں حمد الہی سے سرشار ہوجایا کرتی تھیں ۔ مولانا مختارالحسن بغدادی  نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت صوفی نظام الدین علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں لوگ اس لیے آتے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی پوری زندگی خدائے تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی،تو اللہ رب العزت نے اپنے وعدے کے مطابق ان کی محبت اپنے بندوں کے دلوں میں ڈال دی،انھوں نے مزید کہا کہ اللہ کے اولیاء وہی ہیں جو صاحب تقویٰ ہیں،جن کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول کی سچی محبت موجزن ہے۔

تقریب عرس کو خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا حبیب الرحمان مصباحی باندوی نے کہا عرس میں آنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم بے مقصد گھوم پھر کر چلے جائیں بلکہ یہاں آنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہوتا ہے ہم اپنی زندگی کو ان بزرگوں کی زندگی کے سانچے میں ڈھال کر اپنے دارین کو سنوارنے کی کوشش کریں، اگر آپ واقعی اس عرس میں حضرت صوفی صاحب کی محبت میں آئے ہیں تو سن لیں کہ انھوں نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر احکام الہی اور فرمودات نبوی کی اتباع کی تو محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ بھی انھیں کے رنگ میں رنگ جائیں، علامہ الحاج مسعود برکاتی مصباحی استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے کہا کہ طلبہ کو اپنی باتیں سمجھاکر ان کے دل میں اترجانا، بڑا مشکل کام ہے۔

حضور خطیب البراھین علیہ الرحمہ کے درس دینے اور پڑھانے کا انداز اتنا انوکھا اور نرالا ہوتا تھا کہ کمزور سے کمزور طالب علم آپ کی گفتگو آسانی سے سمجھ لیتا، درس گاہ میں آپ ہمشہ باوضو ہوکر بیٹھتے، یہ التزام صرف احادیث کی کتابوں کے ساتھ خاص نہیں تھا، بلکہ جملہ اوقات تدریس آپ اس کا لحاظ فرماتے۔

مفتی اختر حسین قادری علیمی  نے کہا کہ اللہ کے ولی وہ ہیں جو اس سے ڈرتے ہیں۔

انما یخشی اللہ من عبادہٖ العلماء کی روشنی میں جب ہم حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی حیات کا ہر لمحہ خوف خداوندی سے لبریز تھا۔

خانقاہ نظامیہ کے سجادہ نشین شہزادہ خطیب البراہین مولانا الحاج حبیب الرحمن رضوی مصباحی نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ حقیقی مومن وہ ہے جو اللہ و رسول سے سچی محبت کرتا ہو، صرف زبانی دعویٰ اور بعض احکام پر عمل کرنے سے کوئی کامل مومن نہیں ہو سکتا

کیوں کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جو چیز مطلوب ہے وہ صرف اعمال کی ظاہری صورت نہیں بلکہ اس کے ساتھ اخلاص و للہیت اصل مقصود ہے کیونکہ حقیقی ایمان یہ ہے کہ جو ظاہر سے ہوکر دل کی گہرائیوں میں اترجائے اخلاق و عادات میں ادائے مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہو، قانون خداوندی کی اطاعت میں دلی جذبات و کیفیات کی جلوہ نمائی ہو، ہر ہر عمل خالصۃً خدا کی خوش نودی اور رضا مندی کے لئے ہو، کیوں کہ خدا ترسی اور اخلاص سے خالی اعمال کی کوئی قیمت نہیں ۔

مومن کامل وہ ہے جو سراپا تقدس و پاکیزگی کا شاہکار بن جاے۔ اس کے قول و عمل میں یکسانیت ہو، اس کی پیشانی انوار ایمان کی کرنوں سے درخشاں ہو۔

اس کی رگ رگ میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تجلیاں ہوں، آسمان کے فرشتے اس کی عظمتوں پر قربان ہوں، اس کے لب کھلیں  تو ذکر خدا عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آیدار موتی بکھیریں، وہ خاموش رہے تو شریعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی سراپا تصویر بن جائے اور یہ مقام کسی بندے کو اس وقت ملتا ہے، جب وہ فنافی اللہ ہوجاتا ہے، محبت رسول میں غرق ہوجاتا ہے، قرآن وحدیث کے پیغام کو اپنے دل کی دھڑکن بنا لیتا ہے۔

مفتی زاہد علی سلامی مصباحی اور مفتی ساجد علی مصباحی اساتذہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ ایک ولی کے لیے ضروری ہے کہ وہ جملہ امور دینیہ اور احکام شرعیہ میں اس قدر محتاط ہوکہ ممنوعات و منہیات سے بچنے کے ساتھ ساتھ مکروہات و شبہات سے بھی دور ہوجائے۔

اللہ رب العزت سے غفلت پیدا کرنے والی تمام چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔ نفسانی خواہشات کی پیروی چھوڑکر صرف رضائے الٰہی کا طالب بن جائے۔

اور حضرت صوفی صاحب کے اندر یہ صفات بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ نظامی کانفرنس کی نظامت مولانا الحاج اشتیاق احمد چشتی مصباحی ،اور مولانا محمد ہارون علیمی نے مشترکہ طور پر کی،

ان علماے کرام کے علاوہ کے علاوہ مولانا عبدالرحمن مصباحی ، مفتی عبدالحکیم نوری ناطق مصباحی،مولانا محمد سعید نظامی، قاری حبیب الرحمن ممبئ،مولاناکوثرامام قادری، مولانا محب الرحمن مصباحی،مفتی کمال احمد علیمی،قاری محمد ہاشم ، مولانا علی احمدبسمل عزیزی،مولانااعجازاحمدکشمیری، مولانا ثناء المصطفی نظامی، مفتی شکیل الرحمن نظامی مصباحی، مولانا قمر الدین فیضی،مولانا سید علی نظامی، حافظ محبوب، قاری محمد غیاث الدین خان نوری،مولانا محمد طاہرالقادری مصباحی، عزیزالرحمن نوری، مولانا احمد رضا نظامی ممبئی ، محمد علی نظامی، مولانابدرالدین نظامی،قاری نورالہدی مصباحی گورکھ پوری، مہتاب نظامی، خورشیدنظامی، کمال نظامی،غلام محی الدین نظامی، قاری شکیل نظامی وغیرہ میں سے بعض نے خطابات کیے اور بعض نے نعت و منقبت کے ترانے پیش کیے ۔

اخیر میں حضرت حبیب العلما مولانا حبیب الرحمان سجادہ نشین

خانقاہ نظامیہ “اگیا چھاتا” کی تازہ تصنیف” شرح توضیح تلویح کا اجرا مولاناسیداشفاق حسین مقام درگاہ نے کرتے ہوئے کہا کہ حبیب العلما نے شب و روز کی ہزارہا مصروفیتوں کے باوجود درجنوں کتابیں تصنیف کی ہیں اور کررہے ہیں

یقیناً یہی حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کا مشن ہے کہ تحریر وتقریر اور اخلاق و کردار کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ واشاعت کی جائے، جسے آپ کے صاحب زادے بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔صلوۃ وسلام اور دعا پر جلسے کا اختتام ہوا

مورخہ 26 نومبر کی صبح مقررہ وقت پر قل شریف اور صاحب سجادہ کی دعاؤں کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا ،اس موقع پر متعلقہ تھانہ انچارج اور ان کی پوری ٹیم ودیگر پولیس کے اہلکار حفاظتی انتظامات بحسن و خوبی انجام دئے،صاحب سجادہ و نبیرہ خطیب البراہین مولانا ضیاء المصطفیٰ نظامی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا

اسی طرح گورکھ پور ومہراج گنج ضلع کے مختلف علاقوں میں عرس نظامی کے موقع پر خصوصی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔

2 thoughts on “علم و عمل کے بحر ذخار اور چلتی پھرتی لائیبریری کا نام تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *