خواجہ غریب نواز کی عظمتوں کا بیان اغیار کی زبان سے

Spread the love

خواجہ غریب نواز کی عظمتوں کا بیان اغیار کی زبان سے


ہند کے راجا سیدنا خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی رضی اللہ تعالی عنہ ایک معروف علمی ، دینی اور سادات کے گھرانے میں ملک ایران کی سرزمین سجستان یا سیستان کے اندرسنہ ۵۳۵ھ م ۱۱۴۲ع میں پیدا یوئے ۔

آپ کے والد بزرگ کا نام سید غیاث الدین علیہ الرحمة والرضوان اور مادر مشفقہ کا نام سیدتنا بی بی ام الورع مشہور نام بی بی ماہ نور ہے اور آپ کے پیر مرشد کا نام حضرت سیدنا خواجہ عثمان ہارونی رحمة الله تعالى عليه ہے سیدنا خواجہ غریب نواز رحمةاللہ علیہ اپنے پیر و مرشد کے ساتھ دیدار کعبہ مقدسہ وفریضہ حج سے فراغت کے بعد مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور وہاں قیام کے دوران آپ علیہ الرحمہ کو آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خواب میں مادر وطن ہندوستان میں تبلیغ دین اور اشاعت اسلام کی بشارت ہوئی

اس کو بھی پڑھیں : حضرت خواجہ غریب نواز اور درس ایمان و عمل

پھر آپ ایک طویل سفر کرکے دھلی پہنچے اور دہلی سے اجمیر گئے اور اجمیر راجستھان سے باضابطہ تبلیغ دین اور اشاعت اسلام کا کام شروع کیا اور آپ کے دم قدم سے ہندوستان بھر میں سب سے زیادہ اسلام کی روشنی پھیلی جس کا اعتراف غیروں نے بھی کیا ہے اور آپ کی عظمت کا لوہا مانا ہے ۔ذیل میں کچھ غیر مسلم دانشوروں کے بیانات جو اصل میں انگلش میں ہیں ان کا اردو ترجمہ جو مولینا قمر رضا رضوی بریلوی نے کیا ہے ماہنامہ اعلیحضرت کے حوالے سے پیش ہے

۔▪️مغربی دانشور پروفیسر تھامس آرنلڈ جو شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کا استاذ بھی تھا اس نے معروف کتاب “دے پریچنگ آف اسلام ” میں خواجہ غریب نواز کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے کہ ” ہندوستان کے مشہور و معروف اولیاء کرام میں سے خواجہ معین الدین چشتی بھی ہیں جنہوں نے راجپوتانہ میں اسلام کی تبلیغ کی اور سنہ ۱۲۳۴ع میں اجمیر میں انتقال فرمایا وہ سجستان کے رہنے والے تھے وہ ایران کے مشرق میں واقع ہے ۔مشہور ہے کہ جب خواجہ صاحب مدینہ منورہ کی زیارت کے لیے گئے تو وہاں آپ کو ہندوستان کے کفار میں تبلیغ کا حکم ملا ۔

رسول خدا ﷺ ان کے خواب میں تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ ” خدا نے ہندوستان کا ملک تیرے سپرد کیا ہے وہاں جا اور اجمیر میں سکونت اختیار کر ۔خدا کی مدد سے دین اسلام تیرے اور ارادتمندوں کی پرہیزگاری سے اس سر زمین پر پھیل جائے گا

۔” خواجہ صاحب نے اس حکم کی تعمیل کی اور اجمیر آئے جہاں کا راجا ہندو تھا اور ملک میں ہر طرف بت پرستی پھیلی ہوئی تھی یہاں پہنچنے کے بعد جس ہندو کو پہلے پہل آپ نے مسلمان کیا وہ راجا کا ایک جوگی گرو تھا ۔

رفتہ رفتہ ان کے مریدوں کی ایک کثیر جماعت ان کے پاس جمع ہوگئی ۔جنہوں نے ان کی تعلیم و تلقین سے بت پرستی چھوڑ کر اسلام اختیار کرلیا اب ایک مذہبی پیشوا کی حیثیت سے آپ کی شہرت سب طرف پھیل گئی اور آپ کا شہرہ سن کر بہت سے ہندو لوگ اجمیر میں آئے اور آپ کی ترغیب سے مسلمان ہوگئے ۔روایت ہے کہ “جب آپ اجمیر جاتے ہوئے راستے میں دھلی میں ٹھہرے تو وہاں آپ نے سات سو ہندؤں کو مسلمان کیا تھا “۔

۔ ▪️ایک اور مغربی مستشرق جے اسپنسر ٹری منگھم اپنی کتاب ” دے صوفی آرڈرس ان اسلام ” میں خواجہ غریب نواز کے بارے میں لکھتا ہے : حضرت معین الدین چشتی ۵۸۹ھ/ ۱۱۹۳ع میں دھلی تشریف لے گئے پھر اجمیر گئے جو ایک اہم ہندو ریاست کا صدر مقام تھا ۔جہان بالآخر آپ سکونت پذیر ہوگئے اور ٦٣٣ھ / ۱۲۳٦ ع میں انتقال فرمایا اور وہاں آپ کا مزار زیارت کا مرکز بن گیا ہے

۔ ▪️مرے ۔ٹی ۔ٹائی ٹس نے انیس سال تک بر صغیر ہند و پاک میں رہ کر اس خطے میں اشاعت اسلام کے موضوع پر تحقیق کی اس نے مقالہ ” اسلام ان انڈیا اینڈ پاکستان ” میں خواجہ غریب نواز کے بارے میں لکھا : “ہندوستان میں سب سے معروف مسلم مبلغ خواجہ غریب نواز تھے جن کا ۱۲۳٦ع میں اجمیر میں وصال ہوا “۔

مرے ۔ ٹی مزید لکھتا ہے کہ :” خواجہ صاحب کی شہرت ایک مرشد کی حیثیت سے اجمیر کے قرب و جوار تک پھیل گئی اور ہندو بڑی تعداد میں ان کے پاس آتے اور ان کی ترغیب سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوجاتے ” مرے ۔ٹی ٹائی ٹس غریب نواز کے مزار پرانوار کے گنبد کی پرکشش منظر کے بارے میں کچھ یوں رقمطراز ہے ” اجمیر میں آپ کا گنبد صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہزاروں ہندؤں کی بھی عقیدت کا مرکز ہے ۔ جہاں ہر سال عرس کے موقعہ پر لوگ حاضر ہوتے ہیں یہ ان کے وصال کا دن ہوتا ہے

۔ ” ▪️ولیم سٹوڈارٹ نے تصوف کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے خواجہ غریب نواز کا ذکر اس طرح کیاہے کہ ” ہندوستان میں جاری ہونے والا سب سے معروف صوفی سلسلہ چشتی طریقہ ہے جس کے بانی خواجہ معین الدین چشتی (1142۔۔1236) ہیں جن کا مزار بر صغیر کے عظیم مزاروں میں سے ایک ہے اور ہندو اور مسلمان یکساں طور پر اس پر بہت حاضری دیتے ہیں ۔ اور اس کی تعظیم کرتے ہیں

۔”▪️معروف جرمن مستشرق ڈاکٹر این میری شِمّل نے اپنی کتاب “اسلام ان دے انڈیا سب کنٹینینٹ” میں خواجہ غریب نواز کے طریقۂ تبلیغ و تعلیم کے متعلق لکھا ہے : آپ کسی آنے والے غیر مسلم پر جب تک وہ صداقت کا ذائقہ نہ چکھ لے اس کے قبول اسلام پر اصرار نہیں کرتے”این میری شمل کے اس اقتباس پر مولینا محمد قمر رضا منظری بریلوی نے شان دار تبصرہ لکھا ہے جو پڑھنے لائق ہے آپ لکھتے ہیں :۔

۔ ” آج جو لوگ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتے پھر رہے ہیں کہ ہندوستان میں ہندؤں کو زبردستی مسلمان بنایا گیا ہے ان کو غیر مسلموں کے قلم سے لکھی گئیں صداقت پر مبنی تحریروں کو پڑھنا چاہیے تاکہ ان کے نفس کو یہ تسکین حاصل ہو جائے کہ مذہب اسلام وہ مذہب نہیں جو جبراً کسی پر مسلط کیا جائے بلکہ یہ پہلے دل میں اترتا ہے پھر قبول کیاجاتا ہے ۔ (ماہنامہ اعلی حضرت مئی ۲۰۱۷)۔

۔▪️وائے سرائے لارڈ کرزن نے خواجہ غریب علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا کہ ” میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسا بزرگ دیکھا ہے جو اپنی وفات کے بعد بھی ہندوستانیوں کے دلوں پر حکومت کرتاہے ” ( ماخوذ از مضمون خواجہ غریب نواز کی نگری سے) ۔
غیر مسلموں نے نظم میں بھی خواجہ غریب نواز کی شان کو بیان کیا ہے

۔▪️ہندوستان کے مشہور غیر مسلم اردو شاعر درگا سہائے جہاں آبادی نے لکھا ؂ بت خانے جدا ہیں خانقاہیں ہیں جدا ۔ارباب پر سب کی نگاہیں ہیں جدا ۔ جویا تیرے شیخ وبرہمن ہیں دونوں ۔منزل وہی ایک ہے راہیں ہیں جدا

۔ ▪️اردو کے قادر الکلام شاعر عظیم نقاد اور ماہر اقبالیات جگن ناتھ آزاد نے اپنی نظم ” بھارت کے مسلماں ” میں خواجہ غریب نواز کی بارگاہ میں کس عقیدت و محبت سے خراج پیش کیا : اجمیر کی درگاہ معلیٰ تیری جاگیر ۔محبوب الٰہی کی زمیں پر تری تنویر ۔ذرات میں کلیر کے فروزاں تیری تصویر ۔ہانسی کے فضاؤں میں ترے کیف کی تاثیر ۔

سر ہند کی مٹی ہے تیرے دم سے فروزاں ۔بھارت کے مسلماں ،بھارت کے مسلماں(ماہنامہ اعلی حضرت مئی ۲۰۱۷) ۔

۔( نوٹ )واضح رہے کہ چشت خراسان کا ایک مشہور شہر کا نام ہے وہاں اصلاح و تربیت کا ایک مرکز قائم تھا جس کی وجہ سے اس کو بڑی شہرت ملی وہاں کے لوگوں کو حضرت ابو اسحاق شامی سے ہدایت ملی اس لیے آپ کے سلسلہ کو سلسلۂ چشتیہ کے نام سے یاد کیا گیا حتیٰ کہ خود اسحاق شامی کو شامی کے بجائے چشتی کہا جانے لگا ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہ کا سلسلہ طریقت چھ واسطوں سے حضرت ابو اسحاق چشتی تک پہنچتا ہے ۔ (برکات خواجہ ص ۴)۔

یہ وہ دربار عالیہ ہے جہاں بلا امتیاز مذہب و ملت اور بلاروک ٹوک ہرقوم کے عقیدت مند حاضر ہوتے ہیں اور خراج محبت پیش کرتے ، منتیں مانگتے اور دعائیں کرتے ہیں ۔ کاش ! یہاں کا نظم و ضبط صوفیانہ طور طریق کا ہوتا ، انگشت نمائی والا اور بد ظن کرنے والا انداز نہ ہو تا اور منتظمین و گدی نشینوں کا اولین مقصد تبلیغ دین و اشاعت اسلام ہی ہوتا تو یہ دربار عالیہ آج بھی عقیدتوں اور محبتوں کے مرکز کے ساتھ تبلیغ دین اور اشاعت اسلام کا بھی مرکز ہوتا ۔


محمد منصور عالم نوری مصباحی
استاذ دارالعلوم مدرسة البنات عظمت عائشہ پوسد مہاراشٹر ۔
متوطن : بڑاپوکھر طیب پور کشن گنج بہار۔

 شہادت بابری مسجد ایک ناقابل فراموش سانحہ

پارلیمنٹ میں فلم دی سابر متی کی اسکریننگ

ان لنکوں پر کلک کرکے خرید داری کریں  اور پیسے بچائیں 

Click here

Click here

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *