سیاسی شعور کی ضرورت
سیاسی شعور کی ضرورت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اس وقت ملک میں مسلمانوں کی آبادی پچیس کروڑ سے کم نہیں ہے ، تعداد سے قطع نظر وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ضرور ہیں ،اور اس اعتبار سے و ہ نظام حکومت میں ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں ، حکومت خواہ کسی بھی پارٹی کی ہو ،وہ نہ تو ان کی آواز کو دبا سکتی ہے ،او ر نہ ہی اسے سنی ان سنی کر سکتی ہے ،
ان کے ملی مفاد کی ان دیکھی کرنا یا انہیں نقصان پہونچانے کی کوشش کرنا بھی ان کے لیے مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ۔ لیکن آج کے ہندوستان میں یہ سب خواب و خیال کی باتیں بن کر رہ گئی ہیں ، مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں بے وقعت ہیں ، ان کے مفاد کے خلاف فیصلے ہوتے ہیں ،
ان کے مفاد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، ملک کے دستور نے انہیں جو ضمانتیں دی ہیں ، ان کی بھی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے، مگر ان کے ضبط اور صبر و تحمل کا یہ عالم ہے کہ نا مساعد حالات کا رونا رونے لگ جاتے ہیں ،
اس سے آگے بڑھنے کی ہمت کی تو حکومت وقت کا شکوہ کرنے لگ گئے ، اور پھر کچھ اور ہمت جٹائی تو سازشوں کا ذکر کرنے بیٹھ گئے ، مگر اپنا محاسبہ کرنا اور اپنے اندر جھانکنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی ، کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ ہمارے اندر کیا کمی ہے
، کیا خامی ہے ، کس چیز کا فقدان ہے اور خود ہم سے کہاں کہاں کوتاہی ہو رہی ہے ، ہندوستان کے مسلمان آج جس حال کو پہونچ گئے ہیں ،
ان کا ایک طبقہ وسیع تر ملی مفاد کے حصول و تحفظ پر توجہ دینے کے لیے یا تو تیار نہیں ہے یا ا سکی ضرورت ہی نہیں سمجھتا ، جب کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبہ میں خوا ہ وہ سیاست ہو ، معیشت ہو یا روز مرہ کے معمولات زندگی ہوں ، اجتماعیت کو بڑی اہمیت دی ہے۔
اتحاد عمل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان کسی ایک ہی سیاسی پارٹی میں شامل ہو جائیں ، ایسا ممکن بھی نہیں ہے اور شاید یہ مناسب بھی نہیں ، لیکن جو ملی معاملات ہیں، ان کے لیے اتحاد عمل کا مظاہرہ یقینا کیا جا سکتا ہے
، مسلمان دوسرے اقلیتی فرقوں کو کیوں نہیں دیکھتے کہ وہ اپنی سیاسی وفاداریوں کو قائم رکھتے ہوئے اپنی قوم کے مسائل کے لیے کس طرح باہم متحد ، مربوط اور ایک جٹ ہو جاتے ہیں ،
اور ان کو حل بھی کرا لیتے ہیں ، اور متعلقہ پارٹیاں بھی اس معاملہ میں ان کو اپنا بھر پور تعاون دیتی ہیں ، مگر مسلمانوں کے ساتھ صورتحال بالکل بر عکس ہے ، اول تو مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنی پارٹی کی سطح پر مسلم مسائل اٹھاتے ہی نہیں ہیں
او ر اگر کسی نے ہمت سے کام لیا تو خود اسی کے جماعتی رفقاءبجائے اس کے کہ اسکو تعاون دیں اس کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، بالفرض اگر ایسا نہیں ہوا اور ان کی آواز پارٹی کے اندر ون خانہ سے باہر آتی ہے تو دوسری پارٹیوں کے لیڈر اس سے بے اعتنائی برتتے ہیں ، اس کی دو وجہ ہے
، ایک کا تعلق جماعتی تعصب سے ہے، اور دوسری کا اس خوف سے ہوتا ہے کہ اگر حریف کی آواز میں آواز لگائی تو پارٹی سے نکالے جائیں گے ، نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل یوں ہی پڑے رہ جاتے ہیں ، ہاں جب الیکشن کا زمانہ آتا ہے،
تو تمام پارٹیوں یہاں تک کہ بی جے پی کو بھی مسلمان اور ان کے مسائل ، ان کے دکھ درد اور ان کی پسماندگی کی یاد بے چین کر دیتی ہے ، لیکن جیسے ہی انتخابی نتائج کااعلان ہوا
وہ مسلمانوں کا پھر سے استحصال شروع کر دیتے ہیں ، جب کہ گذشتہ دس برسوں سے ملک کی بی جے پی حکومت اور ان کے لیڈر ان اکثریتی ووٹوں کو متحد کرنے کے لیے اسلامی شعائر اور مذہبی تشخصات کو نشانہ بناتے آرہے ہیں ۔
یہ صورت حال بہت ہی افسوس ناک ہے اور اس بات کی مظہر ہے کہ مسلمانوں کے اندر سیاسی بیداری کی کمی ہے، اور وہ اجتماعی مفاد پرتوجہ نہیں دیتے ، جس ملت کا سیاسی شعو ر بیدار ہوتا ہے ،وہ ملت ایسی نہیں جیسی کہ ہندوستان کے مسلمان ، کوئی ملت سیاسی اعتبار سے کس قدر بیدار ہے،
اس کا اندازہ انتخابی عمل کے دوران بخوبی ہو جاتا ہے کہ اس کے کتنے فیصدافراد اس عمل میں سنجیدگی کے ساتھ حصہ لیتے ہیں ۔