عام بجٹ اعداد و شمار کی بازی گری
عام بجٹ اعداد و شمار کی بازی گری
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے بقول ان کے” امرت کال“ کا پہلا اور اپنے دور کا پانچواں بجٹ پارلیامنٹ میں پیش کیا اور کہا کہ یہ بجٹ سات نکاتی ہے
اس میں ہمہ جہت ترقی، آخری صف کے آخری آدمی تک پہونچنے بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری ، مواقعات کی توسیع ، سبز خوش حالی وترقی، نوجوانوں کی قوت اور معاشی معاملات کو سامنے رکھا گیا ہے03-45 لاکھ کروڑ روپے کا یہ بجٹ گذشتہ سال کے مقابلے 58-5لاکھ کروڑ زیادہ ہے
اس بجٹ کے بعد سگریٹ، پیتل، چھاتا، غیر ملک سے بر آمد باورچی خانے کی چمنی، سونا، درآمد چاندی، پلاٹینم، کپڑے اور غیر ملکی کھلونے مہنگے ہوں گے، جب کہ موبائل فون، ٹی وی سیٹ، کچن چمنی، کیمرے وغٰرہ سستے ہوں گے۔
بجٹ کا ایک اہم جزیہ ہوتا ہے کہ رقم کہاں سے آئیگی اور کہاں خرچ ہوگی، اس میں جو اعداد وشمار دستیاب کرائے گئے اس کے مطابق کمپنی ٹیکس ، انکم ٹیکس سے پندرہ پندرہ پیسے، جی اس ٹی اور دیگر ٹیکس سے سترہ پیسے، قرض اور دیگر ذرائع سے چونتیس پیسے، کسٹم سے چار پیسے، سنٹرل اکسائز ڈیوٹی سے سات پیسے، غیر ٹیکس کی رسیدات سے چھ پیسے اور غیر قرض دار سرمایہ کی رسیدوں سے دو پیسے اس طرح آمد کا سوفی صد پورا کیا جائے گا
جب کہ ان سو پیسوں میں سے سنٹرل اسکیم میں سترہ پیسے، سود کی ادائیگی میں بیس پیسے، دفاعی شعبہ پر آٹھ پیسے، سبسڈی کی ادائیگی میں سات پیسے ، ٹیکس میں ریاستوں کی حصہ داری اٹھارہ(18) پیسے، پنشن کے مد میں چار پیسے، مرکزی منصوبوں میں حصہ داری اور دیگر امور میں نو، نو پیسے اور دیگر اخراجات پرآٹھ پیسے صرف کیے جائیں گے۔
بجٹ میں عوام سے بہت سارے وعدے بھی کیے گیے ہیں، ایک سو ستاون نرسنگ کالج ، تیس(30) اسکل انڈیا انٹرنیشنل سنٹر،5G خدمات کے لیے ایک سو لیپ قائم کیے جائیں گے ، ایک کروڑ کسانوں کو امداد دی جائے گی ، تین سال کے اندر سات سو چالیس ماڈل رہائشی اسکولوں میں اڑتیس ہزار آٹھ سو اساتذہ وملازمین کی تقرری عمل میں آئے گی
وزیر اعظم رہائشی منصوبہ کے لیے 79 ہزار کروڑ روپے ، چھوٹی صنعتوں کے قرض کے لیے نو (9) ہزار کروڑ روپے، وزارت دفاع کے لیے 5.94 کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے ، زرعی قرض کے لیے بیس لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گیے ہیں، اقلیت کے بجٹ میں دو ہزار کروڑ روپے کم کر دیے گیے
ان تمام اسکیموں کی رقم گھٹادی گئی ہے، جس سے اقلیتوں اور سماج کے دبے کچلے لوگوں کو فائدہ پہونچتا تھا، مثال کے طور پر منریگا کو پیش کیا جا سکتا ہے،جس سے مزدوروں کو یومیہ مزدوری ملا کرتی تھی
مولانا آزاد ایجوکیشنل فاونڈیشن کو صرف دس لاکھ روپے دیے گیے ہیں، اس کو تو اب بند ہی سمجھنا چاہیے، یوپی اس سی کی تیاری کے لیے اقلیتی طلبا کے لیے جو اسکیم چل رہی تھی اسے بھی بند کر دیا گیا ہے۔
اس بجٹ میں نئے ٹیکس کا نظام بنایا گیا ہے ، جس کے تحت سات لاکھ روپے تک کی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنی قرار دیا گیا ہے
البتہ اگر سات لاکھ سے ایک روپے زائد کی رقم دکھائی گئی تو پھر تین لاکھ سے چھ لاکھ تک پانچ فی صد اور چھ سے نو لاکھ تک دس فیصد ٹیکس دینا ہوگا، نو سے بارہ لاکھ آمدنی پر پندرہ فی صد اور بارہ سے پندرہ لاکھ روپے پر بیس فی صد اور پندرہ لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی پر تیس فی صد کا سلیب لاگو ہوگا۔
اس بجٹ پر جو تبصرے آئے ہیں وہ حسب سابق متضاد ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی کا خیال ہے کہ بجٹ میں خوش حال ہندوستان کا عزم ہے، راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ یہ ”متر کال“ کا بجٹ ہے اور مرکز کے پاس مستقبل کا کوئی خاکہ نہیں ہے ، وزیر اعلیٰ بہار کی نظر میں عام بجٹ مایوس کن ہے اور اس میں دور اندیشی کا فقدان ہے۔
مجموعی طور پر اس بجٹ کی تیاری میں آئندہ سال پارلیامنٹری اور امسال کے نو ریاستوں میں ہونے والے انتخاب کو سامنے رکھا گیا ہے ، جو غیر بھاجپائی اقتدار والی ریاستیں ہیں ان کے مفاد کی ان دیکھی کی گئی ہے اور جن منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے، ان میں کار پوریٹ گھرانوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے
کیوں کہ انتخاب لڑنے کے لیے روپے بھاجپا کو وہیں سے ملتے ہیں، اس لیے ان پر خاص طور سے توجہ دی گئی ہے تاکہ ان کی دوستی پر حرف نہ آئے ، بجٹ کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ یہ اعداد وشمار کی بازی گری ہے اور عوام کو ان بازی گروں نے یا تو دھوکہ دیا ہے یا اعداد وشمار سے لبھایا ہے
اس طرح یہ بجٹ شاعر کے اس شعر کے مصداق ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ