خواجہ غریب نواز اور درس استقامت
خواجہ غریب نواز اور درس استقامت تحریر :(مفتی) محمدشمس تبریز قادری علیمی ۔
مدارگنج ،ارریہ ،بہار ۔
اللہ رب العزت عزوجل کے دوستوں اورمحبوب بندوں کے تذکرے انسان کے لیے قلبی سکون کاباعث ہوتے ہیں ۔اس سے انسان کے رنج وغم دورہوتے ہیں اورعقلِ انسانی کوجِلاملتی ہے ۔
محبوبانِ خداکی سیرت سے اچھےآداب و اخلاق اورعزم واستقامت کادرس ملتاہے۔اولیاے کرام یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہیں خالق کائنات نے اپنے فضل وکرم سے گمراہوں کی ہدایت،سرکشوں کی اصلاح اورحق وباطل کے درمیان امتیازپیداکرنے کے لیے مبعوث فرمایاہے۔
اللہ عزوجل کے ان محبوبین نے احکام خداوندی کوبلندکرنے کے لیے اپناسب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کردیا،حق گوئی وراست بازی جن کا شعارہے،دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی سے بازنہ رکھ سکی ،بڑی سے بڑی جابروظالم حکومتیں بھی ان حضرات کے پائے استقامت کوذرہ برابربھی جنبش نہ دے سکیں۔ان برگزیدہ نفوس قدسیہ میں سے سلطان الہندعطائے رسول خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی سنجری اجمیری رضی اللہ عنہ کی ذات مقدس بھی ہے۔جن کے قدم کی برکتوں سے ہندوستان کی سرزمین انوارِاسلام وایمان سے جگمگا اٹھی ،دلوں کی تاریکیاں چھٹ گئیں اورگم گشتہ راہوں کو ہدایت ورہنمائی کی دولت ابدی نصیب ہوگئی۔
خواجہ غریب نوازرضی اللہ عنہ خاندانِ رسالت کے وہ روشن چراغ ہیں جس کی نورانی شعاعوں نے نہ صرف سرزمینِ ایشیاء میں ہزاروں قلوب واذہان کو نورِ توحید و ضیائے معرفت سے منور کردیا بلکہ تمام عالم میں اپنی لازوال روشنی پھیلا دی،آپ کے آبا و اجداد کوعلم و فضل ، زہد و تقویٰ اورحق شناسی وخدارسی میں طرۂ امتیاز حاصل رہاہے۔
خواجہ غریب نوازرضی اللہ عنہ کا نسب نامہ رسول کائناتﷺ سے لے کرآپ کی ذات اقدس تک نہ صرف دین داری اورپرہیزگاری میں ممتاز ہے بلکہ اس میں مخلوق کی رہبری کے لیے بعض اماموں کی مقدس ہستیاں بھی نظرآتی ہیں۔
یہ حضرات فقرودرویشی اوربزرگی میں یگانۂ روزگارہوئے ہیں۔خواجۂ خواجگاں بلحاظ نسب نامۂ پدری حسینی اوربموجب شجرۂ مادری حسنی سیدہیں۔
والد کا نام خواجہ سیدغیاث الدین اوروالدہ کانام بی بی اُمُّ الورع المعروف بہ بی بی ماہِ نورہے۔
آپ کے والدبزرگوارحضرت سیدغیاث الدین بہت متقی پرہیزگارتھے اورمشائخِ خراسان میں ممتاز تھے ،خاندانی شرافت کے ساتھ صاحبِ دولت و ثروت بھی تھے۔
ولادت باسعادت:سنہ ولادت میں عام مورخین کااختلاف ہے۔ایک روایت کے مطابق ۱۴،رجب المرجب ۵۳۷ھ ہے۔غالب رجحان ۵۳۰ھ مطابق ۱۵،مارچ ۱۱۳۶ ،بروزیکشنبہ ہے۔
آپ کی جائےولادت میں اختلاف ہے،صحیح قول کے مطابق آپ کاآبائی وطن سنجرستان یعنی سنجر یا سیسان ہے اورجائے ولادت اصفہان ہے۔آپ کا بچپن عام بچوں کی طرح نہ تھابلکہ ایام رضاعت میں بھی شانِ غریب نوازی کا اظہار فرماتے تھے’’ دودھ پینے کے زمانہ میں جب کوئی عورت اپنا بچہ لے کرآپ کے گھر آجاتی اور اس کا بچہ دودھ پینے کے لیے روتا تو آپ کی والدہ آپ کا اشارہ سمجھ جاتیں اور آپ کا دودھ اسے پلا دیتیں ۔
اس نظارے سے آپ بہت خوش ہوتے اورفرط مسرت سے ہنستے۔تین چارسال کی عمرکے زمانہ میں آپ اپنے ہم عمربچوں کوبلاتے اورانہیں کھاناکھلاتے تھے۔چھوٹی سی عمرمیں ایک مرتبہ عیدکے موقع پرخواجہ غریب نوازعمدہ لباس پہنے ہوئے نمازکے لیے جارہے تھے،راستے میں آپ نے ایک نابینا لڑکے کو پھٹے پُرانے کپڑوں میں دیکھا،یہ دیکھ کرآپ کواس پررحم آگیااسی وقت اپنے کپڑے اتارکراس بچے کودے دیئے اوراس کواپنے ساتھ عیدگاہ لے گئے ۔
آپ اپنے ہم عمربچوں کے ساتھ کبھی کھیل کود میں شریک نہ ہوتے تھے۔آپ کانشوونماخراسان میں ہوا،ابتدائی تعلیم کے متعلق کتابوں میں تفصیلات نہیں ملتیں مگرحال کے ایک تذکرہ میں لکھا ہے کہ ابتدائی تعلیم آپ نے گھرپرحاصل کی۔نو سال کی عمرمیں قرآن مجیدحفظ کیابعدازاں آپ سنجرکے مدرسےمیں داخل ہوگئے یہاں آپ نے تفسیر،حدیث اورفقہ کی تعلیم حاصل کی اور تھوڑے عرصے میں بہت زیادہ علم حاصل کرلیا۔(سیرت غریب نواز)
طلب مرشد:پندرہ سال کی عمرمیں والدبزرگوارکاسایہ سرسے اٹھ گیا ترکہ میں ایک باغ ملاجس کی نگرانی کرتے تھے،اچانک ایک مجذوب ابراہیم قندوزی باغ میں آئے ۔آپ نے ان کی خدمت میں انگورکے خوشے پیش کئے ۔لیکن انہوں نے انگورنہیں کھایااورکھلی کے ایک ٹکڑے کودانتوں سے چبا کر خواجہ کے منہ میں ڈال دیا ، کھلی کا کھانا تھا کہ حضرت کادل نورِ الٰہی سے روشن ہوگیا۔
اس کے بعد ہی آپ نے دنیاکوخیربادکہہ کرطلب خدا کی راہ لی،پہلے بخارا و سمرقند جا کر علم ظاہر سے سر فراز ہوئے پھر عراق کی طرف روانہ ہوئے اورقصرہاروَن (یاہروَن)میں حضرت شیخ عثمان ہاروَنی قدس سرہ کی خدمت حاضر ہو کر طلب بیعت کی،بیعت کے وقت مرشدنے وضو کرایا ،دورکعت نمازپڑھوائی پھرقبلہ روہوکرسورۂ بقرہ پڑھنے کوکہا،اس کے بعداکیس باردرودشریف پڑھوایااورساٹھ بارسبحان اللہ،آسمان کی طرف اپناچہرہ اٹھایااورمریدکاہاتھ پکڑکرفرمایا:’’تجھ کوخداتک پہنچایا اوراس کی بارگاہ کا مقبول بنادیا‘‘۔
اس کے بعدسرکے بال قینچی سے تراشے اورکلاہِ چہارترکی اورگلیم خاص عنایت کیا۔
چہارترکی کا مطلب
اول: دنیاکوچھوڑ دینا،دوم : ترک عقبیٰ یعنی سوائے ذاتِ حق کے اورکچھ مقصودنہ ہوحتیٰ کہ عقبیٰ کوبھی نظر میں نہ لائے۔
سوم:ترک خوردوخواب،یعنی کھانا،سوناصرف ضرورت بھر ہو،ضرورت سے زائدکاترک کرے۔چہارم:ترکِ خواہش،یعنی نفس کی خواہش کے خلاف چلنالازم کرلے۔
جواِن چاروں چیزوں کوترک کردے اس کوکلاہ چہارترکی کاستعمال کرنالائق ہے۔اکثرتذکروں میں ہے کہ حضرت خواجہ غریب نوازبیس سال تک اپنے پیرومرشدکی خدمت میں رہے اوروہ بھی اس طرح کہ سفرمیں مرشدکا بستر اور دوسری چیزیں سر پررکھ کرچلتے،مرشدکے ساتھ سیاحت کرتے کرتے مکہ مکرم ،مدینہ منورہ بھی پہنچے ، مرشد نے خواجہ کے حق میں مقبولیت کی دعائیں فرمائیں،غیب سے آوازآئی:’’معین الدین میرادوست ہے،میں نے اس کوقبول کیااوربرگزیدگی عطاکی‘‘ اسی اثنامدینہ طیبہ میں بھی بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے حضرت خواجہ غریب نوازکوہندوستان جانے کی بشارت ملی۔
جب خواجہ غریب نوازرضی اللہ عنہ کوتبلیغ دین کے لئے بارگاہ نبویﷺ سے ہندوستان جانے کی بشارت مل گئی توآپ پیرومرشدسے جداہوکرسیروسیاحت کرتے ہوئے ان مقامات پرپہنچے جہاں بحرمعرفت کے شناورموجودتھے،ان کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے،سنجان پہنچے توشیخ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری دی اوروہاں ڈھائی برس تک استفادہ کرتے رہے۔پھروہاں سے جٖیل آئے توحضرت غوث اعظم سیدنامحی الدین عبدالقادرجیلانی رضی اللہ عنہ کے یہاں ستاون روزیاپانچ مہینے رہ کرکسب فیض کیا،بغدادآئے توحضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے پیرشیخ ضیاالدین رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے شرف یاب ہوئے۔غرض کرمان،ہمدان،استرآباد،ہرات وغیرہ کی سیاحت کرتے ہوئے واردہندہوئے،راستے میں حضرت خواجہ کی بہت سے کرامتیں بھی ظاہرہوئیں اورکمالات کاظہورہوا۔لاہورپہنچ کرحضرت گنج بخش علی ہجویری قدس سرہ کے مزارمبارک پرچلہ کیااورمراقب ہوئے ،لاہورسے دہلی اوردہلی میں مختصرقیام فرمایا،پھروہاں سے اجمیرمقدس کارخ کیا۔
درسِ استقامت:خواجہ غریب نوازرضی اللہ عنہ کی زندگی میں استقامت کاپہلونمایاں طورپرنظرآتاہے۔پیرومرشدکی صحبت وخدمت میں تقریباً ۲٠/سال تک مکمل استقامت کے ساتھ قائم رہے اورآقائے کریم ﷺکی بارگاہ سے اجمیرشریف تک راستے میں بے شمارمواقع ایسے آئے جہاں آپ نے ہمت وشجاعت اوراستقامت کامظاہرہ فرمایا۔حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کی خوبیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ مشکلات ومصائب سے گھبراتے نہیں،بلکہ اس کے لئے مستعداورتیاررہتے۔حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں بیس سال تک اپنے پیرومرشدکی خدمت میں حاضررہا،میں نے کبھی نہ سناکہ آپ نے اپنی صحت وسلامتی کی دعامانگی ہوبلکہ آپ کی زبانِ فیض الہام پریہ دعاجاری رہتی کہ خدا!جہاں کہیں کوئی دردوغم اورمصیبت ہواسے معین الدین کے لئےنامزدکردے۔ایسے موقع پرمیں جسارت کرتے ہوئے عرض کرتا:حضور!یہ کیسی دعاہے جوآپ کررہے ہیں۔فرماتے :جب کسی مسلمان کوسخت دردوآزمائش یابیماری میں مبتلاکیاجاتاہے تویہ آزمائش اس کے لئے صحت ایمان کی دلیل ہوجاتی ہے اوروہ ان مصائب کی وجہ سے گناہوں سے ایساپاک وصاف ہوجاتاہے کہ گویاابھی ماں کے پیٹ سے پیداہواہے۔(مونس الاروح مترجم بحوالہ:خواجہ غریب نوازحیات وتعلیمات کاایک مختصرجائزہ)
ملک ہندمیں اپناتبلیغی مشن شروع کرنے سے پہلے پانچ سال تک ملتان میں رہ کرہندوستان کی زبان سیکھی۔حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ جس دورمیں ہندوستان میں واردہوئے تھے ہرچہارجانب کفروشرک کی تاریگی تھی،بت پرستی عام ہوچکی تھی،سماجی حالات بہت زیادہ بُرے تھے،چھوت چھات کابازارگرم تھا،حق وصداقت کاکوئی نام ونشان نہ تھا،ظلم وطغیان چھایاہواتھا،مشہورترین روایت کے مطابق خواجہ غریب نوازجس وقت ہندوستان تشریف لائے اس وقت یہاں راجہ رائے پتھوراکی حکومت تھی۔راجہ کی ماں جوعلم نجوم میں مہارت تامہ رکھتی تھی،خواجہ غریب نوازکی آمداورپتھوراکی تباہی کانقشہ پہلے ہی اپنے علم سے معلوم کرچکی تھی۔اس نے اپنے بیٹے کوبارہ سال پہلے ہی خبردارکردیاتھاکہ اتنے زمانے کے بعداس شکل وصورت کاایک مسلمان درویش تیری راجدھانی میں آئے گااورتیری راجدھانی الٹ دے گا،اس سے بچنے کی کوئی تدبیرنہیں ہے۔تیرے لئے بہتریہی ہے کہ اس سے مت الجھنا۔راجہ نے ماں کی نصیحت کے مطابق اس حلیہ کی تصویریں بنواکراپنے علاقے کے تمام ذمے دارپولیس افسروں کوتقسیم کرادیااورحکم دیاکہ تصویرکواپنے پاس رکھواورہوشیاررہوکہ اس شکل کادرویش جب ملے توفوراًاسے قیدکرلواورہمارے پاس بھیج دواوراگرقیدکرکے بھیجنامشکل ہوتوکسی نہ کسی حیلے اوربہانے سے اسےمارڈالواورہم کواطلاع دو۔جوشخص ان دوباتوں میں سے ایک بھی پوری کرے گااس کوخزانۂ حکومت سے بیش بہاانعام ملے گا۔راجہ کے افسروں کے حیلے ،بہانے میں آپ نہیں آئے اوربحکم خداورسول اجمیرشریف میں تشریف فرماہوئے۔راجہ کے آدمیوں نے خواجہ غریب نوازکے قیام پر بڑی رکاوٹیں ڈالیں اور تکلیفیں پہنچائیں لیکن ان ساری پریشانیوں کے سامنے خواجہ غریب نوازڈٹے رہے اورآپ کے پائے استقامت میں ذرہ برابربھی جنبش نہیں آئی ۔
جس وقت آپ پرمصائب وآلام کے پہاڑ گرائے جارہے تھے ایسے عالم میں بھی آپ اپنے مریدین کے ساتھ عبادت وریاضت میں مصروف رہتے ۔ان لوگوں کے مظالم کاجواب خواجہ غریب نوازصبر و استقامت کے ساتھ اپنی کرامتوں سے دیا کرتے ۔
جب کرامتوں سے راجہ اوراس کے مقربین عاجز آگئے توہندوجوگیوں کوخواجہ صاحب کومغلوب کرنے کے لیے بلایا جن میں جے پال جوگی بہت بڑا جادوگرتھا،وہ مقابلے کے لیے آمادہ ہوا اور اپنا ہنر آزماکر بالآخرخواجہ غریب نوازکی روحانی طاقتوں سے مغلوب ہوکرحلقہ بگوش اسلام ہوگیا ۔
اورحضرت خواجہ کا مریدبن کروقت کاولی کامل بنادیاگیا۔جے پال جوگی کے مسلمان ہونے کے بعدراجہ پتھوراکازورٹوٹ گیا،بوکھلاہٹ میں حضورغریب نوازکواجمیرسے نکال دینے کی دھمکی دینے لگا۔
اس پرمیرے غریب نوازنے فرمایا:’’پتھوراکوزندہ گرفتاکرکے مسلمانوں کے حوالے کیا‘‘۔حضرت کی یہ پیشین گوئی اس وقت سچ ہوئی جب شہاب الدین غوری کو خواجہ نے خواب میں بشارت دی کہ خدائے تعالیٰ تم کوہندوستان کی بادشاہی عطافرمانے والاہے، تم اس ملک کی طرف توجہ کرو۔خواب کے بعد اس نے ہندوستان پرحملہ کیااورخواجہ کے فیضان سے فتح مل گئی۔
پھرکیاتھاہرطرف اسلام کانورپھیل گیااورکفرکی ظلمت کافورہونے لگی۔ایسے گھٹاٹوپ ماحول میں خواجہ غریب نوازمصلح اعظم بن کررونق افروزہوئے ،دلوں سے کفروشرک کی آلائشوں کو دور کیا۔
سماج میں سدھارپیداکرنے کی بھرپورکوشش کی ۔مادیت کے مقابلے میں روحانیت کوفروغ دیا۔لاکھوں کی تعدادمیں اہل شرک کوایمان واسلام کادل دادہ بنادیا۔(تاریخ خواجہ خواجگاں،خواجہ غریب نوازحیات وتعلیمات کاایک مختصرجائزہ)
وصال: شبِ وصال چند اولیاء اللہ نے رسول خداﷺ کوخواب میں یہ فرماتے ہوئے دیکھامعین حق تعالیٰ کادوست ہے، ہم آج اس کے استقبال کے لئے آئے ہیں۔۶،رجب المرجب ۶۲۷ھ مطابق ۲۱مئی ۱۲۲۹ بروزشنبہ بعدنمازعشاء آپ نے حجرہ شریف کادروازہ بندکرلیااورخدام کواندرآنے کی اجازت نہیں دی۔خدام حجرہ کے باہرموجودرہے،رات بھرایسی آوازیں سنتے رہے جیسے کوئی وجدکے عالم پاؤں پٹکتاہو۔اخیرشب میں یہ آوازبندہوگئ،فجرکاوقت آیاتودروازے پردستک دی گئی لیکن کوئی آوازنہیں آئی ،تب دروازہ کسی طرح کھولاگیاتولوگوں نےدیکھاکہ آپ اس دارفانی کوالوداع کہہ چکے ہیں۔دیکھنے والوں نے دیکھاکہ آپ کی پیشانی پرلکھاہواتھا:’’حبیب اللہ مات فی حب اللہ‘‘۔اللہ کاحبیب اللہ کی محبت میں رخصت ہوگیاہے۔
قارئین ! سرکارغریب نوازکی ساری زندگی اتباعِ سنت وشریعت کی آئینہ دارتھی۔آپ کے اخلاقِ کریمانہ رسول پاکﷺ کے اخلاقِ حسنہ کاپرتوتھے،غریبوں کی خبرگیری،محتاجوں کی امدادواعانت،بھوکوں کوکھاناکھلانا،مشکلات میں صبروشکیب کے پیکربن جانا،مظلوموں کی دادرسی،بڑوں کاادب واحترام اورچھوٹوں پرشفقت ،جودوسخا،قرآن پاک کی تلاوت وہ بھی اس قدرکہ روزانہ دوختم فرماتے،اکثرعشاء کے وضوسے فجرکی نمازاداکرنا،مسلسل روزے رکھنا،قبوراولیاء ومسلمین کی زیارت،غرض آپ کی زندگی کالمحہ لمحہ ذکرِ خداورسول اوراتباع واطاعت محبوب میں گزرتا،خلق خدا کی تربیت اوردین حق کی تبلیغ واشاعت آپ کامحبوب مشغلہ تھا۔عاشقان خواجہ کے لئے ضروری ہےکہ خودکودین حق کی سچی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالیں،اپنے اخلاق بلندکریں،اپنے کوسچائی کاخوگربنائیں،سنت وشریعت پرعمل کاسچاجذبہ اپنے اندرپیداکریں تو ہمارا عمل ہی اسلام کی تبلیغ واشاعت میں بڑامعاون بن جائے گاجوسرکارغریب نوازکااصل مشن تھا۔مولیٰ ہمیں اپنی رضاسے نوازے ،اپنی رضاکے کام کی توفیق دے،اپنے محبوب کی اتباع کاسچاجذبہ عطافرمائے ۔آمین۔
(خواجہ غریب نوازحیات وتعلیمات کاایک مختصرجائزہ)
Stabrazalimi786@gmail.com