حجاب پر فیصلے کے پیمانے الگ الگ کیوں

Spread the love

حجاب پر فیصلے کے پیمانے الگ الگ کیوں ؟

مذہبی آزادی اس ملک کا دستوری حق ہے جس سے کوئی بھی مذہب مستشنی نہیں ہے اور نہ اس آزادی سے کسی بھی مذہب کو دوسرے مذہب کے خلاف نہ کوئی حکومت کو کسی مذہب کے خلاف بیر رکھنا چاہیے کیوں کہ یہ مضبوط جمہوریت کی خوبصورت عکاسی کی بہترین علامت ہے ورنہ اگر معاملہ اسکے برعکس ہوتو اس ملک کی جمہوریت اور حکومتیں مشکوک بن جاتی ہیں

حکومت چاہے ریاستی ہو یا مرکزی انکا کام اپنی رعایا کو خوشحال رکھنا ہر ایک طبقہ کے ساتھ اعتماد کی پختگی کو برقرار رکھنا ملک اور ریاست میں امن بھائی چارگی قائم رکھنا خوشحال کا مطلب دستور اور جمہوریت کو مدنظر رکھتے ہوئے مذہبی حقوق کو پامال ہونے سے بچایا جائے بین المذاہب کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے ریاست کو ایک فلاحی اور ترقی یافتہ بنایا جائے نظم و نسق کے اصولوں پر بناء کوئی تفریق کے پابندی کے ساتھ سختی سے عمل کیا جائے

لیکن موجودہ معاملہ بالکل مختلیف ہے کیوں کہ ہندوتوا کے پیرو کار حکمران ملک کی دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کی شریعت اور اسلامی اصولوں کو چھین کر اپنے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں جو مختلیف حربے جیسے شہریت ترمیمی قانون,طلاق,حجاب,مساجد,مدارس اسلامیہ,اذان,نماز,وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہراساں کررہے ہیں

جن کا واحد مقصد اس ارض وطن پر بسنے والے ہمہ مذاہب کے خوبصورت گلدستہ پر غالب ہوکر ہندوتوا کو نافذ کرنا ہے ۔فروی میں جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک کی بھاجپا حکومت کی جانب سے حجاب پر پابندی کے بعد جو ہنگامہ برپا ہوا اس کا نظارہ دنیا نے دیکھا

لیکن حکومت کی ہٹ دھرمی کے سبب طالبات کو مجبوراً عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اس امید سے کہ عدالت عدل کے پیمانے کو جانچ کر فیصلہ دے گی لیکن طالبات کو15/مارچ کرناٹک ہائی کورٹ سے نا امیدی ہی ہاتھ آئی واضح ہو کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کو مذہب اسلام کا لازمی حصہ نہ بتاکر حجاب پر پابندی عائد کردی

لیکن طالبات نے شکست کو تسلیم نہ کیا اور نہ انکے قدم متزلزل ہوئے بلکہ ہمت و جرات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہوئے اور اپنے دستوری حق کیلئے عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جسکی سماعت دو رکنی بنچ نے کی جہاں ایک طویل جرح ہوئی قرآن کے حوالے جات پیش کیے گئے

 

حکومت نے اپنا موقف رکھا اور عدالت اعظمی نےفیصلہ محفوظ رکھ لیاتھا جسکے بعد انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی اور 13/اکٹوبر کوفیصلہ آیا جو دونوں ججس کے درمیان منقسم ہوگیا ۔جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا اس دو رکنی بنچ کے منصف تھے جبکہ گپتا اس فیصلہ کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے تھے(جو ہوچکے ہیں)

جن کا فیصلہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کے مطابق حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کا تھا جبکہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے حجاب کو طلباء کےانتخاب کا فیصلہ دیا اب اس متضاد فیصلے سے انصاف پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا بلکہ فیصلہ مساویانہ تقسیم ہوگیا اب مزید اس فیصلہ کی سماعت سہ رکنی یا پنچ رکنی آئینی بنچ کرسکتی ہے لیکن اہم سوال یہ ہیکہ اس دو رکنی بنچ کے فیصلے کے پیمانے الگ الگ کیوں تھے؟

اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے کیلئے دونوں جسٹس حضرات کے کیے گیے تبصروں کو کھنگالنا ضروری ہے اور یہ کیوں ضروری ہے اس کا ذکر ہم آگے کے سطور میں کریں گے اول یہ کہ جسٹس گپتا نے جس طرح سے طویل سماعت کے دوران دیگر مذاہب کے طلبا کے پگڑی دوپٹہ تلک کو حجاب سے موازانہ کرنے سے گریز کیا دوم یہ کہ انھوں نے کرناٹک ہائی کورٹ کی طرح حجاب مذہب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے یہ تو نہیں کہا

لیکن حجاب پہن کر اسکول جانے کو ضد بتاکر سیکولرزم اقدار کے خلاف بتایا سوم یہ کہ انھوں نے کہا کہ طلبا کلاس روم میں حجاب پہننے کے حق کا دعوی نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ تعلیم کے حق سے محروم کرتا ہے

جب کہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے تبصرہ کرتے ہوئے مدلل طریقے سے ان نکات پر بھی غور و خوض کیا جس پر جسٹس گپتا نے نہیں کیا جسٹس دھولیا نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ ایک طالبہ کو جو حقوق سماج میں حاصل ہے یعنی کہ وہ اپنی چار دیواری میں اور اسکے باہر حجاب پہننے کا حق رکھتی ہے تو یہ حق اسکول کے کلاس روم پر کیسے ختم ہوسکتا ہے اگر وہ اپنے تحفظ کے لیے بنیادی حق کا استعمال کرتے ہوئے حجاب پہنتی ہے تو یہ حق اس کو ہر جگہ بشمول کلاس روم میں بھی ملنا چاہیے

انھوں نے حکومت کے حکم نامہ کو خارج کردیا اور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا ۔اب اس متضادفیصلہ کے بعد سہ رکنی یا پنچ رکنی آئینی بنچ جو فیصلہ کرے گی وہ قابل قبول سمجھا جائے گا لیکن اس فیصلہ میں بھی دو رکنی بنچ کے فیصلہ کو بھی ملحوظ رکھتے ہوئے اہمیت کی نگاہ سے دیکھاجاسکتا ہے اگر آئینی بنچ دو رکنی بنچ کے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے فیصلہ سناتی ہے تو فیصلہ طالبات کے حق میں آسکتا ہے یہ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ جسٹس دھولیا نے اس فیصلہ میں جو دلائل پیش کیئے ہیں وہ ٹھوس اور قابل قبول بھی ہیں

انھوں نے آئینی حقوق وقانون کےساتھ ساتھ طالبات کو درپیش چیلینجس جنسی سماجی ثقافتی,تہذیبی کلچر و انسانی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا یہی نہیں بلکہ آگے بڑھ کر کہا کہ آئین اور سماج کے درمیان جو قانونی رشتہ ہے اسمیں ایک اہم رشتہ اعتماد بھی ہے یہ وہ اعتماد ہے جو ملک کی اقلیتیں اکثریت پر تکیہ کی ہوئی ہیں جسٹس دھولیا کے اس نکتہ سے یہ عیاں ہو رہا ہے کہ وہ حجاب کے معاملہ میں عدل کے ذریعہ اعتماد کی فضاء کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں

جس کی گواہی ہندوستانی آئین بھی دیتا ہے یہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بھی انھوں نے کہا کہ کرناٹک حکومت کا حجاب پر امتناع کا حکمنامہ بھی انسانی اقدار کی عین منافی ہے مجموعی طور پر دھولیا نے حجاب معاملہ کو ہر سمت پر غور و خوض کرتے ہوئے فیصلہ سنایا جب کہ گپتا نے جو تبصرہ کیا ہے جس کا نچوڑ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کی مکمل پیروی کررہا ہے جنکے تبصرے میں کوئی خاصی دلیل نہیں ملتی بلکہ سب کچھ وہی ہے جو کچھ ہائی کورٹ کے فیصلہ میں دیکھنے کو ملا مجموعی طور پر جسٹس گپتا کا فیصلہ دستوری اور قانونی نوعیت سے کمزور نظر آرہا ہے

جن کی دلیل جو صرف ایک ڈریس کوڈ پر محیط ہے لیکن طالبات کے دستوری و تعلیمی بنیادی حقوق سے کوئی دلیل پختی اور ٹھوس نہیں ہے اسی مناسبت سے جسٹس دھولیا کا فیصلہ آئینی بنچ کو غور و خوض کرنے پر ضرورآمادہ کرے گا ۔

اوپر ہم نے جس سوال کا جواب ادھورا چھوڑا تھا کہ حجاب پر فیصلے کے دو الگ الگ پیمانے کیوں؟جسکو ہم نے جسٹس حضرات کے لگ بھگ تقریباً تبصروں کو تو ضرور کھنگال لیا ہے

اور فیصلہ پر تبصروں کی مکمل تصویر بھی کھینچی گئی اب جس سوال کا جواب دینا تھا اس سوال کا جواب بھی سوالیہ ہی ہے جس سے آپکو سمجھ میں آجائے گا سوال یہ ہیکہ سپرم کورٹ کے تقریباً ججس نے اپنی سبکدوشی سے قبل ہی اسطرح کے فیصلے کیوں دے کر جارہے ہیں؟

جس طرح سے جسٹس گوگوئی نے بابری مسجد کا فیصلہ رام مندر کے حق میں سنا کر سبک دوش ہوکر انعام کے طور پر راجیہ سبھا میں داخل ہوئے اور بابری مسجد تنازعہ کا فیصلہ سنانے کے بعد کی داستان خود انھوں نے اپنی کتاب جسٹس فار جج میں لکھتے ہوئے جو حیرت ناک انکشافات کیے ہیں وہ بہت تشویش ناک ہیں جب کہ ابھی جسٹس گپتا بھی حجاب مخالف فیصلہ سنا کر سبک دوش ہوچکے ہیں

بہر حال یہ سب سمجھانے کی نہیں بلکہ سمجھنے کی ضرورت ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت اعظمی کی آئینی بنچ کیا حجاب کو طالبات کا آئینی بنیادی حق اور اسلام کا لازمی جز مان کر عدل کرے گی یا پھر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ پر برقرار رہے گی یہ تو آنے والا وقت طئے کرے گا ۔

سید سرفراز احمد,بھینسہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *