غزل
اپنے دل کو دونوں عالم سے اُٹھا سکتا ہوں میںکیا سمجھتی ہو کہ تم کو بھی بھلا سکتا ہوں میںکون تم سے چھین سکتا ہے مجھے، کیا وہم ہےخود زلیخا سے بھی تو دامن بچا سکتا ہوں میںدل میں تم پیدا کرو پہلے مری سی جرائتیںاور پھر دیکھو کہ تم کو کیا بنا سکتا ہوں میںدفن کر سکتا ہوں سینے میں تمہارے راز کواور تم چاہو تو افسانہ بنا سکتا ہوں میںمیں قسم کھاتا ہوں اپنے نطق کے اعجاز کیتم کو بزمِ ماہ و انجم میں بٹھا سکتا ہوں میںسر پہ رکھ سکتا ہوں تاجِ کشورِ نورانیاںمحفلِ خورشید کو نیچا دِکھا سکتا ہوں میںمیں بہت سرکش ہوں لیکن اک تمہارے واسطےدل بچھا سکتا ہوں میں، آنکھیں بچھا سکتا ہوں میںتم اگر روٹھو تو اک تم کو منانے کے لئےگیت گا سکتا ہوں میں، آنسو بہا سکتا ہوں میںجذب ہے میں مرے دونوں جہاں کا سوز و سازبربطِ فطرت کا ہر نغمہ سُنا سکتا ہوں میںتم سمجھتی ہو کہ ہیں پردے بہت سے درمیاںمیں یہ کہتا ہوں کہ ہر پردہ اُٹھا سکتا ہوں میںتم کہ بن سکتی ہو ہر محفل میں فردوسِ نظرمجھ کو یہ دعویٰ کہ ہر محفل پہ چھا سکتا ہوں میںآؤ مل کر انقلابِ تازہ تر پیدا کریں!دہر پر اس طرح چھا جائیں کہ سب دیکھا کریںمجاز لکھنوی