تری پورہ وزٹ کے لیے اگرتلا میں بتیس گھنٹے

Spread the love

مسافر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی تری پورہ وزٹ کے لیے اگرتلا میں بتیس گھنٹے

تری پورہ وزٹ کے لیے اگرتلا میں بتیس گھنٹے

غیروں کے بیچ پیدا ہوئے ہم اسلامیان ہند کے لیے کیا ہولی کے رنگ، کیا پتنگوں کی بہاریں اور کیا دیوالی کے پٹاخے، کچھ بھی نیا نہیں۔ لیکن ان آلودگیوں کے درمیان یہ خیال بھی نہ تھا کہ پس ماندہ، پس داشتہ، غریب اور ابھی تازہ تازہ متعصب ہوئے تری پورہ کے نارمل قصبہ نما دکھنے والی دار الریاست اگرتلا کی دیوالی بھی اس قدر زہر آلود، دھماکے دار اور دھواں دھواں ہوگی۔

اگرتلا ایئرپورٹ سے کوئی 11 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہمارے ہوٹل کے بالائی منزلے میں دیر رات تک پٹاخوں کی گھن گرج بار بار چونکاتی رہی۔
نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی ہر بار کی دیوالی اسی رنگ ڈھنگ کی ہوتی ہے یا یہ کوئی نیا نویلا جوش تھا، تاہم بہرصورت اتنا ضرور ہے کہ جمہوری نظام کے لیے کسی بھی طور پر ایسا مذہبی جنون اطمینان بخش نہیں۔بنگلہ دیش سے گھری اس ریاست میں مذہبی جنونیوں نے تعصب کی نئی نئی کاشت کی ہے

جس کا ثمرہ گزشتہ دنوں یہاں کے 5 ضلعوں میں برپا کیے گئے فسادی ماحول میں دیکھنے کو ملا اور دراصل ہمارے پیش رو اور کرم فرما حضرت مولانا قمر غنی عثمانی صاحب کی تحریک پر اس اجنبی جگہ پر ہماری آمد بھی انھیں مظلوموں کی واقعی صورت حال کا جائزہ لینے اور دست گیری کرنے کے لیے ہوئی تھی لیکن شاید فی الوقت قدرت کو یہ منظور نہیں تھا، اس لیے بنا مراد پائے الٹے پاؤں لوٹنا پڑا۔

ہوا یوں کہ 4/ نومبر کو احمدآباد سے جے پور کی فلائٹ کینسل ہونے پر ناگہاں جے پور کی بجائے وایا کلکتہ اگرتلا کی کنکٹنگ فلائٹ پکڑی اور عزیز مکرم انجینئر شجاعت علی قادری صاحب کے مشورے پر کلکتہ سے محمد اشفاق نامی نوجوان کا بھی ٹکٹ بنوا لیا تاکہ وہ بیک وقت بحیثیت وکیل اور بحیثیت بنگلہ داں معیت نبھا سکیں۔

اشفاق بھائی ہماری معروف تعلیمی تنظیم ایم ایس او سے وابستہ بنگالی نو جوان ہیں۔ شام کو یکایک ان کا ٹکٹ بنوایا گیا اور احمد آباد – کلکتہ فلائٹ کی اڑان سے پہلے اور کلکتہ پہنچنے کے بعد بھی دیر رات تک ان سے آگے کے حالات اور پلاننگ پر مشورے چلتے رہے۔

اسی دوران ان سے مطالبہ بھی کیا کہ اب وہ نہ سوئیں اور ایئرپورٹ تشریف لے آئیں لیکن مہربان نے نہ صرف یہ کہ حامی بھرنے کے باوجود آنے میں دیر کردی بلکہ پھر وہ کسی وقت سستانے کے بہانے اپنے گھر پر ہی سو بھی گئے اور کچھ ایسا سوئے کہ جب ہم اگرتلا پہنچے تب ان کی کلکتہ میں آنکھ کھلی۔ دراصل اشفاق بھائی یہاں کے تشویش ناک حالات اور ہر چھوٹی چھوٹی بات پر تری پورہ پولیس کی

UAPA

کاروائی کو لے کر کافی پریشان تھے اور ممکن ہے ان کی یہی پریشان خاطری ان کے لیے مقدس بہانہ بنی ہو۔
کلکتہ ایئرپورٹ سے آن لائن ہوٹل کی بکنگ کی گئی اور 5/ نومبر کو صبح پونے آٹھ بجے اگرتلا ائیرپورٹ سے ڈائریکٹ ہوٹل میں پہنچنا ہوا اور سوئے اتفاق کہ بنا کچھ تیر مارے تری پورہ میں کوئی 32/ گھنٹوں کی ماڈرن اسیری گزار کر جوں کی توں ہوٹل سے ہی ابھی 6/ نومبر شام 3:50 کو نا مراد واپسی ہو رہی ہے۔

اس دوران جو نا تمام مساعی ہوئیں اور جو باتیں سمجھ میں آئیں، ان کی داستان نا کامی کچھ یوں ہے:مسلمانوں میں دہشت ہے:-مسلمانوں میں دہشت کا ماحول ہے۔ نہیں کہا جا سکتا کہ پوری ریاست کا یہی سماں ہے یا نہیں؟۔

لیکن اس مختصر دورانیے میں دور سے حالات ٹٹولنے کا جتنا موقع ملا اور جن جن احباب سے رابطہ کیا جا سکا، ان سب کا مجموعی نچوڑ یہی ہے کہ:حالات ٹھیک نہیں۔ آپ کا بنا اجازت باہر نکلنا مناسب نہیں۔ واپسی میں بھلائی ہے۔ انتظامیہ متعصب ہے اور ساتھ ہی جھوٹ سے کام لے رہی ہے۔ اس وقت

UAPA

پولیس کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے۔ وغیرہ۔یہاں کے تین لوگوں سے رابطہ کیا گیا اور تقریباً تینوں کا ملا جلا تاثر اسی نچوڑ پر منتج تھا۔

آسام کے مولانا زین العابدین منظری سے رابطہ کیا گیا جو یہاں سے بہت دور ہوتے ہیں اور ان سے بھی اس بابت کوئی مدد ممکن نہ تھی۔بمبئی، دہلی اور جے پور بھی الگ الگ حیثیتوں کے حامل افراد سے رابطے کیے گئے لیکن کہیں سے کوئی نتیجہ خیز بات نکل کر سامنے نہیں آئی۔

مولانا عبیداللہ خان اعظمی سے بھی فون اور وہاٹس ایپ کے ذریعے رابطے کی کوششیں ہوئیں لیکن کوئی رابطہ نہ ہو سکا اور واپسی میں دوران سفر ان کا بھی وہاٹس ایپ کے ذریعے یہی مشورہ ملا کہ واپسی میں بھلائی ہے۔

رابطے کرنے کا مقصد یہ تھا کہ انتظامیہ سے اجازت کے بعد ہی متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا جائے تاکہ خود بھی ہمارے پیش رو وفد کی طرح چپیٹ میں نہ آئیں اور واقعی صورت حال کا مضبوط جائزہ بھی لیا جا سکے جبکہ علاقائی تفصیلات اور رہ نمائی کے لیے علاقے کے افراد کی ضرورت تھی جو پوری نہ ہو سکی۔

یہ تفصیلات اس لیے فراہم کر دی گئی ہیں تاکہ جیسے آئندہ آنے والے وفود کے لیے کچھ خطوط متعین ہوں، ویسے ہی ہماری اس حاضری پر کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ محض آمدن اور رفتن جیسی رسمی خانہ پری کی گئی ہے۔یہاں کے باشندگان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی دہشت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مولانا صاحب نے، جو تحریک فروغ اسلام کے پیش رو وفد میں رہ نما کی حیثیت سے ساتھ تھے

اور حضرت مولانا قمر غنی عثمانی صاحب کی گرفتاری کے بعد ان پر بھی تلوار لٹکی ہوئی ہے اور انتظامیہ نے انھیں کسی سے ملنے ملانے اور باہر نکلنے سے سختی سے روک رکھا ہے، پہلے کئی بار مسلسل فون کرنے کے بعد بھی فون نہیں اٹھایا اور جب مسلسل رابطوں کے بعد ان سے بات ہوئی تو ملنے کے روادار نہ تھے اور 6/ نومبر کو جب چپکے سے ملنے کے لیے تیار ہوئے تو اس میں بھی شرطیں تھیں۔

اس دوران ان کا ہر بار یہی مشورہ تھا کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں، فی الوقت آپ دورے کو ملتوی کر دیں اور آخر کار جب میں نے انھیں یہ خبر دی کہ میں ریٹرن ہو رہا ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے۔

مولانا نے اس تحریر میں اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی فرمائش کی تھی، اس لیے ان کا نام راز سر بستہ۔ایک اور صاحب جو یہاں سے فاصلے پر دھرما نگر میں اس جگہ رہتے ہیں، جہاں سانحہ پیش آیا ہے، ان کا بھی یہی مشورہ تھا اور وہ بھی مذکورہ مولانا صاحب سے ملاقات پر ٹالتے ہوئے پلہ جھاڑنے کی فراق میں تھے اور ذہنی طور پر ملنے کے لیے تیار نہ تھے۔اگر یہاں کے باشندگان با ہمت ہوتے تو شاید مولانا عثمانی صاحب کے ساتھ پولیس وہ زیادتی نہ کر پاتی، جس پر وہ اتارو ہے۔

فی الوقت ہمارا کام تحریک فروغ اسلام کی تائید و حمایت ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ گرفتار شدگان کو محفوظ رکھے اور انجام کار کے طور پر با مراد کرے۔آخر ایسا کیوں؟:-آخر ایسا کیوں ہے کہ ان مسلمانوں کے دلوں میں بلا کی دہشت ہے؟ ۔

اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے کہ یہاں کی اکثر مسلم آبادی اپنے صوبے کی طرح پس ماندہ ہے اور غربت زدہ ہے اور ظاہر ہے اگر کوئی قوم من جانب اللہ بہت زیادہ باشعور اور حساس نہ ہو تو پھر اس کی غربتوں کے بیچ جہالتوں کا ڈیرہ لازماً ہوا کرتا ہے اور جہالت کسی بھی انسان کو بے باک، بلند ہمت اور اپنے حق کی لڑائی لڑنے والا نہیں بنا سکتی۔

یہ بلند حوصلہ کام تو صرف علم سے ہی ممکن ہے۔ جب کہ تری پورہ کے غریب کلمہ گویان کو نہ صرف یہ کہ دین کی بہت زیادہ سمجھ نہیں بلکہ روزانہ کی مزدوری کے علاوہ عصری تعلیم میں بھی ان کا کوئی خاطر خواہ حصہ نہیں۔اس لیے اگر ملک کا غیور طبقہ حالیہ فسادات سے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ ایسے نازک علاقوں کی بقا چاہتا ہے

تو اسے چاہیے کہ ان علاقوں میں علمی رونق پیدا کرنے کی فکر کرے اور ان کے لیے با ضابطہ تعلیمی بند و بست ہو تاکہ یہ اقل قلیل تعداد متعصب اکثریت کے بیچ بھی با وقار زندگیاں گزار سکے، ورنہ ہر نئے فساد کے موقع پر مسجدوں سے معمولی چند اگا کر اپنا مومنانہ فرض کفایہ ادا کر لینے کا مزاج تو چلتا ہی آیا ہے۔یہ فساد کیوں بپا ہوا تھا؟:۔

سیاسی تجزیہ یہ ہے کہ یہ فساد در اصل گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں وہاں کی اقلیت کے ساتھ ہوئی زیادتیوں کا ردعمل تھا۔ ہر چند کہ بنگلہ دیش حادثے کی بھارت کی اقلیتوں کی طرف سے دل کھول کر مذمت ہوئی اور وہاں کی وزیراعظم نے بھی مجرموں  کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی

لیکن یہاں راہل گاندھی کے علاوہ نہ صرف یہ کہ ہمارے وزیر اعظم اور بڑے اقتدار نے کوئی مذمت نہیں کی بلکہ بے تکے بیان دینے میں مشہور خود تری پورہ کے وزیر اعلی نے بھی کچھ نہیں بولا اور پولیس نے مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہوئے حادثات کا اعتراف بھی نہیں کیا اور ہر بار کچھ نہ ہونے کا ڈھونگ رچتی رہی اور اب

UAPA

کا استحصال کر رہی ہے۔بنگلہ دیشی حادثے کا بدلہ لینے کے لیے تری پورہ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ اس چھوٹی سی ریاست میں بنگالی مسلمان رہتے ہیں اور یہ بنگلہ دیش کی پڑوسی بھی ہے، جس کا اثر بنگلہ دیش پر ضرور پڑنا ہے جبکہ سیاسی طور پر یہ متعصب پارٹی بھاجپا کے زیر اقتدار ہے، جسے مسلم دشمنی کا فوبیا ہے یا وہ صرف اسلام دشمنی کی سیاست ہی جانتی ہے۔

یہ پورا فساد اسی ذہنیت کی حامل تنظیم وشو ہندو پریشد کی مرہون منت ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق وی ایچ پی کے مسلح غنڈوں نے تری پورہ پولیس کی موجودگی میں وہ سب کچھ کیا، جس کا رونا رویا جا رہا ہے

پانچ ضلعوں میں کوئی پندرہ مسجدوں کے ساتھ آگ زنی اور انہدام سمیت چھوٹی بڑی چھیڑ خانیاں، الگ الگ علاقوں میں ٹارگیٹ کر کے مسلم تاجروں کی دکانیں نذر آتش کرنا اور گزرتے ہوئے جہاں موقع ملا آگ زنی اور ہراساں کرنا۔بھاجپائی جھنڈے/ رنگ:-ہم نے ایئرپورٹ سے ہوٹل اور ہوٹل سے واپس ایئرپورٹ آتے ہوئے کچھ جگہیں ایسی دیکھیں جہاں روڑ کے دونوں طرف بانس کے ڈنڈوں میں بھاجپا کے جھنڈے آویزاں تھے۔

اگر یہ علم برداریاں محض سیاسی نقطہ نظر سے ہوتیں تو کچھ برا نہ تھا لیکن ملک کے موجودہ زہریلے ماحول اور اس پر بھی طرفہ یہ کہ فساد زدہ علاقوں میں یہ مخصوص جھنڈے، کس ذہنیت کی نشانی ہیں، یہ بھارتی سیاست سمجھنے والوں کو بتانے کی ضرورت نہیں۔

خلاصہ:-اگر کوئی یہ سوال کرے کہ آپ کی نظر میں تری پورہ کے مسلمانوں کو در پیش ان مسائل کا حل کیا ہے؟ تو میرا جواب ہوگا:۔

۔(الف) ایسے حالات میں اگر ہمیں سچ مچ تری پورہ کی نازک صورت حال کا حل نکالنا ہے تو قانون کا مضبوط سہارا لے کر قانونی چارہ جوئیاں کرنا ہوں گی، ہمارے لیے یہی واحد راستہ بچتا ہے کیوں کہ اس طرح کے حادثات ہوتے نہیں کروائے جاتے ہیں اور سوچی سمجھی سازشوں اور قانونی دفعات کے استحصال کو قانون کے ذریعے ہی فرو کیا جا سکتا ہے

۔۔(ب) زندگی اور مشکلات کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اور یہاں کسی حد و قید کی پابندی نہیں البتہ ہزارہا مسائل کا تنہا حل تعلیم ہو سکتی ہے اور اس علاقے میں بے شک سب سے اہم مسئلہ جہالت ہے اور بے شک اس کا سب سے بہترین حل تعلیم ہے۔

۔(ج) تری پورہ سمیت بہت سی غریب اور علاقائی زبان بولنے والی چھوٹی ریاستیں وہ ہیں جن پر مغربی اور شمالی ہند کے ان لوگوں کی خاطر خواہ توجہ نہیں ہو پاتی جو اردو دنیا سے وابستہ ہیں اور جن کے پاس مذہب و مسلک کا واقعی یا ایک حد تک شعور ہے۔

اسی طرح ان علاقوں کی ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ ان میں نہ اچھے ادارے پائے جاتے ہیں، نہ کسی خاص شخصیت/ مرشد کا اثر پایا جاتا ہے اور نہ ہی ان بے چاروں کا عام طور پر کوئی پرسان حال ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان علاقوں میں دعوت دین کا احیا کیا جائے اور واقعتاً دعوت و تبلیغ کا مزاج رکھنے والی تنظیمیں/ افراد خوش حال علاقوں کی طرح ان علاقوں کو بھی اپنا سافٹ ٹارگیٹ بنائیں۔

اللہ تعالیٰ ان کا اور ہم سب کا ناصر و حامی ہو۔ آمین۔

مسافر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی

چیرمین: تحریک علمائے ہند، جے پور

ان مضامین کو بھی پڑھیں

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

 مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر

ایک مظلوم مجاہد آزادی

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

 اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

 مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز

۔ 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *