سرکاری خزانہ بھرنے کے طریقے
سرکاری خزانہ بھرنے کے طریقے
مشرف شمسی
ٹرین میں سفر کرنے والے ایک سال کے بچہ کو بھی پوری ٹکٹ خریدنی پڑےگی ۔ سوشل میڈیا میں گردش کرنے والی اگر یہ خبر سہی ہے جو صحیح ہے کیونکہ مضمون لکھے جانے تک وزرات ریلوے نے کوئی صفائی نہیں دی ہے تو ملک کے ہندو مسلم ماحول میں یہ خبر بہت ہی معمولی سی لگ رہی ہے۔
خاص کر تب جب اس خبر کو قومی میڈیا پوری طرح سے نظر انداز کر رہا ہے ۔مودی سرکار گزشتہ کچھ سالوں سے جس طرح کے اقدامات عام لوگوں کے لئے اٹھاتی رہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ حیران کن نہیں سمجھا جا سکتا ہے ۔مودی سرکار آئی ایم ایف کے کہنے پر سبھی طرح کی سبسڈی عوام سے ختم کر رہی ہے اور دوسری جانب عام آدمی سے زیادہ سے زیادہ پیسے اکٹھا کیئے جائیں اس کا کوئی بھی موقع چھوڑ نہیں رہی ہے ۔
جب کہ دوسری جانب کارپوریٹ ٹیکس اٹھائیس فیصد سے گھٹا کر 22 فیصد کر دیا گیا جبکہ پوری دنیا میں کارپوریٹ ٹیکس 28 فیصد کے قریب ہے۔ مودی سرکار کارپوریٹ ٹیکس میں کمی نہیں کرتی تو سرکار کو ڈیڑھ لاکھ کروڑ کی آمدنی سال میں ہوا کرتی۔ساتھ ہی کارپوریٹ من چاہے ڈھنگ سے اپنی کسی بھی کمپنی کو دیوالیہ اعلان کر دیتی ہے اور اس کمپنی پر بینک کا ہزاروں کروڑ کا قرضہ ہوتا ہے وہ سرکار سے معاف کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
ذرا سوچئے ملک کا ایک عام شہری اگر کسی بینک سے پانچ ہزار کا قرض لیتا ہے اور وہ اس قرض کی ادائیگی میں ناکام رہتا ہے تو اس کے نام سویل میں چلے جاتے ہیں اور پھر کوئی بھی بینک اس شخص کو تب تک قرض نہیں دے گا جب تک وہ شخص اپنا نام سویل سے کلیئر نہیں کرا لیتا ہے ۔لیکن کارپوریٹ بینک کے ایک قرض کی ادائیگی میں ناکام ہونے کے باوجود اُنھیں دوسرا قرض دیا جاتا ہے ۔
اُن کے نام سویل میں نہیں جاتے ہیں بلکہ اُنکے قرض کو سرکار رائٹ آف کر دیتی ہے۔گزشتہ چار سالوں میں مودی سرکار دس لاکھ کروڑ سے زیادہ کا کارپوریٹ ٹیکس رائٹ آف کر چکی ہے۔کارپوریٹ کے قرض کو رائٹ آف کرنے سے بینک خسارے میں جاتا ہے تب عام لوگوں کے ٹیکس کے پیسے سے بینک کے خسارے کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
کارپوریٹ قرض دلانے اور اُنکے ٹیکس رائٹ آف کرنے میں جو کھیل کھیلا جاتا ہے آج اس موضوع پر بات نہیں کرونگا لیکن مودی سرکار جس طرح سے عام آدمی سے وصولی کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑ رہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے بھارت آنے والے دنوں میں ویلفیئر اسٹیٹ نہیں بلکہ ایک ٹیکس اسٹیٹ کہلایا جائے گا ۔
رہا سوال ایک سال کے بچے کو ٹرین کی سفر میں فل ٹکٹ کا کرایہ لگانے کا فیصلہ وہ سرکار ہی کر سکتی ہے جس سرکار کو حکومت سے جانے کا خوف پوری طرح سے ختم ہو چکا ہے ۔مودی سرکار کی ہمت تو دیکھئے ایک سال کے بچہ سے فل کرایہ لینے کا فیصلہ ایسے وقت میں کر رہی ہے جب آنے والے کچھ مہینوں میں گجرات جو مودی جی کی اپنی ریاست ہے وہاں چناؤ ہونے ہیں۔
جس ملک میں پیاز کی منہگائی کی وجہ سے ایک ریاست کی سرکار شکست کھا جاتی ہے وہی آج اس ملک میں کوئی بھی عوامی موضوع مرکزیت حاصل نہیں کر پاتی ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ قومی میڈیا ہے جس میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا دونوں ہیں جو عوامی موضوع پر چرچا کرنے سے گریز کرتی ہیں ۔
قومی میڈیا اسی موضوع کو زیر بحث لاتی ہیں جس سے سرکار کے فیصلے پر سوال نہیں اٹھے اور سرکار کی حمایت میں اضافہ ہو۔ذرا سوچئے اگر ملک میں ہندو مسلم کی بنیاد پر لوگوں کی سوچ نہیں بنتی اور میڈیا عوامی موضوع کو اٹھاتی رہتی تو مودی سرکار کی ہمت ہوتی کہ ایک سال کا بچہ جو ماں کے گود کی بنا تنہا نہیں رہ سکتا ہے اس سے فل ٹکٹ لینے كا فرمان جاری ہوتا۔
اب بھی وقت ہے ہندو مسلم میں پھنس کر مودی سرکار کو موقع دے رہے ہیں کہ سرکار من مانا فیصلہ کرے۔اسی وجہ سے مودی سرکار نے اس ملک کے عوام کو شہری سمجھنا چھوڑ دیا ہے ۔ سرکاری خزانہ بھرنے کے طریقے مشرف شمسی ٹرین میں سفر کرنے والے ایک سال کے بچہ کو بھی پوری ٹکٹ خریدنی پڑےگی ۔
سوشل میڈیا میں گردش کرنے والی اگر یہ خبر سہی ہے جو صحیح ہے کیونکہ مضمون لکھے جانے تک وزرات ریلوے نے کوئی صفائی نہیں دی ہے تو ملک کے ہندو مسلم ماحول میں یہ خبر بہت ہی معمولی سی لگ رہی ہے۔
خاص کر تب جب اس خبر کو قومی میڈیا پوری طرح سے نظر انداز کر رہا ہے ۔مودی سرکار گزشتہ کچھ سالوں سے جس طرح کے اقدامات عام لوگوں کے لئے اٹھاتی رہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ حیران کن نہیں سمجھا جا سکتا ہے ۔مودی سرکار آئی ایم ایف کے کہنے پر سبھی طرح کی سبسڈی عوام سے ختم کر رہی ہے اور دوسری جانب عام آدمی سے زیادہ سے زیادہ پیسے اکٹھا کیئے جائیں اس کا کوئی بھی موقع چھوڑ نہیں رہی ہے ۔
جب کہ دوسری جانب کارپوریٹ ٹیکس اٹھائیس فیصد سے گھٹا کر 22 فیصد کر دیا گیا جب کہ پوری دنیا میں کارپوریٹ ٹیکس 28 فیصد کے قریب ہے۔
مودی سرکار کارپوریٹ ٹیکس میں کمی نہیں کرتی تو سرکار کو ڈیڑھ لاکھ کروڑ کی آمدنی سال میں ہوا کرتی۔ساتھ ہی کارپوریٹ من چاہے ڈھنگ سے اپنی کسی بھی کمپنی کو دیوالیہ اعلان کر دیتی ہے اور اس کمپنی پر بینک کا ہزاروں کروڑ کا قرضہ ہوتا ہے وہ سرکار سے معاف کرانے میں کام یاب ہو جاتے ہیں
۔ذرا سوچئے ملک کا ایک عام شہری اگر کسی بینک سے پانچ ہزار کا قرض لیتا ہے اور وہ اس قرض کی ادائیگی میں ناکام رہتا ہے تو اس کے نام سویل میں چلے جاتے ہیں اور پھر کوئی بھی بینک اس شخص کو تب تک قرض نہیں دے گا جب تک وہ شخص اپنا نام سویل سے کلیئر نہیں کرا لیتا ہے ۔
لیکن کارپوریٹ بینک کے ایک قرض کی ادائیگی میں ناکام ہونے کے باوجود اُنھیں دوسرا قرض دیا جاتا ہے ۔اُنکے نام سویل میں نہیں جاتے ہیں بلکہ اُنکے قرض کو سرکار رائٹ آف کر دیتی ہے۔گزشتہ چار سالوں میں مودی سرکار دس لاکھ کروڑ سے زیادہ کا کارپوریٹ ٹیکس رائٹ آف کر چکی ہے۔
کارپوریٹ کے قرض کو رائٹ آف کرنے سے بینک خسارے میں جاتا ہے تب عام لوگوں کے ٹیکس کے پیسے سے بینک کے خسارے کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
کارپوریٹ قرض دلانے اور اُن کے ٹیکس رائٹ آف کرنے میں جو کھیل کھیلا جاتا ہے آج اس موضوع پر بات نہیں کرونگا لیکن مودی سرکار جس طرح سے عام آدمی سے وصولی کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑ رہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے بھارت آنے والے دنوں میں ویلفیئر اسٹیٹ نہیں بلکہ ایک ٹیکس اسٹیٹ کہلایا جائے گا ۔
رہا سوال ایک سال کے بچے کو ٹرین کی سفر میں فل ٹکٹ کا کرایہ لگانے کا فیصلہ وہ سرکار ہی کر سکتی ہے جس سرکار کو حکومت سے جانے کا خوف پوری طرح سے ختم ہو چکا ہے ۔مودی سرکار کی ہمت تو دیکھئے ایک سال کے بچہ سے فل کرایہ لینے کا فیصلہ ایسے وقت میں کر رہی ہے جب آنے والے کچھ مہینوں میں گجرات جو مودی جی کی اپنی ریاست ہے وہاں چناؤ ہونے ہیں۔
جس ملک میں پیاز کی منہگائی کی وجہ سے ایک ریاست کی سرکار شکست کھا جاتی ہے وہی آج اس ملک میں کوئی بھی عوامی موضوع مرکزیت حاصل نہیں کر پاتی ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ قومی میڈیا ہے جس میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا دونوں ہیں جو عوامی موضوع پر چرچا کرنے سے گریز کرتی ہیں ۔
قومی میڈیا اسی موضوع کو زیر بحث لاتی ہیں جس سے سرکار کے فیصلے پر سوال نہیں اٹھے اور سرکار کی حمایت میں اضافہ ہو۔ذرا سوچئے اگر ملک میں ہندو مسلم کی بنیاد پر لوگوں کی سوچ نہیں بنتی اور میڈیا عوامی موضوع کو اٹھاتی رہتی تو مودی سرکار کی ہمت ہوتی کہ ایک سال کا بچہ جو ماں کے گود کی بنا تنہا نہیں رہ سکتا ہے اس سے فل ٹکٹ لینے كا فرمان جاری ہوتا۔
اب بھی وقت ہے ہندو مسلم میں پھنس کر مودی سرکار کو موقع دے رہے ہیں کہ سرکار من مانا فیصلہ کرے۔اسی وجہ سے مودی سرکار نے اس ملک کے عوام کو شہری سمجھنا چھوڑ دیا ہے ۔
موبائیل:9322674787