مجاہدہ کرنا خود آدمی کے لیے فائدہ دیتا ہے
مجاہدہ کرنا خود آدمی کے لیے فائدہ دیتا ہے
نیک اعمال کی سختی سے ڈرانا‘برے کام کی لذتوں پر ابھارنا شیطانی عمل
مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی حیدرآباد دکن۔ تلنگانہ اسٹیٹ
فون نمبر: 9849099228
ای میل: mahafeez.islami@gmail.com
بندہ مومن کی زندگی مجاہدہ اور جدوجہد سے کبھی خالی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ پر ایمان لا کر اس کے عین مطابق اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے عملی طور پر میدان میںآتے ہی مخالفتوں کا دور شروع ہوجاتا ہے اور یہ مخالفتیں کسی ایک سمت سے نہیں ہوتی بلکہ یہ ہمہ رخی ہوتی ہیں، اگر ان نازک حالات میں آدمی ڈر جائے اور اپنے موقف سے ہٹ جائے تو یقیناً وہ ناکام ہوجاتا ہے لیکن ایک بندے مومن جس کی پشت پر ہمیشہ اللہ تبارک تعالیٰ کی طاقت موجود رہتی ہے اور وہ اسی کے بل بوتے پر ہر آن اقامت حق اور غلبہ حق کیلئے کمر بستہ ہوکر کلمہ حق کو بلند کرنے اور کلمات کفر کو پست کرنے کی جدوجہد اور کوشیش میں اپنی زندگی لگا دیتا ہے اوریہ بات حقیقت ہے کہ جو کوئی بھی اللہ کی راہ میںجدوجہد کرتا ہے اور اپنی طاقت کے مطابق اس کام میں اپنی صلاحیتوں کو لگادیتا ہے تو اس کا نفع خود اسے حاصل ہوتا ہے، جس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اللہ تبارک تعالیٰ نے جبرئیل امین علیہ السلام کے ذریعہ آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی پر آیت کریمہ کا نزول فرمایا جو سورۃ العنکبوت میں موجود ہے۔
ومن جاھد فانما یجاھد لنفسہ
جو شخص بھی مجاہدہ کرے گا اپنے ہی بھلے کیلئے کرے گا۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جب ایک ایماندار آدمی حق کے راستے میں کوشیش کرے گا تو اپنے رب کی مرضیات پر کامل طور پر عامل ہوجانے کے مواقع بھی میسر آجائیں گے۔ جس کے نتیجہ میں اس عارضی حیات کے امتحان میں کامیاب ہوکر ابدی زندگی میں سرخروی نصیب ہوتی ہے جو انسان کی فلاح و کامیابی کی اصل ہے او ریہ بات بھی ہمارے ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس دنیا میں ہم جو کچھ بھی کوششیں اقامت حق کیلئے کریں گے اور دین اسلام کو سر بلند کرنے کی سعی کریں تو یہ ہمارے ہی حق میں بہتری ہوگی اور اس میں صرف اور صرف ہمارا ہی فائدہ ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی مفاد نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں ارشاد فرمادیا گیا کہ ان اللہ لغنی عن العلمین (عنکبوت ) یعنی ’’اللہ یقیناً دنیا جہاں والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔
اس سلسلہ میں مفسرین کرام نے بہت وضاحت کے ساتھ دلنشین انداز میں تحریر فرمایا ہے۔حضرت علامہ پیر محمد کرم شاہ صاحبؒ یوں تحریر فرماتے ہیں:
جو شخص اسلام کی سر بلندی کیلئے مصروف جہاد رہتا ہے وہ خدا وند کریم پر احسان نہیں کررہا بلکہ اس میں سراسر اس کا اپنا فائدہ ہے کیونکہ اگر اس نے جہاد نہ کیا اور کافر غالب آگئے تو اس کی آزادی چھن جائے گی اسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا۔ اس کا گھر بار، مال و متاع تاخت و تاراج کردیا جائے گا۔ اس کی آبرو خاک میں مل جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ سفاک اور خدا نا ترس دشمن اس کو اسلام چھوڑنے پر مجبور کردے۔ ان تمام حالات میںنقصان اسی کا ہوگا۔ (ضیاء القرآن)
الغرض جہاد کا اولین محاذ ان دو چیزوں پر مشتمل ہے۔
پہلا یہ ہے کہ ’’شیطانی تحریک سے پنجہ آزمائی اور اس کے نقش قدم پر چلنے سے اجتناب‘‘ دوسرا یہ کہ ’’نفس کی شرارتوں سے مقابلہ آرائی اور اس پر قابو پانا‘‘ مندرجہ بالا دو مرحلوں میں جب آدمی کامیاب ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اتنا قوی اور مستحکم بنادیتا ہے جو ایک اور اہم جدوجہد کرنے کا اس میں حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ
’’اپنا خود ساختہ حکم چلانے اور بدی کو فروغ دینے والے حاکموں سے سامنا کرنے کی جرائت ‘‘ ( اور یہ جرات و صلاحیت ‘‘صالحیت ‘‘ کے بغیر ناممکن سی چیز ہے)
حضرت مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ نے جہاد کے سلسلہ میں بہت عمدگی سے بات سمجھائی ہے وہ یوںرقم طراز ہوئے کہ
’’جہاد بمعنی کسی انسان کی مقدور بھر کوشیش جو اسلام کے نفاذ اور اس کی سربلندی کیلئے کی جائے پھر اس جہاد کے اقسام بھی متعدد ہیں اور محاذ بھی معتدد ہیں۔ اقسام سے مراد مثلاً زبان سے جہاد ایک دوسرے کو سمجھانا اور تلقین کرنا یا تقریروں کے ذریعہ تبلیغ کرنا اور قلم سے جہاد یعنی اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور اسلام پروار ہونے والے اعتراضات اور حملوں کا جواب لکھنا اور پھر اس کے بعد اجتماعی جہاد بالسیف یا قتال فی سبیل اللہ ہے اور جہاد کا سب سے پہلا محاذ انسان کا اپنا نفس ہے پھر اس کے بعد عزیز و اقارب پھر اس کے بعد پورا معاشرہ ہے اور آخری محاذ قتال فی سبیل اللہ یعنی ان کافروں سے جنگ کرنا ہے جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ہوں یا اسلام کو نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے ہوں۔ جہاد اگر نفس سے کیا جائے گا تو جہاد کرنے والے کی اپنی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہوگی اگر اجتماعی جہاد اپنے معاشرہ سے کیا جائے گا تو پورا معاشرہ بے حیائیوں سے اور ظلم و جور سے پاک ہوگا …..جس قسم کا بھی جہاد کیا جائے گا بالآخر اس کا فائدہ جہاد کرنے والے کی ذات کو ہی پہنچے گا‘‘ ( تیسیرا القرآن )
مولانا محترم? کی مذکورہ تحریر اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ پہلے نمبر پر فرد کی اصلاح ہو پھر اس کے ذریعہ معاشرے کی تعمیر کی جائے جب یہ دوکام ہوتے رہیں گے تو اس بات کے امکانات بہت قوی ہوجاتے ہیں کہ ایک دن ریاست کی تشکیل ہوگی آج سے ستر، اسی برس قبل ان ہی اساس پر مصر میں جدوجہد کا آغاز ہوا اللہ نے انہیں کامیابی عطا فرمائی اور قرون اولی میں بھی ان ہی بنیادوں پر کوششیں ہوئی اور اللہ کی زمین پر دین اسلام کا پرچم بلند ہوا۔ مفکر اسلام حضرت سید ابوالاعلی مودودیؒ نے ’’مجاھدہ ‘‘ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے دل کو چھو لینے والی تحریر فرمائی کہ ’’مجاہدہ ‘‘ کے معنی کسی مخالف طاقت کے مقابلہ میں کشمکش اور جدوجہد کرنے کے ہیں اور جب کسی خاص مخالف طاقت کی نشان دہی نہ کی جائے بلکہ مطلقاً مجاھدہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ایک ہمہ گیر اور ہر جہتی کشمکش ہے ‘‘۔ مومن کو اس دنیا میں جو کشمکش کرنی ہے اس کی نوعیت یہی کچھ ہے اسے شیطان سے بھی لڑنا ہے جو اس کو ہر آن نیکی کے نقصانات سے ڈراتا اور بدی کے فائدوں اور لذتوں کا لالچ دلاتا رہتا ہے۔ اپنے نفس سے بھی لڑنا ہے جو اسے ہر وقت اپنی خواہشات کا غلام بنانے کیلئے زور لگاتا رہتا ہے۔ اپنے گھر سے لے کر آفاق تک کے ان تمام انسانوں سے بھی لڑنا ہے جن کے نظریات رجحانات،اصول اخلاق،رسم و رواج، طرز تمدن اور قوانین معیشت و معاشرت دین حق سے متصادم ہوں۔ اور اس ریاست سے بھی لڑنا ہے جو خدا کی فرمانبرداری سے آزاد رہ کر اپنا فرمان چلائے اور نیکی کے بجائے بدی کو فروغ دینے میں اپنی قوتیں صرف کرے۔ یہ مجاہدہ ایک دن دو دن کا نہیں عمر بھر کا اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے ہر لمحہ کا ہے اور کسی ایک میدان میں نہیں زندگی کے ہر پہلو میں ہر محاذ پر ہے، اسی کے متعلق حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں۔ ’’ان الرجل لیجا ھدو ماضرب یوما من الدھر بسیف‘‘ آدمی جہاد کرتا ہے خواہ کبھی ایک دفعہ بھی وہ تلوار نہ چلائے۔ (تفہیم القرآن) حاصل کلام حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ اس بات سے آگاہ فرمادیا کہ انسان کا اللہ پر ایمان لاکر اس کی راہ میں جہاد کرنا اور مشقتیں اٹھانا یہ ایسا عظیم عمل ہے جس سے ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے اور مجاہدہ کرنے ہی سے آدمی بدی و گمراہی اور خدائے تعالیٰ اور اس کے رسول برحق ﷺ کی نافرمانی کے چکر سے آزاد ہوکر،حق و صداقت کی طرف گامزن ہوسکتا ہے اور آگے مزید یہ نکھار پیدا ہوجاتا ہے اور اتنی قوت عطا کردی جاتی ہے کہ دنیا میں خیر و امن کا جھنڈا لہرا سکے اور اسی حالت میں جب یہ دنیا سے رخصت ہوجائے تو جنت و درجات جنت کا مستحق بنے۔ اس طرح آدمی مجاہدہ کر کے اللہ تبارک تعالیٰ پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ اپنا ہی فائدہ حاصل کرتا ہے۔ لیکن جس مجاہدہ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ اس میں ہر طرح کی قربانی پیش کرنی پڑتی ہے جس کے بغیر کامیابی کے منازل طئے کرنا دشوار ہے اور ان دشوار گذار گھاٹیوں کو پار کرنے والے بہترین نفوس پر مشتمل لوگوں کی سیرتیں ہمارے سامنے ہیں جنہیں ہم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ان میں کچھ لوگوں کو دنیا ہی میں جنت و درجات جنت کی بشارت سنادی گئی جنہو ںنے اپنی زندگی سخت مجاھدے میں بسر کی اپنے نفس کا تزکیہ کیا،شیطان سے نبرد آزما ہوئے اور وقت کے ظالموں اور جباروں کے سامنے اپنے کو نہیں جھکایا اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے ساتھ رہتا ہے اس بات کی گواہی قرآن یوں دیا ہے ’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیںگے اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے ‘‘۔ (ترجمانی عنکبوت آیت ۹۶) اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجاہدہ کرنے والوں کو اطمینان دلا دیا کہ تمہاری دستگیری و رہنمائی ہمیشہ کی جاتی رہے گی۔ حفیظ میرٹھی نے کیا خوب کہا ہے: کسی بھی قیصر و کسریٰ کو خاطر میں نہیں لاتے محمدؐ کے غلاموں کی ادا سب سے نرالی ہے ت ت ت