اونچی ذات جو ملک کا پیدائشی قائد سمجھتا ہے
اونچی ذات جو ملک کا پیدائشی قائد سمجھتا ہے
مشرف شمسی
ممبئی کے مغربی مضافات میں موجود میرا روڈ سبھی بنیادی سہولیات سے آراستہ ایک خوب صورت شہر ہے ۔اس شہر کی ایک خاص بات یہاں جھونپڑے نہیں ملینگے ۔لیکن میرا آج میرا روڈ پر کوئی مضمون لکھنے کا ارادہ نہیں ہے ۔
میرا روڈ میں ریلوے لائن سے لگ کر ایک خوب صورت اور بڑا گارڈن جاگرز پارک ہے جہاں میرا روڈ کے لوگ صبح اور شام اپنی جسمانی فٹنس درست کرنے کے لیے آتے ہیں ۔عورت ،مرد،بوڑھے اور بچّے سبھی اس گارڈن سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
میں بھی کئی سالوں سے صبح صبح اس گارڈن میں اپنی جسمانی فٹنس کو بنائے رکھنے کے لیے جاتا رہا ہوں ۔جیسا کہ ممبئی کے تقریباً سبھی گارڈن کی طرح اس گارڈن میں بھی آر ایس ایس کے کارکن یا اس نظریہ کی حمایت کرنے والوں کا بول بالا ہے۔
آر ایس ایس کے بارے میں بتا دوں اس تنظیم کی ہزاروں اسکولیں پورے بھارت میں چل رہے ہیں جہاں وہ اپنے نظریے کو فروغ دیتے ہیں اور ان اسکولوں میں پڑھ کر نکلنے والے میں کچھ آر ایس ایس کی رکنیت حاصل کرتے ہیں لیکن ممبئی جیسے بڑے میٹرو پولیٹن سٹی میں آر ایس ایس کے لوگ ہر ایک پارک اور گارڈن میں اپنی نظر بنائے رکھتے ہیں جہاں نوجوان لڑکوں کو اپنی تنظیم سے جوڑنے کا کام کرتے ہیں ۔
میرا روڈ کے جوگرس پارک میں زیادہ تر اونچے طبقے کے لوگ یعنی دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو پیٹ بھرے لوگ نظر آتے ہیں۔
-
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- مسلم نوجوانوں پر نصیحتوں کا پہاڑ
- ٹھاکرے کا بیان اور بہار میں بی جے پی اقتدار سے بے دخل
ویسے بھی ممبئی کی زندگی سے جو لوگ واقف ہیں اُنھیں معلوم ہے کہ ممبئی کی بھاگ دوڑ زندگی میں آفس سے گھر اور گھر سے آفس آنے جانے میں پوری زندگی بیت جاتی ہے۔جسمانی فٹنس کے لئے گھنٹے دو گھنٹے نکالنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔کئی سال سے مسلسل اس جاگرس پارک میں جانے سے اپنا بھی ایک حلقہ بن گیا ہے۔
ایک ڈیڑھ گھنٹہ ورک آؤٹ کرنے کے بعد کچھ دیر ہملوگ آپس میں میرا بھایندر سمیت ملک کی سیاست پر بھی بات چیت کر لیتے ہیں۔سیاست پر جب بات چیت کرتے ہیں تو نظریے کا اختلافات ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی بحث مباحثہ دل شکنی تک نہیں پہنچ پاتا ہے ۔
ہاں ہم سب ایک دوسرے کو سمجھ چکے ہوتے ہیں کہ کس کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے يا كس نظریے سے ہے ۔ لیکن یہ پارک صرف ایک دوسرے سے پہچان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس پارک کو اچھی طرح سے مشاہدہ کریں تو ملک میں موجود ذات پات اور اس سے بنا سماجی ڈھانچہ یہاں صاف نظر آتا ہے۔صرف ذات پات ہی نہیں بلکہ ہندوؤں کی اونچی ذات عام مسلمانوں سے نفرت اور خوفزدہ کیوں ہے اس کا جواب بھی آسانی سے مل جائے گا ۔پارک میں میرے ملنے والوں میں ایک اسٹیٹ ایجنٹ کا کاروبار کرنے والے گپتا جی بھی ہیں۔
ایک دن ایکسرسائز کر کے ہم لوگ پارک میں موجود جھولا پر ساتھ بیٹھے محو گفتگو تھے تو گپتا جی نے اچانک پوچھا کہ مشرف بھائی اس پارک میں زیادہ تر تیواری،شکلا ،پانڈے اور دوبے ہی نظر آتے ہیں ۔نچلی ذات کے لوگ تو نظر ہی نہیں آتے ہیں ۔جو بھی ملتا ہے اونچی ذات سے تعلق رکھنے والا ملتا ہے یا پھر مسلم ہے۔
میں نے گپتا جی سے کہا نچلی ذات کے لوگ بھی یہاں آتے ہونگے کیونکہ ھملوگ سبھی کو نہیں جانتے ہیں لیکن وہ لوگ نیتا گیری نہیں کرتے ہیں اس لیے وہ نظر نہیں آتے ہیں ہاں اُنکی تعداد بہت ہی کم ہے۔ گپتا جی سے میں نے کہا کہ گارڈن میں دو گھنٹے کا وقت کون دے سکتا ہے تو انہوں کہا کون میں نے کہا جس کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ تو اپنے صحیح کہا ورنہ صبح لوکل پکڑنے والے کہاں گارڈن آئیں گے ۔
پھر گپتا جی نے کہا کہ میں آپکی بات سمجھ گئے کہ ملک میں جن سماج سے زیادہ تر پیٹ بھرے لوگ آتے ہیں وہ ہندوؤں کی اونچی ذات سے آتے ہیں ۔پھر میں نے پوچھا یہ لوگ مسلمانوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں ۔تو گپتا جی نے کہا کیوں؟۔
تو میں نے کہا کہ ان اونچی ذات کے ہندوؤں سے آنکھ سے آنکھ ملا کر اور انکے پروپیگنڈے اور جھوٹ کو بے نقاب کرنے کا حوصلھ کون دکھاتا ہے تو وہ مسلمان ہے۔میں نے کہا کہ یہ پارک مسلم محلوں سے کافی دور ہے۔پھر بھی کافی لوگ مسلم محلّہ نیا نگر سے یہاں آتے ہیں اور اپنی شناخت کے ساتھ آتے ہیں ۔عورتیں برقع پہن کر آتی ہیں اور داڑھی ٹوپی والے مسلم مردوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہیں۔
اس لیے ان اونچی ذات کے لوگوں کے پیٹ میں درد ہوتا ہے ۔ساتھ ہی پڑھیے لکھے مسلم سے یہ اونچی ذات کے لوگ جو اپنے آپ کو پیدائشی ملک کا رہ نما مانتے ہیں کسی بھی موضوع پر بات نہیں کر سکتے ہیں۔
میں نے گپتا جی سے کہا کہ اس پارک سے آپ پورے بھارت کی سماجی سسٹم کی تصویر کو دیکھ سکتے ہیں ۔میں نے کہا کہ گپتا جی یہ اونچی ذات کے لوگ صرف اس پارک پر ہی نہیں ملک کی سبھی سسٹم پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور انہیں چیلنج صرف مسلمان کرتا ہے تو مسلمانوں سے یہ اونچی ذات اپنے دم پر کسی بھی محاذ پر مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں ۔
جب مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں تو ہندو ایکتا کی بات کرنے لگتے ہیں ۔گپتا جی نے کہا کہ آپ سو فیصدی صحیح بات کر رہے ہیں ۔یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ملک کی رہنمائی میرے ہاتھ سے نکل جائے۔گپتا جی نے کہا کہ مسلمان دلت اور نچلی ذاتوں کے ساتھ مل جاتے ہیں تو ان کی اجاداری سماج اور سیاست سے ختم ہو جاتی ہے ۔
اس لیے یہ اونچی ذات کے لوگ مسلمانوں کا ڈر دیکھا کر ہندو ایکتا کی بات کرتے ہیں لیکن دلت اور پچھڑی ذات کو کسی طرح کی ریایت نہیں دینا چاہتے ہیں ۔
گپتا جی کو میں نے کہا جس دن یہ مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی حثیت ختم کر دیئے اس دن سے پندرہ فیصد اس اونچی ذات کی اجارادی کو ختم کرنے اور ان کی غلامی سے مکت ہونے میں پچاسی فیصد ہندوؤں کو پتہ نہیں کتنے سال لگیں گے ۔لیکن ان پچاسی فیصد ہندوؤں کو ابھی کچھ نہیں سمجھ میں آ رہا ہے ۔
Mobile : 9322674787