یومِ آزادی سے یومِ جمہوریہ تک
یومِ آزادی سے یومِ جمہوریہ تک
حافظ افتخاراحمدقادری
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزوں سے فیصلہ کن جنگ کی تاریخ ۳۱( مئی ۱۸۵۷ء کو طے ہوئی مگر بہادر شاہ ظفر جنگ ہارگئے اور انگریز جنگ جیت گیے۔
انگریزوں نے اس جنگ کو غدر کا نام دیا۔انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو قید کر کے رنگون روانہ کر دیا۔اس وقت دہلی میں قتل عام ہوا جس کےبارے میں بتایا جاتا ہے کہ دہلی سے میرٹھ تک کے سڑک کنارے موجود کوئی بھی درخت ایسا نہیں تھا جس درخت پر ایک ایک لاش نہ لٹکائی گئی ہو۔دوسرے روایت دہلی سے پشاور تک کی ہے جو مشہور ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس قتلِ عام میں سات ہزار سے زائد علماء کو شہید کیا گیا کافی خون خرابا ہوا تھا۔
اُس وقت سر سید احمد خان نے موقع کو غنیمت سمجھ کر اور حالات کا اندازہ لگا کر مسلمانوں کو انگریزی تعلیم کی طرف توجہ دینے کی تحریک شروع کی اور سخت مخالفتوں کے باوجود ۱۸۷۵ء میں (علی گڑھ میں) کالج کی بنیاد رکھی جس کا شمار آج معروف و مشہور یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔
سر سید احمد خان کی اس تحریک کے ردعمل میں پہلے علی گڑھ اور اس کے بعد دہلی میں ۱۹۲۵ءمیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی یہ سب انگریزوں اور انگریزی حکومت کے ردعمل کا نتیجہ تھا۔۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے نام سے ایک غیر سیاسی پارٹی وجود میں آئی جو بعد میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔
اس پارٹی کا مقصدِ واحد ملک کی آزادی قرار پایا کہ کسی طرح ملک ہندوستان آزاد ہو جائے۔اس وقت کے علما انگریزوں اور انگریزی حکومت کے سخت مخالف تھے اس لیے اس وقت کے علما کا ایک بڑا طبقہ کانگریس پارٹی میں شامل ہوگیا اور ان علماء کا مقصدِ واحد بھی صرف یہی تھا کہ کسی نہ کسی طرح ہندوؤں سے مل کر اپنے ملک کو آزاد کرایا جائے
۔ ۳۰/ دسمبر ۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد یہ تھا کہ انگریزی حکومت کے سامنے مسلمانوں کے مسائل رکھے جائیں۔اس وقت مسلم لیگ کا یہ پہلا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے الیکشن میں حصہ داری شامل کی جائے۔اس وقت کانگریس پارٹی سیکولر جماعت تھی مگر اس زمانے میں کٹر ہندؤں نے اس پارٹی پر کنٹرول حاصل کر لیا اور سیکولر ہندؤں کو خاموش رکھنے میں کٹر پسند ہندو کامیاب رہے۔
اس وقت کانگریس پارٹی میں جو بڑے بڑے مسلمان تھے۔اُنہوں نے اسی میں مصلحت جانا کہ پہلے ملک آزاد کرائیں اس کے بعد آپس میں بیٹھ کر معاملہ طے کر لیا جائےگا مگر اس مقصد میں مسلمانوں کو کام یابی حاصل نہ ہوسکی اور کانگریس پارٹی آہستہ آہستہ کٹر پسند ہندوؤں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے راستے الگ الگ ہوتے گئے اور مسلم لیگ مسلمانوں کی جماعت بن کر رہ گئی
۔ ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء میں ہندوستان کو آزادی ملی۔انڈیا سے ہندوستان اور ہندوستان سے بھارت بننے والے اس ملک کے پہلے گورنر جنرل راجہ گوپال اچاریہ مقرر ہوئے۔ملک آزاد ہوا۔انگریز اس ملک سے چلے گیے۔مسلمانوں کے اکثر بڑے سیاست دان بھی ہجرت کر گئے لیکن اس وقت ہندوستان کے مسلمان کیا کرتے کہاں جاتے۔
آج ہندوستان آزاد ہوئے کئی سال ہوگئے اور ۷۸ واں یومِ آزادی آن پہنچا مگر آپ دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے اور بتائیے کہ ہم ۲۰۲۵ء میں کتنے آزاد ہیں؟آج ہمارے ملک کی کیا حالت ہے؟ہمارا ملک آج کس راہ پر گامزن ہے؟آج ہمارے ملک میں کس کے ساتھ کتنا انصاف رواں رکھا جاتا ہے۔
نہ جانے کتنی ہی لوگ انصاف کے خاطر چیخ چیخ کر اپنی قیمتی جانوں کو گواں دیتے ہیں،مہینوں نہیں بلکہ سالہا سال کورٹ کچہری کے چکر لگاتے ہیں لیکن انہیں انصاف نہیں مل پاتا،آج ہمارے ملک کی کتنی مساجد جو بین الاقوامی شہرت یافتہ کا درجہ رکھتی ہیں ان مساجد میں کتنی مسجدیں ہمارے اپنے اختیار میں ہیں اور کتنی مساجد کو فرقہ پرستوں نے حکومت کا سہارہ لے کر زمین بوس کردیا اور کئی مساجد پر ابھی بھی نگاہیں گڑائے بیٹھے ہیں؟۔
آج ہمارے ملک کی جیلوں میں نہ جانیں کتنے لوگ بلا وجہ سلاخوں کے پیچھے سزا کاٹ کر اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟آج اگر آپ ان لوگوں کی زندگی کا محاسبہ کریں جو بلا وجہ جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے ان میں اکثریت ایسی ہوگی جو بے گناہ ہوں گے۔
غور کیجئے گا تو آج ۷۸ سال بعد بھی بجلی،پانی،صحت اور ان جیسے نن جانیں کتنے بنیادی مسائل آج بھی جوں کے توں باقی ہیں بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔فرقہ وارانہ فسادات ،ہندو مسلمان کا سہارا لے کر آپس میں ٹکراؤ، سرکاری ملازمتوں میں تعصب ،بیرونی خطرات ،مساجد و مدارس کا خطرہ،ذات برادری کے جھگڑے ،فلموں کے ذریعے جنسی آزادی کی تبلیغ،زندگی کے ہر شعبے میں کھلے عام رشوت وغیرہ یہ جیسے کئی مسائل میں آج ہم الجھے ہوئے ہیں۔
سیاست دانوں کو بھی آج ان عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں اُنہیں بس اپنے کام سے کام۔کوئی بھی سیکولر ملک اسی وقت ہمہ جہت ترقی کرسکتا ہے جب اس کا اندرونی ماحول پر سکون اور خوشگوار ہو اور اگر ملک کے کسی گوشے میں جارحیت کا رجحان پایا جائے تو اس کا کنٹرول کیا جائے اور اس کی اصلاح کی ہر ممکنہ تدابیر اختیار کی جائیں
لیکن افسوس کہ اس جمہوری ملک میں بجائے اس کے کہ جارحیت کے بڑھتے رجحان کو لگام لگائی جاتی اور اس کی اصلاح کے لیے ٹھوس اقدامات کئے جاتے، بلکہ یہاں کے مسلمانوں کو تنگ نظر ،متعصب، ظالم اور جارح گردانا جارہا ہے
تاکہ اپنی جارحیت کے لیے وجہ جواز فراہم کی جاسکے اور اس بات کو ثابت کیا جاسکے کہ اگر ہمارے اندر جارحیت ہے تو یہ مسلمانوں کی جارحیت کا رد عمل ہے اور یہ سب کچھ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت ہورہا ہے جس کے لیے مسلم شاہان ہند کی ہزار سالہ روشن و تاب ناک تاریخ حکمرانی بڑی تیزی کے ساتھ بھیانک شکل دی جارہی ہے اور اسے ہندو مسلم کشمکش کی تاریخ بلکہ شاہان ہند کے ظلم و بربریت اور ہندوؤں کی مظلومی وغلامی کی تاریخ میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ سب اس ناپاک مقصد کے تحت کیا جارہا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو برادرانِ وطن کی نگاہ میں اس قدر بدگمان کردیا جائے کہ وہ کسی بھی مسلمان کو جہاں کہیں بھی دیکھیں شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھیں اور اضطراری طور پر مسلمان ہر جگہ خائف و ہراساں رہیں اور اپنی تعلیم و ترقی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں
کیوں کہ یہ سب کچھ اس ناپاک ذہنیت کے ساتھ کیا جارہاہے کہ پے در پے کے فسادات کے ذریعے ملک کے ماحول کو اس قدر مسموم بنا دیا جائے، اس قدر خوف زدہ بنا دیا جائے کہ مسلمان یا تو نقل مکانی کر جائیں یا یہاں انہیں ہمیشہ اپنی جان و مال کی حفاظت و صیانت کی ہی فکر دامن گیر رہے،اس سے آگے وہ سوچ بھی نہ سکیں۔
ملک کی آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کے حالات کا اگر جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ شرپسند عناصر بہت حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہیں کیونکہ آزادی کے سورج کو طلوع ہونے کے بعد سے لے کر آج تک نجی طور پر ہو کہ قانونی و دستوری طور پر،مسلمان جس قدر اپنی جان و مال کے تحفظ کے لیے اپنی انرجی صرف کر رہا ہے اس قدر شاید کسی اور بات میں کررہے ہوں۔
آج ضروت اس بات کی ہے کہ بھارت کے مسلمان ان مقاصد کو سمجھیں جن کی خاطر ان کے بیشتر کی نسلوں نے اپنی انمول جانوں کی قربانیاں دے کر سچی آزادی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے کوششیں کی تھیں۔
آج انہی لاتعداد جاں بحق لوگوں کا لہو پکار پکار کر موجودہ نسل کو غور وفکر کا پیغام دے رہا ہے کہ ابھی اس ملک میں سچی آزادی اور حقیقی جمہوریت کا قیام عمل میں نہیں آیا، اس منزل تاباں پر پہنچنے کے لیے ہمیں انتھک محنت کرنا ہوگی اور اپنے آبا و اجداد کے نقشِ قدم پر چل کر قربانیوں کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ورنہ یوں ہی ظلم ہوتا رہے گا اور بے گناہ ستائے جاتے رہے ہیں۔
یومِ جمہوریہ ۲۶/ جنوری کو جب بھارت کا دستور مرتب کیا گیا تو بنیادی حقوق کی دفعات میں ہر شہری کو مذہب کی آزادی،اپنے مذہبی رسم و رواج پر عمل کی آزادی،اپنے تہوار منانے اور مذہبی وتہذیبی خصوصیات کے ساتھ رہنے اور اپنے مذہب کی تبلیغ وترویج کی آزادی ،مذہبی تقریبات کی آزادی، اپنے مذہب،زبان وتہذیب کے تحفظ اور فروغ کے لیے ادارے قائم کرنے کی آزادی دی گئی تھی۔
جب ہمارا ملک ہندوستان آزاد ہوا تو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی رہ نمائی میں دستور ساز کمیٹی تشکیل دی گئی اس کمیٹی نے شریعت ایکٹ ۱۹۳۷ء کو جوں کا توں برقرار رکھا آج اسی کو مسلم پرسنل لا کہتے ہیں۔
جو آج بھی ہمارے عدالتی نظام میں رائج ہے لیکن افسوس!آج یہ ہمارے حقوق ہم سے چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔۲۶/ جنوری کو ہندوستان میں ،،یوم جمہوریہ،، کے یادگار دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہندوستان نے برطانیہ کے تسلط سے یوں تو ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء کو آزادی حاصل کی تھی لیکن ہندوستان کا آئین ۲۶/ جنوری ۱۹۵۰ء کے دن قائم کیا گیا تھا۔
لہٰذا!حکومتی سطح پر یہی دن ۲۶/ جنوری ہندوستان کے جمہوری مملکت ہونے کے مبینہ اظہار کا دن قرار دیا جاتا ہے اور اسی دن ڈاکٹر راجندر پرساد ہندوستان کے پہلے صدرِ جمہوریہ کے طور پر منتخب کیے گیے تھے۔۲۶/ جنوری یومِ جمہوریہ کے اسی دن ہر سال ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں ایک عظیم فوجی بریڈ کی نمائش ہوتی ہے۔ آرمی نیوی اور ایر فورس کی قوتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
صدر ہندوستان جو کہ ہندوستانی مصلح فوج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے اس موقع پر فوج کی سلامی لیتا ہے۔ یومِ جمہوریہ کے اس پریڈ میں شرکت کے لیے مہمان خصوصی کے طور پر دوسرے ملک کی اہم شخصیات کو دعوت دی جاتی ہے اور یومِ جمہوریہ کو سارے ہندوستان میں تعطیل منائی جاتی ہے۔
کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت
رابطہ:8954728623 iftikharahmadquadri@gmail.com