سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن

Spread the love

پس پرد ہ سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن سربراہ ملک اپنے اور غیر کے درمیان فرق کرنے لگے ،توقانون کی حکمرانی قائم نہیں رہ سکتی

ڈاکٹر غلام زرقانی چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکہ

برطانوی سامراجیت کے دورمیں بادشاہ وقت کی اجازت سے مقرر کردہ گورنر مجرم کو معاف کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔اس لیے معافی جرم کا تصور دنیا کے لیے اجنبی نہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ نے آزادی حاصل کی اور ترتیب آئین کا مرحلہ آیا، توحق معافی پر کافی بحث ہوئی ۔ کچھ ذمہ داروں کا خیال تھا کہ یہ حق ملک کی پارلیامنٹ کو دیا جائے ، جب کہ ملک کے پہلے وزیر خزانہ الیگزینڈرہیملٹن نے ساتھیوں پر دباؤ ڈالا کہ اسے صدر کے پاس ہونا چاہیے ۔

انھوں نے دلیل یہ دی کہ حق معافی اگر پارلیامنٹ کے پاس رہے ، تو کسی بغاوت یا ناگہانی مشکلات کے دور میں اسے بروئے کار لانے میں کافی وقت لگ جائے گا، جب کہ صدر کے ذریعہ اسے جلد ہی عملی جامہ پہنایا جاسکے گا۔ اس طرح آرٹیکل دوم سیکشن دوم میں اسے امریکہ کے صدر کے اختیارات میں شامل کرلیا گیا۔ خیال رہے کہ امریکی آئین کے مطابق حق معافی چارطرح سے استعمال کی جاسکتی ہے ؛پہلا pardon،دوسرا Amnesty، تیسرا Commutation اورچوتھاReprieveیعنی پہلے سے مراد یہ ہے کہ کسی خاص شخص کو نامزد کرکے اسے معافی دی جائے ، دوسرے سے مراد یہ ہے کہ ایک طرح کے جرم میں جو بھی شامل ہو، ان سب کو معاف کردیا جائے ، تیسرے سے مراد یہ ہے کہ کسی کو دی ہوئی سزا کم کردی جائے ، جب کہ چوتھے سے مراد یہ ہے کہ کسی کے خلاف سزا کے فیصلے کو موخر کردیا جائے ۔ تاریخی طورپر ۱۷۹۵ء؁ میں سب سے پہلے صدرجارج واشنگٹن نے اس حق کا استعمال کیا ۔

انھوںنے شراب کے خلاف نافذ شدہ قانون کی مخالفت میں اٹھنے والی تحریک میں سزایافتہ دوافراد کی سزا معاف کردی ، تاکہ پھیلتی ہوئی بغاوت کی آگ ٹھنڈی کی جاسکے۔ اور اس کے بعد امریکہ کے ہر صدر نے کم وبیش حق معافی کا استعمال کیا ہے۔ تاہم یہ بات خصوصی طور سے قابل توجہ ہے کہ آئین میں اس کی شمولیت کا مقصدتویہ تھا کہ اس کے ذریعہ قومی مفاد کے پیش نظر کسی بغاوت یا سرکشی یا کسی ناگہانی مصیبت سے نپٹنے کی کوئی قابل عمل راہ تلاش کی جائے، لیکن افسوس صدافسوس کے رفتہ رفتہ یہ حق اپنے احباب اور دوستوں کے لیے ایک ڈھال کی طرح استعمال ہونے لگا ہے۔ اور موجودہ صدر ٹرمپ نے تو اس پس منظر میں ساری حدیں توڑ دی ہیں ۔

اب یہی دیکھیے کہ چار سالوں پہلے جب صدر ٹرمپ انتخابات ہار گئے تھے، توانھوںنے نہ صرف خود نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا، بلکہ اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے پوری کوشش کی کہ ملک کے ذمہ دارعہدوں پر فائز افراد بھی اسے رد کردیں۔

اسی سلسلے میں امریکی ضابطے کے مطابق انتخابی نتائج کی آخری توثیق کے لیے منعقدہونے والے پارلیمانی اجلاس کےدوران ۶؍جنوری ۲۰۲۰ٔٔء؁ کی صبح صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پارلیامنٹ سے چند گزکے فاصلے پر پورے ملک سے اپنے حمایتی جمع کیے ، جس میں مقررین نے نہایت ہی جذباتی تقاریر کیں اور سامعین سے اپیل کی کہ وہ انتخابی نتائج کی توثیق کے لیے ہونے والے اجلاس کے خلاف احتجاج کریں ۔

اب کیا تھا، پورا مجمع نہایت ہی جذباتی ہوگیا اورپروگرام کے اختتام پر سب پارلیامنٹ پہنچ گئے ۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح فسادیوں نے پارلیامنٹ کاوقار مجروح کیا۔ بعض گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئے ، کچھ چھت پر چڑھ گئے ،کچھ کھڑکیا ں توڑ کر زور آزمائی کرتے رہے۔ یہ تماشا سات گھنٹے تک جاری رہا۔

اس درمیان ۱۴۰ پولس آفسر زخمی ہوئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموش رہے اور اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی، یہاں تک کہ جب منتخب صدر جوبائیڈن نے سخت لب ولہجہ میں انھیں خبردار کیا، توجناب حرکت میں آئے اور فسادیوں کومحاصرہ ختم کرنے کا حکم دیا۔ میں عرض یہ کررہاتھا کہ متذکرہ بالا افسوس ناک حادثہ کے ذمہ داروں کے خلاف گذشتہ چارسالوںسے تحقیقات ہوتی رہیں اورتقریبا ۱۶۰۰ مجرم قرار دیے گئے ۔

حیرت بالائے حیرت تویہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت کے پہلے ہی دن سب کو معاف کردیا ۔ ان میں سے بعض کی سزائیں کم کرکے انھیں رہا کرنے کا حکم دے دیااور تقریبا ۳۰۰ مجرمین کے زیر التواکیس ختم کردیے ۔ خیال رہے کہ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے ، جنھوں نے مائیکل فینان نامی پولس آفیسر پر مرچ اسپرے ڈالے اور انھیں زدوکوب کیا، جس کے نتیجے میں وہ انتقال کرگئے تھے۔

اور طرفہ تماشہ تویہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے حق معافی کا استعمال کرتے ہوئے جو کہاہے ، وہ نہایت ہی مضحکہ خیز ہے ۔ جناب کہتے ہیں کہ یہ سب گذشتہ دور حکومت میں یرغمال رکھے گئے ، جنھیں رہا کیا جارہاہے۔ اندازہ لگائیے کہ ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے سولہ سو فسادیوں کو صرف اس لیے معاف کررہے ہیں کہ انھوںنے پارلیامنٹ کا محاصرہ، توڑ پھوڑ اور پولس پر حملہ وغیرہ جو کچھ بھی کیا ، وہ اُن کی حمایت اور محبت میں کیا ہے۔

اظہار عفو ودرگزر کا یہ معیار کس قدر افسوسناک ہے ، یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولس افسرا ن جو متذکرہ واقعہ میں فسادیوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے ، انھوں نے صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی معافی سے ان کا حوصلہ پست ہوا ہے اور فتنہ وفساد پھیلانے والوں کی پذیرائی ہوئی ہے ۔ چلیےفرض کیے لیتے ہیں کہ متذکرہ بالا سولہ سو میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے ، جو غیر ارادی طورپر جرم کربیٹھے

لیکن یہ کسی طورتسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ مجرمانہ اقدامات کے لیے کوئی بھی ذمہ دار نہ ہو۔ بلکہ کہا یہ جارہاہے کہ معافی دیے جانے والوں میں سینکڑوں ایسے ہیں ، جنھوں نے عدالت میں خود اعتراف جرم کیا ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ ایسے افراد کی معافی سے معاشرے میں غلط پیغام پہنچ رہاہے ، جو مستقبل میں ملک اور قومی مفادات کے لیے نہایت ہی خطرناک ثابت ہوگا۔

کیا یہ بات سوچنے کی نہیں کہ جب اعلیٰ عہد ہ پر بیٹھا ہوا صدر جرم وسزا کے معاملے میں اپنے اور غیروں کے درمیان فرق کرے، توکیا یہ ممکن نہیں کہ نچلے درجے کے عہدے داران بھی اسی نقش قدم پر چل پڑیں۔

صاحبو! عام طورپر امریکہ کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے توپوری دنیا میں احتجاج ہوتارہاہے ، لیکن ایسا کم ہوا ہے کہ داخلی سطح پرعدل وانصاف کے پیمانے اپنے لیے کچھ اور غیروں کے لیے کچھ اور رہے ہوں ۔ یہاں خواہ فائدہ پہنچانے کی بات ہو یا مواخذہ کرنے کاموقع، ہر دومعاملے میں یکساں پالیسی اپنائی جاتی ہے ۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ عام طورپر امریکی انتظامیہ اپنے شہریوں کو فائدے پہنچانے کے لیے نہ تو رنگ ونسل ، دین وملت اور تذکیر وتانیث کے درمیان فرق کرتی ہے اور نہ ہی سزائیں دینے کے حوالے سے ، لیکن صدر ٹرمپ کے حالیہ اقدامات نے ایک نئی افسوسناک راہ کھولی ہے ، جو اگر پروان چڑھ گئی ، تویہ ملک بھی لاقانونیت کا شکار ہوجائے گا۔

اور کہنے دیا جائے کہ امریکہ اور یورپ قانون کی حکمرانی کے پہلوسے ہی ساری دنیا میں اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں اور اگریہی امتیازی پہلو مخدوش ہوجائے ، توپھر آنے والے دور میں اس کے نہایت ہی خطرناک نتائج ظاہر ہوں گے

ghulamzarquani@yahoo.com

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *