داڑھی ہمارا یونیفارم ہے
داڑھی ہمارا یونیفارم ہے
محمد فہیم الدین بجنوری
رب کریم، ان تمام متاخرین اہل علم کو معاف فرمائے، جنھوں نے داڑھی رکھنے کو اختیاری قرار دیا، عربوں کو اس اجتہاد کا سہارا فراہم ہوا اور عجمیوں کو عربی مثالیں، یوں امت اپنے یونیفارم سے محروم ہوگئی۔
زندہ قوم کے اجتماعی وملی وجود کے لیے یونیفارم ناگزیر ہے، ریش کو مجرد بالِ رخسار گرداننے والے یہ بھول گئے کہ ان کے اقدام نے تشخص کے ساتھ سمجھوتہ کیا ہے، شناخت مفقود ہونے کے بعد آپ پراگندہ، بے سمت، اور متاع گم گشتہ ہیں، منادی غیر متعین ہو تو ندا، اندھے لاچار کی آواز ہوتی ہے، پھر الزام قائدین کے سر کس منھ سے رکھتے ہو؟
قیادت قوم کی ہوسکتی ہے، آوارگان کی نہیں۔”مونچھ تراشو، ریش بڑھاؤ، ازار ٹخنوں سے اوپر رکھو، فلاں فلاں اقوام سے وضعی دوری بناؤ” یہ تمھارے رسول کے الفاظ ہیں، اگر یہ یونیفارم کا سیاق نہیں ہے تو ہمیں بتائیں کہ وہ متوازی صیغے کیا ہو سکتے تھے؟
اور (نعوذ باللہ) واضح ہدایت کے حوالے سے، فرمانِ رسالت میں تکنیکی طور پر کیا تقصیر رہ گئی؟ اسلام کو زیب دیتا ہے کہ داڑھی اس کا یونیفارم ہو؛ کیوں کہ یہ جملہ انبیاء کی سنت ہونے کے علاوہ آواز فطرت بھی ہے اور اسلام سابقہ تمام آسمانی رابطوں کی وراثت کا علم بردار ہے اور اپنے منہج کو راہ فطرت کہتا ہے۔
امت کی تشکیل میں داڑھی کا کردار کلیدی تھا، فقہی کتابیں جب اس پر بحث کرتی ہیں تو قطع وبرید میں ہنود ومجوس کے بیرونی حوالے دینے پر مجبور نظر آتی ہیں، گویا ریش کی پابندی پر امت کا عملی اجماع رہا، اسی اجماع سے دور جدید کے مجتہدین کو دھوکہ ہوا اور وہ داڑھی کی بحث کے اختصار کو دیکھ کر تساہل کا شکار ہوگئے؛ جب کہ یہ اختصار، تحقیق کے غیر ضروری ہونے کا مظہر تھا
مگر کوتاہ فہموں نے اسے غیر اہم پر محمول کر لیا، نوبت بہ ایں جا رسید کہ اب ہم اپنے بچوں کو پابند بنانے پر بھی زیر بحث ہیں۔