افسانہ امر پریم

Spread the love

اردو زبان و ادب سے شغف رکھنے والے باذوق قارئین کی خدمت میں عشق مجازی پر مشتمل ایک رومانوی افسانہ، بنام امر پریم

از قلم عبدالصبور سلامی

( قسط اول)

کسی نے سچ ہی کہا ہے، اور یہ ایک شہرہ آفاق حقیقت ہے، کہ پیار امر ہے پیار کبھی نہیں مرتا، موت بدن کو اتی ہے لیکن روح کا جلوہ باقی رہتا ہے، اس خاک دان گیتی پر ہمیشہ پیار کرنے والے ملے ہیں، یہ دھرتی پhیار کرنے والوں سے کبھی خالی نہیں رہی، یہ آئینۂ محبت تو وہی ہے، چہرے بدل جاتے ہیں، یہ تماشہ گاہ عالم تو وہی ہے، لیکن کردار بدلتے رہتے ہیں یہاں کبھی شیریں فرہاد جنم لیتے ہیں، تو کبھی ہیر رانجھا کے وجود آماج گاہ عشق پر جلوہ افروز دکھائی دیتے ہیں، کبھی سوہنی مہیوال تو کبھی لیلی مجنوں کی لافانی داستان محبت عالم وجود میں آتی ہے، کچھ اسی طرح آصف کی کہانی بھی محبت کے آفاقی جذبات لیے منظر عام پر آتی ہے، آصف، ایک شکیل و خوبرو نوجوان، حسن و زیبائی کا ایک گل رعنا ،کالج میں ہر طالب علم کا محبوب نظر، نہایت خوش وضع ،بار حیا سے پلکیں ہمیشہ جھکی رہتیں تھیں، کالج میں ہزاروں مہجبینوں کے درمیان بھی بے داغ جوانی کا حامل ،جس کے انگ انگ سے کردار کا تقدس جھلکتا تھا، لطیف اور پاک باز حسن کی دلکشی بھی کتنی سحر انگیز ہوتی ہے-؟ ایک آصف ،اپنے کالج کے جمالستان میں ان گنت آرزوؤں کی آماجگاہ بن گیا تھا، اسے خود معلوم نہ تھا ، کہ تصورات کی کتنی انجمنوں میں اس کی یادوں کے چراغ جل رہے ہیں، شاید اس سے زیادہ وہ کچھ نہ جانتا تھا، کہ ایک طالب علم کے تمام ارمانوں کا محور اور مرکز صرف حصول تعلیم ہے، اس وجہ سے وہ اپنے حسن کی تسخیر سے بے نیاز ،کتابوں کے مطالعے، مضامین کی تخلیق و ترتیب، نیز علمی مباحث کی تحقیقات میں ہر لمحہ منہمک رہتا تھا، علاوہ ازیں تأدیب و تہذیب ،اخلاص و ایثار، ضبط نفس، خودداری، شائستگی وملنساری، یہ تمام خوبیاں قدرت نے بڑی فیاضی کے ساتھ اسے عطا فرمائی تھیں، یہی وجہ تھی کہ کالج کے سبھی طلبہ و طالبات حتی کہ تمام اساتذہ آصف کے گرویدہ ہو گئے تھے، خاص کر عامر،آصف کے گہرے دوستوں میں سے ایک تھا، عامر نے کئی بار آصف کو چھٹیوں میں اپنے گھر بلانے کی کوشش کی، لیکن آصف کی خودداری نے کبھی بھی اس کے مطالبہ کو قبول نہیں کیا، اور وہ کسی نہ کسی بہانے سے انکار کرتا رہا، آصف ایک شام جب حسب عادت کالج کی لائبریری میں کسی کتاب کے مطالعے میں منہمک تھا ،تو عامر نے بڑے پر مسرت لہجے میں آصف کے قریب آ کر کہا،، آج تو اپ کا ہمارے گھر آنا ضروری ہے ، آج تو کوئی حیلہ بہانہ نہیں چلے گا،، یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی بہن ناہیدہ عثمانی کا برتھ ڈے کارڈBirth day card آصف کی طرف بڑھا دیا ،کچھ پس و پیش کے بعد آصف راضی ہو گیا، اور بولا،، ناچیز اس حسین موقع پر آنکھوں کے بل چل کر حاضر ہوگا،، عامر، امیر باپ کا اکلوتا لڑکا ضرور تھا، لیکن کبر و نخوت سے اسے انتہائی نفرت تھی، اس کے سینے میں ایک درد مند دل تھا، اس لیے آصف نے اس کی دل آزاری سے بچتے ہوئے ا ثبات میں ہی جواب دیا، پھر دونوں نے کینٹین میں چائے پی اور رخصت ہو گئے، دوسرے روز جب دن ڈھلا اور شام ہونے لگی، سورج اپنا سفر یومیہ مکمل کر رہا تھا، اس کی آخری کرنیں کوہسار کی چوٹیوں پر جھلملا رہی تھیں، اس وجہ سے شہر کی رونق میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا، گویا رنگ و نور میں ڈوبی ہوئی شام تھی، اور آصف شہر کی عام شاہراہوں سے بڑی شان بے نیازی کے ساتھ نہایت پروقار انداز میں گزر رہا تھا، اگر راہ چلتی کسی مہجبین کی شر انگیز نگاہیں آصف کے پرکشش شباب اور جمال سکوں تاب پر پڑتیں، تو وہ عش عش کئے بغیر نہ رہتی، ادھر عامر نہایت بے چینی و بے قراری سے آصف کا منتظر تھا ،بار بار اپنے یار کے خیر مقدم کے لیے صدر دروازے تک جاتا اور پھر بے قرار اور نا امید ہو کر لوٹ آتا، اور مہمانوں کی خاطرداری میں مصروف ہو جاتا، اس تقریب میں عامر کے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ ، عثمانی صاحب کے دوستوں اور کاروباری معاملات سے تعلق رکھنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی ،کافی شاندار تقریب تھی، عامر کو آصف کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہو رہی تھی، بالاخر قدرے تاخیر کے ساتھ آصف پہنچا، اسے دیکھ کر عامر کا چہرہ کھل اٹھا، خوش آمدید کہہ کراس نے آصف کا شکریہ ادا کیا، ایک طرف ناہیدہ اپنی زندگی کی 21ویں بہار کی تکمیل پر اپنے بزرگ رشتہ داروں سے مبارک بادی اور عمر خضر کی دعائیں وصول کر رہی تھی، عامر نے آصف سے اپنی بہن ناہیدہ کا مختصر سا تعارف کرایا اور انہیں وہیں چھوڑ کر تقریب میں شامل دیگر مہمانوں کی طرف پلٹا، آصف زندگی میں پہلی بار اس طرح تنہا ایک ایسی دوشیزہ کے سامنے کھڑا تھا، جو حسن و جمال کی مرقع تھی اب زلال سا چہرہ ،اورایسا تابناک، جیسے کسی نے اس پر غازۂ سیمیں مل دیا ہو،عشوہ طراز اداؤں کی مجسم ساحرہ، گول اور سرخ آفتابی چہرہ، سیاہ گہری اور جھیل سی بڑی بڑی انکھیں، پانی چڑھائی ہوئی تیغ نظر، لمبی صراحی دار گردن، گداز جسم، میانہ قد، اور اس پر زر نگار جوڑا زیب تن کئے ہوئے تھی، اس کے خوبصورت سے سر پر آب گونی دوپٹہ پڑا ہوا تھا ،جس سے اس کے حسن کی رعنائی اپنے حد تکمیل کو پہنچ گئی تھی، شباب کی دلفریبیوں میں وہ کھلے ہوئے گلاب کی طرح کسی گلستان یا چمن کی رانی معلوم ہوتی تھی، دو پیکر حسن و شباب روبرو کھڑے تھے، دو دھڑکتے ہوئے دل ہنگامۂ شوق کے ایک نئے عالم میں داخل ہو رہے تھے، آج پہلی بار آصف جیسے پاک باز اور پارسا نوجوان کی نگاہ حسن و زیبائی کی نکھری ہوئی چاندنی میں خیرہ ہو کر رہ گئی تھی، دو عفت مآب روحوں کی ملاقات کا کیا عالم تھا ،کون بتائے؟ نظروں کے تصادم سے ایک دوسرے کے دل پر بجلی سی کوند گئی، نگاہوں کے نشتر دلوں کے آر پار ہو گئے، دونوں ایک نامعلوم شراب ناب سے سرشار ہونے لگے، دلوں میں آتش شوق کی چنگاریاں پھوٹنے لگیں، آصف کے سامنے پیکر انسانی میں ایک ماہ کامل کھڑا تھا، جس کے ایک ہی جلوۂ محشر طراز نے دل کا کام تمام کر دیا، ایک شیشہ ٹوٹا، ایک بجلی چمکی، اور آصف کا خرمن ہستی آن واحد میں جل کر راکھ ہو گیا، تلوار کی کاٹ فولاد کی ڈھالوں پر تو روکی جا سکتی ہے، لیکن چشم سحر طراز کا ایک ہی تیر نیم کش پوری ہستی کو گھائل کرنے کے لیے کافی ہے، آصف گھائل تھا، پھر اچانک حیا نے اس کے جذبۂ شوق کو جھنجھوڑا، اس نے فورا ہی پلکیں جھکاتے ہوئے ناہیدہ سے کہا،، آپ کو اپنی عمر کی 21کیسویں بہار مبارک ہو خدا کرے ہم لوگ یوں ہی زندگی بھر آپ کی سالگرہ مناتے رہیں،، بمشکل تمام لجاجت آمیز لہجے اور لرزہ خیز اواز میں یہ الفاظ ادا ہو سکے تھے،،،،،،،اور،،،،،،یہ؟ ناہیدہ نے آصف کے ہاتھ میں گلدستے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا،،آ،،،،،، ارے ہاں،،،،،،،، یہ تو دراصل اپ ہی کو پیش کرنے لایا تھا،،اور اپ بھول گئے،،،،،،، ناہیدہ نے کہا، آصف بری طرح جھینپ گیا تھا، اس نے خود کو سنبھالتے اور گلدستہ نا ہیدہ کو پیش کرتے ہوئے کہا ،،بھولا تو نہیں لیکن سوچا ان پھولوں کو آپ سے کیا نسبت ،، کہاں اپ کا رخ تاباں اور کہاں ان کی یہ پژ مردہ پنکھڑیاں،، اپ کے حسن زیبا کے سامنے تو یہ ہیچ ہیں، بیچارے کہاں منہ چھپائے پھرتے ، دیکھیے نا، ان کے چہرے آپ کے سامنے کیسے اتر گئے ہیں، خیر یہ حقیر سا تحفہ قبول فرمائیں،، اسی دوران کسی اجنبی کی پرزور آواز میں ،،السلام علیکم ،،سنائی دیا ،آصف نے پلٹ کر دیکھا تو ایک اجنبی نوجوان کھڑا تھا، جس کے ہونٹوں پر تبسم کھیل رہا تھا،،،، وعلیکم السلام،، لیکن ناچیز نے اپ کو پہچانا نہیں،، آصف نے سلام کا جواب دیتے ہوئے مستفسرانہ انداز میں کہا،، اس بلائے ارضی کا نام، ندیم، ہے ناہیدہ نے پہلے ہی تعارف کراتے ہوئے کہا،،،، جی ہاں، ویسے میرا پورا نام،، ندیم فرزانہ،، ہے، لیکن جن لوگوں کو میری فرزانگی سے نفرت ہے وہ مجھے صرف ندیم ہی کے نام سے یاد کیا کرتے ہیں ،ندیم نے ناہیدہ کی جانب تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنا تعارف کرایا ،ناہیدہ تو اس کی ڈھٹائی کی تردید کر دیتی، لیکن جانتی تھی کہ وہ وکلا ءعدالت کی طرح جرح و بحث کرنے لگے گا ،اس لیے وہ منہ بسور کر رہ گئی،، آصف اپنا تعارف کرانا ہی چاہتا تھا کہ ندیم نے کہا بالکل ضروری نہیں، آپ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں، قدرت نے آپ کو حسن صورت ہی نہیں بخشی ہے، بلکہ حسن سیرت سے بھی نوازا ہے، اور،،،،،، وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ تب ہی عامر اپنے دیگر احباب کو بھی وہیں لے کر آگیا، اور ایک دوسرے سے سب کا تعارف کرایا ،پھر سبھی صحن میں بچھی ہوئی میز کے گرد پھیلی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے، اور آپس میں مختلف موضوعات پر گفتگو کرنے نیز مزاحیہ لطائف و ظرائف سناتے ہوئے قہقہے لگانے لگے، ناہیدہ اپنے ابو کا ہاتھ پکڑے کسی خوبصورت سی رنگین تتلی کی طرح ادھر سے اودھر اڑتی پھر رہی تھی، آصف کی سارقانہ نگا ہیں ہزار ضبط کے باوجود ناہیدہ کی طرف اٹھ ہی جاتیں، تو وہ یہی دیکھتا کہ ناہیدہ دزدیدہ نگاہوں سے اسے اس طرح دیکھ رہی ہے، جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتی ہو، تقریبا 12 بجے شب یہ تقریب اختتام کو پہنچی، مہمان رخصت ہونے لگے تو آصف نے بھی رخصتی چاہی، مگر عامر نے جواب دیا کہ ،،جال میں پھنسی ہوئی چڑیا اتنی جلدی کہاں چھوڑی جاتی ہے،،؟ آصف کی دل جوئی کے لیے عامر نے اپنے سبھی خاص دوستوں کو روک لیا تھا ،وہ ان سب کو اپنے خاص کمرے میں لے گیا اور ان کی پرتکلف مدارات کی، اسی دوران ناہدہ نے ندیم کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا،، ندیم بھائی اس سال گرہ پر آپ نے مجھے کون سا تحفہ دیا؟ارے،،،باپ رے،،،،،،میں تومرگیا،، ندیم اپنے آپ میں کچھ اسی طرح بوکھلاتا ہوا بڑبڑایا، دراصل وہ بھول گیا تھا کہ ناہدہ کو تحفہ بھی پیش کرنا ہے،، لیکن بات کیسے بنتی؟ یہ ندیم جیسے سخن ساز اور پینترہ باز کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا، وہ بے ساختہ بول اٹھا،، دراصل میں نے ایک ایسے تحفہ کے لیے تمام بازار کھنگال ڈالا جو کہ لازوال ہو ،لیکن تمام تحفے فانی ہی ملے، اچانک میرے دل میں القا ہوئی کہ دعاؤں سے بڑھ کر کوئی لازوال تحفہ نہیں ہوتا ،،ندیم کے اس فلسفےپرتوقہقہوں سے سارا کمرہ گونج اٹھا ،پھر جب قہقہوں کی آواز کچھ ماند پڑی، تو وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا ،،چنانچہ میں اپنی دعاؤں کے موتی اشعار کی لڑی میں پرو کر لایا ہوں، ملاحظہ ہو،، ارشاد ارشاد ،،،سبھی نے اپنی توجہات ندیم کی طرف مبذول کرتے ہوئے کہا، ندیم گنگنانے لگا& وقت کی دھوپ سے رکھے خدا محفوظ تجھے غبار وقت سے میلا تیرا شباب نہ ہو، جہاں میں یوں تو بہت سے ہوں صاحب اوصاف جو وصف تجھ میں ہو اس کا کوئی جواب نہ ہو،،، ان اشعار کو سن کر سب نے تالیاں بجائیں، ندیم کو داد و تحسین سے نوازا، آصف نے بھی آمین کہا ،لیکن ناہدہ نے طنزیہ انداز میں کہا ،،واہ ندیم بھائی واہ، آپ کے اس مفت کے لفظی تحفے کا بھی جواب نہیں ہے،، بہانہ بازیاں اور سخن سازیاں تو کوئی آپ سے سیکھے، لیکن آپ کی یہ چال بازی میرے لیے حرف تسلی نہیں بن سکتی ،،تو پھر اور کیا تحفہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے؟ ندیم نے ناہدہ کے منشا کی وضاحت طلب کی، ناہیددہ نے کہا ،،اگر آپ کے پاس کوئی نقدی تحفہ نہیں ہے تو خیر ،لفظی تحفہ ہی سہی، چلیے ایک اچھی سی غزل سنا دیجئے،، پھر تو سب کی نگاہیں ندیم پر مرکوز ہو گئیں، ندیم پھر گنگنانے لگا،، تیرے کوچے میں آئے بیٹھے ہیں دل کی دنیا بسائے بیٹھے ہیں، غمزدہ دل میں جھانک کر دیکھو روگ کیا کیا لگائے بیٹھے ہیں،، غزل کے اشعار کتنے موزون، برمحل، اور حسب حال تھے، ہر شعر پر ناہدہ کے چہرے سے عجب قسم کے تاثرات ظاہر ہو رہے تھے، پوری غزل میں وہ کھوئی سی رہی، ادھر آصف بھی ہمہ تن گوش ہو کر سن رہا تھا، کمال استغراق کے ساتھ وہ ہر شعر کی معنوی گہرائی تک اتر جاتا تھا، ہر شعر کے اختتام پر، اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی معنی خیز مسکراہٹ پھیل جاتی تھی، کیف و سرور کے اسی مسحور کن عالم میں رات کے اکثر حصے کےگزر جانے کا کسی کو احساس بھی نہ ہوا، جب نیند آنکھوں میں سمائی، تو صبح کاذب کےوقت سب سو گئے، ناہدہ بھی مجبورا اپنے کمرے میں چلی گئی، لیکن نیند کس کمبخت کو آتی؟ آج نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی، وہ خوبصورت آبنوسی پلنگ پر لیٹ کر اپنے دل کی بے قرار دھڑکنوں کو گن رہی تھی، جو آصف کے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *