بنت حوا ارتداد کے دہانے پراسباب وحل
بنت حوا ارتداد کے دہانے پر اسباب وحل
محمد جاويد رضا احسنی
جامعة البرکات،علی گڑھ
جس پر خطر اور پرآشوب دور سےہم گزر رہے ہیں یہ ہم سب پر عیاں ہے کہ روز بروز نت نئے فتنے دین اسلام کو گزند پہنچانے کے لیے مختلف صورتوں میں ظاہر ہو رہے ہیں، کہیں الحاد و زندقہ کی باد سرسر شجر اسلام کی بیخ کنی کے لیے اپنی تیزی پکڑ رہی ہے تو کہیں لادینیت و بدمذہبیت اپنے شباب پر ہے. جیسے جیسے ذرائع ابلاغ کی زیادتی ہو رہی ہے اور اس کا غلط استعمال عام ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں اتنی ہی فتنے اپنے سر اٹھا رہے ہیں. ان فتنوں میں فتنۂ ارتداد ایک زہر قاتل اور خطرناک فتنہ ہے جس کے اثرات مسلم معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
دور حاضر میں مسلم مردوں کی بہ نسبت مسلم خواتین اس فتنے کا شکار بڑی بے دردی سے ہو رہی ہیں. ایک ناپاک سازش کے تحت مسلم خواتین کو مرتد بنانے کی مہم زور و شور پر چل رہی ہے۔
ارتداد امت مسلمہ کے لیے بڑا چیلنج ہے. اپنوں کا اغیار کے دام تزویر میں آکر ارتداد کی راہ اختیار کرنا اور مذہب مہذب کو چھوڑ دینا بڑے افسوس کی بات ہے.
اس گندے جراثیم کے پیچھے ہندتوا ایجنڈے کا ہاتھ کار فرما ہے، وہی اس فتنے کو بڑھانے کے لیے اپنا سارا مال و ذر اور تمام تر ذہنی و فکری قوتوں کو صرف کر رہے ہیں.
ان کا واحد مقصد یہی ہے کہ مسلم خواتین کو اپنے جال میں پھنسا کر ان کے ذہن و دماغ میں اس طرح کا رس گھول دیا جائے کہ وہ بلا لومة لائم، کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنا دین و ایمان چھوڑنے پر راضی ہو جائیں. کافی حد تک یہ شر پسند عناصر اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں.
اس مقصد کے لیے ایسے ایسے افراد تیار کیے ہیں جو بھولی بھالی مسلم لڑکیوں کو اپنی محبت کے ناپاک جال میں پھنسا کر خوب ان سے دل لگی کرتے ہیں، انہیں گھمانے پھرانے کے ساتھ ساتھ انہیں قیمتی تحائف پیش کرتے ہیں،یہاں تک کہ شادی کرنے پر بھی راضی کر کے ہندوانہ رسم و رواج کے مطابق سات پھیرے لیتے ہیں
جس سے ایک مسلم لڑکی مکمل طور پر اپنا دین و ایمان گنوا بیٹھتی ہے. اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد لڑکے کچھ ایام گزرتے ہی Use and throw کی پالیسی اپناتے ہوئے لڑکی کو مختلف قسم کی اذیتوں سے دو چار کرتے ہیں، جس سے تنگ آکر لڑکی اس کے ظلم و ستم سے نجات حاصل کرنے کے لیے خود کشی کا سہارا لیتی ہے یا پھر لڑکے خود ہی کسی چال سے قتل کرکے ریلوے ٹریک پر یا کسی اور جگہ اس کی نعش کو پھنک کر اس سے خلاصی اختیار کر لیتے ہیں. یہ ایک سچائی ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا،
اس قسم کے واقعات کافی بڑی تعداد میں دیکھنے کو ملے اور نیز سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز سامنے آئیں جن میں وہ لڑکیاں رو رو کر اپنا حال زار بیان کر رہی تھیں کہ وہ لاشعوری طور پر کس قسم کے گھنونے کھیل کی نذر ہو گئیں
لیکن انہیں اب کف افسوس ملنے اور حسرت و ندامت کا اظہار کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہونے والا کیوں کہ انہوں نے نہ صرف اپنے خاندان کی عزت و آبرو اور اپنی عفت وعصمت کو داغ دار کیا بلکہ اپنے بیش بہا دین و ایمان جیسے سرمایہ کو تباہ و برباد کرکے اپنی فانی و محدود زندگی کو جہنم بنا دیا، اب ان کا حال اس طرح ہو گیا کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے، نہ ادھر کے ہوئے
اس قسم کے ایک دو معاملات واقع نہیں ہوئے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں واقعات سامنے آئے جن کو سن کر دینی حمیت و غیرت رکھنے والے کا کلیجہ منہ کو آتا ہے. اتنی بڑی تعداد میں امت مسلمہ کی لڑکیوں کا ارتداد کی راہ اختیار کرنا امت مسلمہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ آخر وہ کون سے اسباب و محرکات ہیں، جن کی وجہ سے فتنۂ ارتداد کو بڑھاوا مل رہا ہے
ان وجوہات کو تلاش کرنا اور نیز اس کا تدارک کرنا امت کے ہر فرد کی مشترکہ ذمہ داری ہے تاکہ بر وقت اس فتنہ پر قدغن لگاکر دختران اسلام کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت و صیانت کی جا سکے۔
ارتداد کے چند ایسے عوامل و اسباب ذکر کیے جاتے ہیں جو موجودہ دور میں سب زیادہ عام ہو چکے ہیں :
دین سے بے زاری اور عقیدے کی کمزوری: ان لوگوں کو دین کا علم تو ہوتا ہے لیکن یہ طبقہ دین سے بیزار ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے میں دینی کارکردگی برائے نام ہوتی ہے، حتی کہ جمعہ کا قیام بھی بمشکل ہو پاتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ ان کے بچے غیر مسلموں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا ذہن بھی غیر اسلامی ہو جاتا ہے. مسلمانوں کے بچوں کی حالت تو یہ ہے کہ وہ جتنی شان و شوکت سے اپنے مذہبی تہوار نہیں مناتے
اس سے کہیں زیادہ خوشی و مسرت سے غیر مسلموں کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں. مخلوط تعلیمی نظام: یہ نظام ایک ایسا زہر قاتل ہےجس کی وجہ سے بےشمار لڑکیاں ارتداد کا شکار ہوئیں کیونکہ اس نظام تعلیم میں بلا تفریق مذہب وملت طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں پھر ایک دوسرے سے باتیں کرنا، ملاقاتیں کرنا حتی کہ عشق و معاشقہ بھی عام ہو جاتاہے، جو ارتداد کے لیے کافی ممد و معاون ثابت ہوتا ہے
بنیادی دینی تعلیم کا فقدان :
دنیا کی چکا چوند نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے، جس کے باعث لوگ اسلامی امور سے ہٹ کر دنیوی امور میں حد درجہ مشغول ہیں. موجودہ زمانہ میں لارڈ میکالے کا لایا ہوا تعلیمی نظام لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے، جو اخلاقیات سے یکسر خالی اور اسلامی نظریات سے متصادم ہے، جو بچوں کو دین سے دور کرنے میں بڑا سبب بن رہا ہے.
سوشل میڈیا کا بے جا استعمال: یہ بھی بچوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے،کیونکہ دور حاضر میں ایکس مسلم نام کے بہت سے ایسے افراد سوشل میڈیا پر اسلام مخالف مواد کو شیئر کرکے لوگوں کے ایمان و عقیدہ پر حملہ کرنے کی جی توڑ کوشش کرتے ہیں.
گھروں میں ٹی وی، ویڈیو کا عام چلن عام ہو جانا، جس میں برہنہ قسم کی تصاویر اور بےحیائی پر مبنی مناظر دیکھنا اور نیز اس میں معبودان باطل کی پرستش اور ان کی عبادت کے مناظر مزین طریقے سے پیش کیے جاتے ہیں، جس کے باعث بچوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں. وقت پر اپنی اولاد کی شادی نہ کرنا یہ اس وقت نقصان دہ ہو جاتا ہے جب بنیادی دینی تعلیم نہ ہو تو اس کا نقصان ظاہر ہونے لگتا ہے-
ارتداد کے تدارک کے طریقے :
اپنی خواتین کو اسلامی احکامات کے مطابق پردہ میں رکھنے کی تلقین کریں، ساتھ ہی ساتھ انہیں حیا و پردہ کی عظمت سے روشناس کرایا جائے۔ اپنی اولاد کو صحیح دینی تعلیم و تربیت بچپن ہی سے دی جائے، دین کے متعلق کسی قسم کا شبہہ ہو تو ان کے شبہات کا بر محل ازالہ بھی کیا جائے. اپنے گھر میں اسلامی ماحول قائم کیا جائے۔
یہ والدین کی اہم ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر انہیں آقا علیہ السلام کی سیرت طیبہ، مجاہدین اسلام اور ان عظیم فرزندان توحید کی اسلام پر ثبات قدمی کے واقعات سنائیں جنہوں نے اپنے ایمان کی خاطر موت کو تو گلے لگا لیا لیکن کبھی اپنے ایمان کا سودا نہیں کیا تاکہ بچوں کے اندر ایمان و ایقان کی زیادتی ہو اور ان کا ایمانی جذبہ پروان چڑھے.
علما و مشائخ سے تعلق رکھا جائے، دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کیا جائے اپنے بچوں کو ان سے ملاقات کرائیں، ان کی خدمت کا موقع دیں، اس سے ان پر اچھا اثر پڑے گا،
مخلوط تعلیمی اداروں میں اپنی بچیوں کو تعلیم نہ دلوائی جائے. موبائل ریجارج یا فوٹو کاپی کے لیے یااس طرح کے اور دوسرے کاموں کے لیے غیرمسلموں کی دکان پر نہ جانے کی ہدایت کی جائے۔
بچیوں کے فرینڈ سرکل کا جائزہ بھی لیا جائے اور نیز غیر مسلم لڑکیوں کی دوستی سے بھی روکا جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے فتنے کا دروازہ نہ کھل سکے۔
ٹیوشن کے نام پر اجنبی لڑکوں سے اختلاط کا موقع نہ دیا جائے،روزانہ کالج جانے اور لانے کا انتظام گھر کے کسی فرد کے ذریعے ہی کرایا جائے. خواتین میں دینی بیداری کے لیے ماہانہ یا ہفتہ واری عالمات کے ذریعے اجتماع کا بھی انعقاد ضرور ضرور کیا جائے
پم نے ان چند اسباب اور حل کو اس مختصر مضمون میں ذکر کرنے کی کوشش کی ہے، جن کا بر محل تدارک کرکے معاشرے سے اس عظیم فتنے کا سد باب کیا جا سکتا ہے، ورنہ اگر اس کی بر وقت سرکوبی نہ کی گئی، تو یقین جانیے وہ دن دور نہیں کہ یہ فتنہ ہمارے گھروں کے دروازے پر دستک دے سکتاہے
لہٰذا امت مسلمہ کے ہر فرد کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ دختران ملت اسلامیہ کے ارتداد پر فکر مند ہوں اور اس کے انسداد کے لیے اپنی تمام تر ذہنی و مالی قوت صرف کریں۔
فتنۂ ارتداد حقیقت یا فسانہ
Pingback: خود کشی اسلام کی نظر میں مع اسباب و تدارک ⋆ اردو دنیا
Pingback: منور رانا آپ آسان سمجھتے ہیں منور ہونا ⋆ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Pingback: اسلام اور ذاتی رجحانات ⋆ یاسر رمضان مدنی