ارتدادکی آندھی اسباب وحل
تحریر: معین الدین رضوی مصباحی ارتدادکی آندھی اسباب وحل
مشکل سے مشکل حالات میں ثابت قدمی اور بدترین حالات میں بھی تصلب فی الدین یہ مسلمانوں کا طرہ امتیاز رہا ہے اسلام کے ابتدائی زمانے سے لے کر اب تک خطہ ارض کے کسی نہ کسی کونے میں ہر وقت اہل اسلام صبر آزما مراحل سے گزرتے رہے۔
تمام طرح کی پریشانیوں اور مصیبتوں کے باوجود بھی اسلام اور شریعت سے رو گردانی تو بڑی بات ایک بالشت بھی پیچھے ہٹنا گوارا نہ کیا بلکہ اسلام کی راہ میں آنے والے تمام مصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مرور ایام کی گردشوں اور حوادث زمانہ کی تلخیوں نے انہیں مزید کندن بنا دیا
حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے دنیاوی زندگی کوئی خاص معنیٰ نہیں رکھتی جبکہ اس کے سامنے ابدی اور کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی اس کی منتظر ہو، فلسفہ قرآنی کے مطابق بھی ایک مسلمان اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ زمانے کے تلخ تجربات اور صبر آزما مراحل سے نہ گزرے، آزمائش جتنی بڑی ہوگی اجر بھی اتنا ہی بڑا ہوگا۔
آج ہندوستانی مسلمانوں کو مختلف محاذوں پر باطل قوتوں کے بے شمار یلغار اور جارحیت کا سامنا ہے کفار و مشرکین پوری قوت سے فرزندان توحید پر شب و خون مار رہے ہیں ملت اسلامیہ کا شیرازہ پوری طرح بکھر چکا ہے، قیادت طوائف الملوکی کا شکار ہے، روح کو ضیاء بخشنے والی خانقاہیں اور ان کے افراد اپنے محل جیسے خانقاہوں میں بیٹھ کر،، پدرم سلطان بود،، کا ورد کر رہے ہیں۔
خانقاہوں کی روح نکال کر امیر شہر کے قدموں میں بطور ہدیہ پیش کردیا گیا ہے اس کے ظاہری ڈھانچے میں چند اوباش قسم کے بگڑے شہزادے، لطف و سرور کی محفلیں سزا رہے ہیں جاہل مریدوں اور دنیا پرست خلفا کے بیچ یہ شہزادے عیش و عشرت میں عباسی دور کے آخری خلیفہ مستعصم با اللہ سے کم نہیں ہیں۔
آج جب کہ تاتاری فوج مشرکین کی صورت میں پر ہماری جان، مال، اقدار و روایات پر یلغار کر رہی ہے ، اور مختلف حیلوں بہانوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ارتداد کے کے بارود پر لاکر کھڑا کردیا ہے
ایسے نازک حالات میں بھی انہیں روحانی امداد پہچانے کے بجائے یہ آپس میں ہی دست و گریباں ہیں فتنہ ارتداد کوئی نیا فتنہ نہیں ہے ماضی قریب میں بھی اس طرح کی تحریکیں بڑے زور و شور سےاٹھیں لیکن ہمارے اسلاف کی انتھک کوششوں، مضبوط لائحہ عمل، اور ارتداد زدہ علاقوں میں مسلسل تبلیغی دوروں بالخصوص باطل قوتوں سے مناظرے حسب ضرورت مباہلوں کی وجہ سے یہ تحریکیں جہاں سے اٹھی تھیں وہیں دفن ہوکر رہ گئیں۔
اس کی سب سے بڑی مثال شدھی تحریک ہے حالیہ مہینوں میں ارتداد ایک جائزہ مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق اگست ٢٠٢١سے جون ٢٠٢٢ تک ملک کے مختلف اطراف میں ٣١٠ افراد نے اسلام چھوڑ کر ہندو ازم اختیار کر لیا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے : نومبر ٢٠٢٢ میں مغربی یوپی کے ضلع مظفر نگر باغپت میں ایک مسلم کنبہ جو پندرہ افراد پر مشتمل تھا سب نے اجتماعی طور پر اسلام سے رو گردانی کرتے ہوئے ہندو تنظیموں اور اور پنڈتوں کی موجودگی میں ہندو دھرم اختیار کر لیا۔
اس کنبے کی ایک خاتون وجہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں،، ہم بہت پریشان تھے رہنے کو گھر نہیں تھا ایک گھر تھا وہ مظفر نگر کے فسادات میں آگ کی نذر ہوگیا تھا ایسے میں ان لوگوں (ہندو تنظیموں) نے ہماری مدد کو ہاتھ بڑھا یا اور ہمیں حکومت سے گھر دلانے کا وعدہ بھی کیا ہے وہ آگے کہتی ہیں۔
چوں کہ ہمارے اجداد ہندو ہی تھے اس لیے ہم بھی آج گھر واپسی کر رہے ہیں اسی مہینے میں سہارنپور میں بھی ٦ پریوار کے ٢٦ لوگوں نے اسلام ترک کرکے ہندو دھرم اختیار کر لیا نوبھارت ٹائمس کے مطابق ٧ اگست ٢٠٢١ کو راجستھان کے باڈھ میر میں ٥٠ مسلم گھروں جن کی تعداد ٢٥٠ تھی یہ سب کے سب ارتداد کا شکار ہوکر ہندوازم کا چولا اوڑھ لیا۔
ان میں سے ایک صاحب ارتداد کا سبب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں،، ہم جس گاؤں میں رہتے ہیں وہاں کی زیادہ تر آبادی ہندو ازم کے ماننے والوں کی ہے اور ہماری بہت ساری رسومات ہندوؤں سے ملتی جلتی ہے آگے کہتے ہیں شروع سے ہی مسلم سماج نے ہم سے دوری بنائے رکھی اور آج تک وہ سماج ہم سے دوری بنائے ہوئے ہے آگے وہی رٹے رٹائے جملے کہتے ہیں،،۔
چوں کہ ہمارے اجداد ہندو تھے اس لیے ہم بھی…………. ہندی روزنامہ دینک بھاسکرکے مطابق ابھی حال ہی میں ١٠جون ٢٠٢٢ کو مدھیہ پردیش کے رتلام میں خانہ بدوشوں کے ایک خاندان کے ١٨ افراد نے آن کیمرہ اپنی مذہبی شناخت کو مٹاتے ہوئے کفر کا راستہ اختیار کرلیا۔
اور سب نے اپنے نام بدلتے ہوئے پروہتوں کی موجودگی میں سناتن دھرم اختیار کرلیا ارتداد کا شکار ہوئی ایک خاتون کہتی ہیں ہمیں ہندو دھرم میں داخل ہونے پر سرکاری اسکیمز جیسے آواس اور راشن کارڈ وغیرہ کا لالچ دیا گیا تھا لیکن سرکاری امداد کے طور پر ہمیں کچھ نہیں ملا۔
اسباب : مذکورہ بالا سطور کا اگر ہم سرسری طور پر جائزہ لیں تو ارتداد کے چند موٹے موٹے اسباب درج ذیل ہوں گے : اسلام کے بنیادی احکام اور معلومات سے نابلدی- غیروں کے ساتھ میل جول باالخصوص ان کے مذہبی تقریبات اور تیوہاروں میں شرکت۔
آج بھی مسلم معاشرے میں ہندوانہ رسموں کی موجودگی ہندو تنظیموں کا پروپیگنڈہ خاص طور پر یہ کہ تمہارے اجداد ہندو تھے – ہندو مشنریوں کا حکومتی پشت پناہی- مسلمانوں میں ذات پات اور آپسی چیقلش – غربت و افلاس – دور دراز علاقوں میں تبلیغ دین کی عدم فراہمی وغیرہ
حل: اسلام کے بنیادی احکامات اور تعلیمات کو فروغ دینا بالخصوص نسل نو کو زیور علم سے آراستہ کیا جائے عقلی اور نقلی دلائل سے ان کے دلوں میں اسلام کی عظمت اور حقانیت کو بٹھا یا جائے اس کام کے لیے بہترین پلیٹ فارم محلے کی مسجد ہے چوں کہ راقم کا تعلق دیہات سے ہے۔
اس لیے ہمارا مشاہدہ ہے کہ سادہ لوح مسلمان آج بھی غیروں کے تیہوار جیسے رام نومی اور ان کے روایتی اور مذہبی میلوں میں شرکت کرتے جس کے ظاہری چاق و چوند سے کم از کم ان کی دلوں میں معبودان باطل کی عظمت بیٹھ جاتی ہے، عوام کو حتی الامکان ان تہواروں اور میلوں سے دور رکھا جائے ناجائز رسومات کے خاتمے پر زور دینا خاص طور پر شادی بیاہ میں مروجہ اور ہندوانہ رسموں کے حوالے سے عوام کو خبردار کرنا۔
عوام کو اس بات کی تلقین کرنا کہ تمہارے اجداد ہندو نہیں بلکہ آدام علیہ السلام کے ماننے والے تھے اور آدم علیہ السلام اللہ کے نبی اور مسلمان تھے کہتے ہیں نا کہ بھوک اور افلاس جب اپنے عروج کو پہنچ جائے تو انسان جینے کے لیے حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتا وہ بس اپنے اور اپنے اہل خانہ کی بھوک مٹانے کی کوشش میں رہتا ہے اسلام نے ایک آفاقی اور دین فطرت ہونے کے ناطے اس نقطہ نظر کو بھانپ لیا تھا۔
اور لوگوں میں معاشی مساوات کے فروغ کے لیے زکوٰۃ جیسے اہم امر کو فرض قرار دیا تاکہ کوئی مسلمان کم سے کم بھوکا نہ سوئے، آج اگر مسلمان افلاس کا شکار ہے تو اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں یا تو امت اجتماعی طور پر افلاس کا شکار ہوگئی یا پھر اہل ثروت نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی پہلی وجہ عقلی اور مشاہداتی طور پر باطل ہے رہ گئی۔
دوسری وجہ تو حقیقت یہی ہے ہمارے اشرافیہ اور معاشی طور پر خوش حال طبقے نے زکات کا فریضہ ادا نہ کیا یا کچھ نے ادا کیا تو وہ مستحقین تک نہ پہنچ کر راستے ہی میں ٥٠ فیصد کمیشن کا نذر ہوگیا جہاں اہل ثروت پرزکات فرض ہے وہیں یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنی زکات کو مستحقین تک پہنچائیں۔ ہم اسٹج یا رسائل میں کتنا بھی شور مچاتے رہیں کہ اسلام میں ذات پات کا تصور نہیں۔
لیکن زمینی سطح پر غیروں کی طرح ہمارے یہاں بھی نہ صرف ذات پات کا تصور موجود ہے بلکہ شادی بیاہ میں اس کی تصدیق بھی ہوجاتی ہے بلکہ بسا اوقات برادری الگ ہونے کی وجہ سے آپس میں ہی آیے دن خونی جھڑپ دیکھنے کو ملتی ہے۔
اس میں جو کم زور ہوتا ہے بارہا ایسا دیکھا گیا ہے کہ اس نے احتجاج کے طور پر کفراختیا کرلیا یہ ہمارے لیڈروں کی ذمہ داری ہے کہ آپس میں شادی بیاہ کو فروغ دے کر اس منافرت کا خاتمہ کر کے آپسی محبت کی فضا ہموار کریں- اس امت کو بہترین امت کا خطاب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سبب دیا گیا ہے لہٰذا ہم عوامی بلکہ انفرادی سطح پر بھی تبلیغ کو فروغ دیں اور عوام کے ایمان کی حفاظت کر کے عند اللہ ماجور ہوں ۔
Pingback: اے کاش اتر جائے ترے دل میں میری بات ⋆ اردو دنیا تحریر - ڈاکٹر میم الف نعیمی
Pingback: حالات حاضرہ میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل ⋆ عبداللہ بن عمر خان