کیا تنہا اسد اقبال ہی مجرم ہے

Spread the love

کیا تنہا اسد اقبال ہی مجرم ہے؟؟؟

صاحبو! آج کل بے چارا اسد اقبال سوشل میڈیا یوزرس کے راڈار پر آ گیا ہے۔فیسبک کے والس اور واٹس ایپ کے مختلف گروپس میں اسی کی حجامت و مرمت چل رہی ہے۔

یہ جمہوری ملک ہے سب کو اپنی راے رکھنے کی چھوٹ ہے، تھوپنے کی نہیں۔جلسائی مبصرین و مذہبی ناقدین فیس کے خلاف مورچہ کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہیں اب یاد آیا ہے کہ مولود شریف و نعت خوانی کی فیس ناجائز و حرام ہے۔

اعلی حضرت کے فتوے پر دوسرے کو پابند کرنے والا گروہ فیس سے متعلق فتوے کو طاق پر رکھ دیتا ہے۔اس فتوے سے خود کو بری سمجھتا ہے۔
مگر کیا اسد اقبال تنہا ایسا شاعر ہے جو نذرانہ لے کر جلسہ پڑھتا ہے؟ کیا صرف تنہا وہی مجرم ہے؟

کیا اس نے نذرانے کے لیے کبھی آپ سے زور زبردستی کی ہے؟ یہاں میں اسد کی وکالت نہیں کر رہا بس حقیقت سے روبرو کرنا مقصد ہے۔

میلاد کی فیس لینے کے اس ناجائز معاملے میں بڑے بڑے جبہ و دستار والے سب ایک حمام میں ننگے نظر آتے ہیں۔یہ اسد تو ایک نعت خواں بھر ہے۔ان کے بڑے بڑے سرخیلوں کی جوابدہی کب طے کی جاۓ گی؟

یہاں تو ہماری بڑی بڑی خانقاہوں کے مقدس مسند نشینان اس جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے کچھ بھی غلط محسوس نہیں کرتے۔۲۰۰۹ میں سیتامڑھی ضلعے کے ایک جلسے میں پیر صاحب کو دس ہزار کا نذرانہ دیا گیا تو پیسے پھینک دیئے تھے۔اس زمانے میں بہار کے مدرسے میں ایک اچھے مدرس کی تنخواہ اٹھارہ سو سے ڈھائی ہزار تک ہی ہوتی تھی۔اگر یہاں متعلقہ پیر صاحب کا نام لکھ دوں تو سوشل میڈیا پر تیسری عالمی جنگ چھڑ جاۓ گی۔لوگ مجھے سنیت سے ہی نکال دیں گے۔اس لئے عرض ہے کہ صرف اسد ہی مجرم کیوں بھئی؟

میرے نظریہ سے اس سے بڑا مجرم تو وہ سماج ہے جو امام کو ۶۰۰۰؍ دینے میں اپاہج بن جاتا ہے وہ بھی وقت پر نہیں۔ اور شعرا کو پچاس ہزار ہنس کھیل کر ایڈوانس چکا دیتا ہے۔مجرم تو ہم ہیں آپ ہیں صاحبو! ہم نے قریہ قریہ، گلی گلی گھوم گھوم کر چندے بٹورے، صرف اس لیے کہ اسد اقبال کی فیس پوری کرنی ہے۔کیا اسد نے کہا تھا میری فیس کے لیے در در جھولی پھیلا کر بھیک مانگو جب فیس وصول ہو جاۓ تو دعوت دینا؟ یہ تو سماج کے بگڑے لونڈوں کی ذہنی عیاشی کہیے کہ خود پھٹے حال رہنے کے بعد بھی فیس کی اتنی بڑی رقم کا انتظام کر ہی لیتے ہیں۔

میری دانست کے مطابق اسد اقبال کا سب سے ہائی نذرانہ میرے کشن گنج ضلع میں چل رہا ہے۔ہند نیپال سرحد پر واقع یہ وہ کشن گنج ہے جسے نیپال سے بہتی ندیوں کے سیلاب نے ہر بار تباہ کیا ہے۔جہاں ہر سال کئی بستیاں ندیوں میں سما جاتی ہیں۔ہزاروں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں۔کتنوں کی کھیت و زمینیں ندیاں نگل جاتی ہیں۔۲۰۱۷ کے خطرناک سیلاب سے اہل کشن گنج اب تک سنبھل نہیں پایا ہے۔

سرکاری جائزے کے مطابق اس سیلاب میں سیمانچل کے صرف کشن گنج اور ارریا ضلعوں میں ۸۰ سے زاید چھوٹے بڑے پل پلیا ٹوٹ گئے،ڈیمیج ہو گئے یا پانی میں بہ گئے تھے۔اب تک ان پُلوں پر کام نہیں ہوا۔ ہاں کہیں کہیں کام چل رہا ہے۔کچھ مرمت کیے گئے کچھ انڈر ری کنسٹرکشن ہیں۔
ایسا ضلع جس کی ۸۰ فیصد مسلم آبادی دہلی، ممبئی،پنجاب کولکاتا جیسے شہروں میں مزدوری کر کے یا چھوٹا موٹا کام کر کے اپنا گزر بسر کرتی ہے، وہ اسد اقبال کے لیے جی جان لگا دیتا ہے۔جیسے مودی کے بھکت بولتے ہیں چاہے کوئی کچھ کر لے آۓ گا تو مودی ہی۔ٹھیک اسی طرح ادھر کے لونڈے بولتے ہیں چاہے جہاں سے پیسہ آۓ، آۓ گا تو اسد ہی۔
اس سماج نے یہ ماحول بنایا ہے۔ہمارے ہوس جاہ رکھنے والے مولویوں نے بے خوف ہو کر سامعین نعت پر جنت تقسیم کی ہے۔نعت خوانوں پر طوائفوں کی طرح پیسہ لٹانے والے کو یہ بتایا کہ حضرت حسان نعت پڑھ رہے تھے نبی نے اپنی چادر مبارک اتار کر دے دی۔تب ایسے میں طبیعت سے اوباش اور ذہنی طور پر عیاش معاشرے کو کیا چاہیے وہ پہلے سے شارٹ کٹ طریقے سے جنت جانے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔سو اسد اقبال،شبیر برکاتی، راہی بستوی،حبیب اللہ فیضی،دلبر شاہی، ندیم فیضی جیسے گویے کے روپ میں انہیں جنت کا ٹکٹ دینے والے مل گیے۔
کیا جنت اتنی سستی ہے کہ بھانگ پینے والے،نشیڑی،گنجیڑی ایک رات کی نعت سن کر جنت چلا جاۓ گا۔جو جنت صرف صالحین، متقین و مقربین کا ٹھکانہ ہے وہ مفت باٹی جا رہی ہے۔یہ جنت نہ ہوئی فاتحہ کی مٹھائی ہوگئی۔فلمی گانوں کے طرز پر دو تین نعت سنا کر شفاعت رسول کا حق دار قرار دینے والے کو ذرا بھی خدا و رسول کا خوف ہے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی شفاعت اتنی ہلکی اور سستی ہے کہ عمل کچھ نہیں، شب و روز مٹرگشتی اور عیاشی میں بیت رہے ہیں پھر بھی ہمارے خطیبوں نے انہیں ڈائریکٹ جنت پہنچانے کا ٹھیکا لے رکھا ہے؟ یہ جنت کی بشارت نہیں،یہ سبز باغ ہے۔لوگوں کے جذبات کو کیش کرنے کا ذریعہ ہے۔

آپ ذرا سوچئے! تمام صحابہ کم و بیش نبی کے مکتب کے پڑھے، نبی کے فیض یافتہ ہیں۔سب جنتی ہیں اس پر اہل سنت کا ایمان ہے۔مگر فقہ حدیث کا سیرت چیپٹر پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے صرف دس ہی صحابہ کو جنت کی بشارت دی۔

وہ عشرۂ مبشرہ ہوۓ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم تو مالک جنت ہیں اس تبشیر و الطاف میں صرف دس ہی کیوں؟

اس کا مطلب ہے کہ جنت سستے داموں پر نہیں ملے گی اس کی پوری قیمت چکانی ہوگی۔کاش! عشرۂ مبشرہ کی تعداد و تخصیص کی حکمت پر ہی ہمارے نعت خواں و خطبا غور کر لیں تو جلسے میں آۓ ہر ایرے غیرے کو فری میں جنت کا ٹکٹ تقسیم کرنا بند کر دیں گے۔
جلسوں پر سماج میں ایک اسلامی ماحول برپا کرنے کی ذمے داری تھی مگر اس کے برعکس،عمل سے خالی افراد ملت غلط روی کے شکار ہو گئے۔نہ ہم مفت میں جنت تقسیم کرتے نہ ہماری عوام اس قدر بے عمل ہوتی۔آج لوگ فرائض و واجبات ترک کرکے صرف چادر گاگر میں کیوں پھنسے ہیں اس لیے کہ ہم نے اس چادر گاگر کو عین دین و سنیت بنا کر پیش کیا جس کا خراب رزلٹ یہ ہے کہ لوگ نماز پڑھے نہ پڑھے مگر چادر چڑھا کر سمجھتے ہیں کہ پاپی برہمن کی طرح گنگا نہا لیا ہے۔سارے پاپ دھل گئے۔
امام مسلم بن حجاج قشیری نے کتاب الایمان کے تحت ایک حدیث نقل کی ہے جو اس طرح ہے۔۔۔۔۔۔۔،حضرت معاذ ابن جبل کا بیان ہے کہ حضور رسالت مآبﷺ ایک کجاوے میں تشریف فرما تھے۔ میں ان کا ردیف تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے تین دفعہ کہا اے معاذ! حضرت معاذ نے لبیک و سعدیک کہ کر مع ہمہ تن گوش حاضر ہونے کا ثبوت پیش کیا۔تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بھی یہ گواہی دے گا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد(ﷺ) خدا کے بندے و رسول ہیں تو اللہ تعالی اس پر دوزخ حرام کر دے گا۔معاذ نے کہا کہ حضور اتنی اچھی خبر ہے کیا میں اس کو لوگوں تک نہ پہنچا دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟

آپ نے فرمایا نہیں، ورنہ لوگ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے(مطلب عمل کرنا چھوڑ دیں گے)
اس حدیث سے دو باتیں خوب سمجھ میں آتی ہیں
پہلی اہم بات تو یہ کہ حضور قاسم نعمت و مالک جنت ہیں اس کے باوجود اس قدر احتیاط کر رہے ہیں کہ معاذ کو یہ خبر پھیلانے سے منع فرما رہے ہیں کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر کے نماز و روزہ سے دور ہو جائیں گے تم اسے دوسروں تک تک مت پھیلاؤ۔دوسری بات کہ جلسوں میں سب کو جنتی بنانے والے خطبا،نعت خواں،نظما اور پیران بروز حشر برے پھنسیں گے۔جتنے لوگ ان کی تقریر و نعت سے بے عمل ہوۓ ہوں گے ان سب کا حساب انہیں دینا ہوگا۔میدان حشر میں تو اپنا حساب دینا قیامت ہے دوسروں کا کہاں سے دیں گے۔

اے اہل جلسہ! ڈرو اس دن سے جس دن رب جلال میں ہوگا۔سر عام حساب کتاب کا دفتر کھلے گا۔اچھوں کو اعمال نامہ دائیں، تو بروں کو بائیں ہاتھ میں دیا جاۓ گا۔وہاں سب نفسی نفسی کے مارے ہوں گے۔ایک بڑا جم غفیر تو ہوگا مگر وہاں جلسے کی قطعی اجازت نہیں ہوگی۔صدر محشر رب ہی ہوگا مگر کوئی ناظم، کوئی شاعر کوئی خطیب بولنے کے قابل نہیں ہوگا۔ایسے میں فیس کا رجسٹر کھل گیا تو “حشر میں جلسہ کرنے والوں” کی کھٹیا کھڑی ہو جاۓ گی۔

مشتاق نوری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *