سال تو گذر گیا مگر
سال تو گذر گیا مگر
اظفر منصور
قارئین گرامی! دوہزار تئیس کا سال گذر چکا، اورایک نئے سال کی آمد ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے ملک و عالم میں ایک نئی قسم کی ہلچل تو ہے مگر وہ سرود محفل نہیں جس سے دنیا میں انقلاب آئے، جاں بلب گھرانوں میں صبح نوید آئے، بلکہ سب کچھ وہی پرانا ہے، لوگوں پر جو مشقتیں، مصیبتیں، پریشانیاں کل تھیں آج نئے سال کی پہلی صبح اور سورج کی شعاعوں میں بھی وہی قدامت کی جھریاں پڑی ہوئی ہیں۔ یعنی
اے نئے سال بتا تُجھ میں نیا پن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
آسمان بدلا ہے، افسوس نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
جب تمام چیزیں اپنی اسی پرانی روش پہ جاری ہیں تو نئے سال کی آمد پر جشن چراغاں کرنا چہ معنی دارد؟
ہاں اس موقع پر یہ نیا سال پیغام عمل بھی دیتا ہے، سوئے ہؤں کو جگاتا بھی ہے، غافل و کاہل کو ساحل دریا لے جاکر عبرت ناکیاں بھی دکھاتا ہے، کہ عمر عزیز کے پورے بارہ مہینے تم نے غفلت میں گذار دئیے، کوئی نئی تحریک، نیا کارنامہ، نئی ابتدا نہیں کی۔
پوری قوم شادماں و فرحاں ہے کہ نئے سال کی آمد ہو رہی ہے جبکہ وہیں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے سر کی چھتوں کے لیے حکومت سے منت و سماجت کر رہے ہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ جس قوم کو اللہ کے رسول ﷺ نے ایک جسم سے تشبیہ دی ہو اس بیہودہ و بے مقصد کی تقریبات میں وقت و دولت صرف کرے، ہرگز نہیں۔
کوئی بھی سالم عقل کا انسان اپنے اعضاء و جوارح کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے جسم کا فلاں فلاں حصہ فیل ہو چکا ہے اس باوجود آؤ ہم رقص و سرور کی محفلیں سجائیں، تماش بینوں کی باراتیں لگائیں، اور دولت علاج و معالجہ کے بجائے جام و سبو پر لٹائیں۔
اس لیے اس نئے سال کی آمد پر ایک پیغام تو اتحاد ملت کی دعوت ہے، کہ اس کے بغیر ہم ناقص القوت ہیں، دشمنوں کی آنکھوں کے کانٹے ہیں جو مسلسل وجہ سوزش بنے ہوئے ہیں۔ آج ملک میں مسلمانوں کی حالت نہایت دگرگوں ہے تو ایسے موقع پر یہ نیا سال ایک بہترین موقع ہے کہ نیا عزم و حوصلہ لے کر اٹھا جائے، کڑیوں کو جوڑ جوڑ کر زنجیر بنائی جائے، اور دوسرا پیغام یہ ہے کہ احتساب ِنفس کیا جائے کہ کل ذاتی طور پر ہماری کیا حیثیت اور وقعت تھی؟ کن کن صلاحتیوں سے عاری اور فنون سے ناواقف کل تھے، اور آج کیا کیا چیزیں سیکھی ہیں۔ اگر طالب علم ہیں تو ہم اپنے مقاصد میں کتنے کامیاب ہوئے۔
سوشل ورکر ہیں تو سماجی و رفاہی کاموں کے ذریعے ہم نے معاشرے کو کتنی ترقی دی، علماء و ذمہ دار ہیں تو محلہ میں دین داری کا کتنا غلبہ ہوا، استاذ ہیں تو ہمارے کتنے شاگرد کامیابی کی راہ پر گامزن ہوئے، سیاست دان ہیں تو ملک و قوم کی فلاح و بہبودی میں کتنا حصہ لیا۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر باضمیر شخص کو اس نئے سال کی پہلی شب بستر پر جانے سے قبل سوچنا چاہئے اور اپنی مصروفیات کا جائزہ لیتے ہوئے درست جوابات لکھنے چاہئے پھر اسی کی روشنی میں مستقبل یعنی 2024 کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔
اسی طرح آخر میں نئے سال کے موقع پر جشن چراغاں کرنے والے تمام لوگوں خصوصاً مسلمانوں سے ایک درد بھرا سوال ہے کہ آخر ہم کن اصول و بَیس پر نئے سال کو خوشی و مسرت کا موقع بنائیں؟ کیا ہمیں دوہزار چوبیس میں وہ تمام چیزیں مل جائیں گی؟ جس کے سنہرے خواب ہم نے دیکھے تھے یا دانستہ طور پر دکھائے گئے تھے۔ اس لیے قارئین کرام! آیئے 2024 کے سن کو ایک نئے طرز و ڈھنگ سے جینے کی کوشش کریں، ابھی سے پورے سال کا نظام و خاکہ بنائیں، اور اپنے اندر عزم ِجواں، ہمت مرداں پیدا کریں۔
بھنور آنے کو ہے اے اہلِ کشتی ناخدا چن لیں
چٹانوں سے جو ٹکرائے وہ ساحل آشنا چن لیں
زمانہ کہہ رہا ہے میں نئی کروٹ بدلتا ہوں
انوکھی منزلیں ہیں کچھ نرالے رہنما چن لیں
اظفر منصور
8738916854