سانحۂ سنبھل کے لیے ذمہ دار کون ہے

Spread the love

سانحۂ سنبھل کے لیے ذمہ دار کون ہے ؟

✍️(حافظ) افتخار احمد قادری

سنبھل کی شاہی جامع مسجد محلے کی سب سے بڑی مسجد ہے۔اس کے دروازے کے سامنے زیادہ تر غیر مسلم لوگ رہتے ہیں جبکہ اس کی پچھلی دیوار کے ارد گرد مسلمانوں کی آبادی ہے۔

گزشتہ چند دنوں سے یہاں ایک بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات ہے اور لوگوں کو مسجد کے قریب آنے سے روکا جا رہا ہے۔یہ صدیوں پرانی مسجد اب ایک قانونی تنازع کے مرکز میں آ گئی ہے۔

دراصل عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ سنبھل کی جامع مسجد ایک ہندو مندر ہے۔جس کے بعد اس کو لے کر قانونی تنازعہ کھڑا ہو گیا۔

ہندو فریق نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ اسے ہندو مندر کی جگہ مغل حکمران بابر کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ تنازع کوئی نیا نہیں ہے بلکہ سنبھل کی جامع مسجد کو لے کر ہندو تنظیمیں اس سے پہلے بھی یہاں مندر ہونے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں اور شیوراتری کے دوران یہاں بنائے گئے کنویں کے قریب پوجا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

تاہم مسلم فریق کا دعویٰ ہے کہ حالیہ دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے جب مسجد کے حوالے سے عدالت میں کوئی مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔یہ مقدمہ دائر کرکے اس مسلم مذہبی مقام کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس مسجد کے متعلق عدالت میں کوئی سابقہ تنازعہ نہیں ہے۔

سول جج نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ اس حوالے سے عدالت میں کوئی کیویٹ زیر التوا نہیں ہے۔ یاد رہے کہ سنبھل کی جامع مسجد کو لے کر ماضی میں بھی کئی بار کشیدگی ہوچکی ہے۔

سال 1976ء میں مسجد کے امام کو قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ 1980ء میں جب مرادآباد میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تو ان کی گرمی سنبھل تک بھی پہنچ گئی۔حالیہ برسوں میں ہندو تنظیموں نے کئی بار دعویٰ کیا کہ یہ مسجد کالکی مندر ہے

لیکن اس تنازعہ کو عدالت میں لے جانے کی یہ پہلی کوشش ہے۔حیرت کی بات ہے کہ یہ مقدمہ منگل کی دوپہر عدالت میں دائر کیا گیا، اپوزیشن کو سنے بغیر سروے کرانے کا حکم دے دیا گیا اور سروے بھی اسی دن شام کو کیا گیا جب کہ رپورٹ جمع کرانے کے لیے 29 نومبر تک کا وقت تھا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ پورے منصوبے طور پر پیدا کیا جا رہا ہے۔ ہندو فریق کی درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ سنبھل کی جامع مسجد صدیوں پرانا ہری ہرمندر ہے جو بھگوان کلکی کے لیے وقف ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھگوان کلکی مستقبل میں سنبھل میں اوتار لیں گے۔اس عمارت کو سال 1920ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تحت ایک محفوظ عمارت قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی قومی اہمیت کی حامل عمارت ہے۔درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہندو بت پرست اور بھگوان شیو اور وشنو کے پوجا کرنے والے ہیں اور کلکی اوتار کی عبادت گاہ پر عبادت کرنا ان کا حق ہے۔عرضی گزاروں نے اس مسجد کو سب کے لئے کھولنے اور یہاں آنے اور جانے والوں کے لیے انتظامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مسجد کا سروے

قانون شکنی قانون سازی یا قوانین میں ترامیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قانون کی رو سے کسی تنازعہ کا اطمینان بخش تصفیہ کیا جاسکے۔اگر ایک قانون کسی مذہبی مقام کو متنازعہ بنانے کی کوششوں کی اجازت نہیں دیتا تو پھر عدلیہ کو اس پر مکمل عمل کرنا چاہیے۔

عبادت گاہ (خصوصی دفعات) قانون 1991ء کی موجودگی کے باوجود اگر کوئی عدالت کسی تاریخی مسجد کے سروے کا حکم صادر کرتی ہے تو یہ آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

اگر عدالتیں اور پولس ہی قانون شکنی پر آمادہ ہوں اور ماورائے آئین اقدامات کے ذریعہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کرنے لگیں تو اسے مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔ملک کی سب سے بڑی اور فرقہ وارانہ طور پر حساس ریاست اتر پردیش کے کئی واقعات یہ ثابت کرتے ہیں

کہ اب اترپردیش کو ہندوتوا کی تجربہ گاہ میں تبدیل کرنے کے لیے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔حقوق سلب کرنے اور اُنہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی مذموم حکمت عملی پر کار بند ہے۔

سنبھل میں صدیوں قدیم تاریخی جامع مسجد کو متنازعہ بنانے کی مسلم دشمن عناصر کی کوششوں کو عدالت نے سہارا دیدیا۔ مقامی عدالت کے فاضل جج اگر چاہتے تو مسلمانوں کے مذہبی مقام کو متنازعہ بنانے کی اس کوشش کو بیک جنبش قلم مسترد کر سکتے تھے

لیکن انہوں نے صرف فرقہ پرست مسلم دشمن ٹولہ کی درخواست سماعت کے لئے قبول کرلی بلکہ فوری طور پر اس مسجد کے سروے کا حکم بھی صادر کر دیا۔اس مسجد کے مرکزی دروازہ کے روبرو اکثریتی فرقہ کی آبادی ہے جب کہ مسجد کے دونوں جانب اور عقبی علاقہ میں مسلمان آباد ہیں۔

مغل حکمراں باہر سے قبل ہی یہ شاہی جامع مسح تعمیر ہوئی تھی اور اس وقت سے آج تک مسلمان یہاں نماز ادا کر رہے ہیں۔اس مسجد کو متنازعہ بنانے اور اس پر قبضہ کرنے کی کوششیں برسوں سے جاری ہیں۔ 20 نومبر کو مقامی عدالت میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے ہندو فریق نے یہ دعویٰ کیا کہ یہاں کالکی مندر تھا

اور مغل حکمراں بابر نے مندر منہدم کر کے اس پر مسجد تعمیر کی۔ مقامی حج کے عدالت نے1991ء میں بنائے گئے اس قانون کو نظر انداز کر کے یہ درخواست نہ صرف سماعت کے قبول کر لی بلکہ اسی وقت مسجد کے سروے کا حکم بھی دے دیا۔

1991ء میں عبادت گاہوں کے تحفظ کے لئے اس وقت کی حکومت نے یہ قانون بنایا تھا اور واضح کر دیا تھا کہ 15 اگست 1947ء کو جو عبادت گاہیں جیسی تھیں

ویسی ہی رہیں گی اور ان کے خلاف کسی کو عدالت جانے کی اجازت نہیں رہے گی مطلب اگر آزادی کے وقت یا اس سے قبل کوئی مسجد تھی تو وہ مسجد ہی رہے گی کوئی اسے مندر کہہ کر قانونی لڑائی بھی نہیں لڑسکتا۔

اسی طرح مندر،گرجا گھر اور دیگر تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو اس قانون کے ذریعہ تحفظ فراہم کر دیا گیا تھا۔ اس قانون کی تشکیل کے وقت یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ اس قانون کا اطلاق بابری مسجد پر نہیں ہوگا کیوں کہ یہ ایک دیرینہ تنازعہ ہے اور عدالت میں زیر تصفیہ ہے۔

باری مسجد کے علاوہ ملک میں جتنی مساجد پر ہندو فرقہ پرست اور سنگھ پریوار دعوے کر رہا تھا 1991ء ایکٹ کے تحت ان پر عدالت کا دروازہ بند کر دیا گیا تھا۔ ان حقائق کے باوجود گیان واپی اور متھرا مساجد کے علاوہ دیگر کئی مساجد کے خلاف درخواستیں مختلف مقامات کی عدالتوں نے سماعت کے لئے قبول کرلی ہیں۔

عدالتیں اگر چاہتیں تو یہ درخواستیں فوری طور پر خارج کر سکتی تھیں کیونکہ 1991ء کا قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے باوجود عدالتیں ایسی درخواستیں نہ صرف قبول کر رہی ہیں بلکہ ان کی سماعت بھی کر رہی ہیں۔

جب عدالتیں آئین و قانون کی دھجیاں اُڑانے پر تلی ہوں تو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔

سنبھل کی مسجد کا عدالتی حکم پر سروے بھی ہوچکا ہے۔اس سروے میں مندر سے متعلق کوئی ثبوت یا ایسے کوئی آثار نہیں ملے جو غیر مسلموں کے دعوے کو درست ثابت کرسکیں۔

اس پس منظر میں اہم سوال یہ ہے کہ جب سروے میں کچھ نہیں ملا تو پھر دوبارہ سروے کیوں کروایا جا رہا ہے؟ انتظامیہ دوسری مرتبہ سروے کرنے پر بضد کیوں ہے؟کیا اس سے حکومت،عدالت، انتظامیہ اور فرقہ پرستوں کی بدنیتی اور مسلم دشمنی عیاں نہیں ہورہی ہے؟

سنبھل کی جامع مسجد کے پہلے سروے کی مقامی مسلمانوں نے مخالفت نہیں کی مسجد کمیٹی نے اس سروے کے دوران مکمل تعاون کیا اور سروے کمشنر کو ان کے عملہ کا ساتھ مکمل آزادی دی کہ وہ چاہے جس طرح سروے کریں

آپ کے کام میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی۔مسجد کمیٹی کے مطابق اس سروے میں کوئی ایسا سراغ یا ایسے آثار نہیں ملے جو ہندو فریق کے دعویٰ کو سچ ثابت کرسکے کہ یہاں کبھی کوئی مندر تھا۔ اس سروے کی رپورٹ سے مسلمان مطمئن تھے کہ اب یہ تنازعہ ختم ہو جائے گا

لیکن دوسری مرتبہ سروے کے حکم نے مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔مسجد کا دوسری مرتبہ سروے کرنے کے لئے اتوار کو جیسے ہی سرکاری عملہ وہاں پہنچا مقامی مسلمانوں نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔مسلمانوں کی یہ مخالفت فطری ہے کیوں کہ جب ایک بارظسروے ہوچکا ہے تو پھر دوسرے سروے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ انتظامیہ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

سرکاری عملہ مسلمانوں کو مطمئن نہیں کرسکا اور طاقت کے زور پر سروے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں مسلم نو جوان مشتعل ہوگئے۔ پولس کے لاٹھی چارج کے سبب صورت حال مزید سنگین ہو گئی۔

اسی دوران زبردست سنگ باری اور آتشزنی، صورت حال مکمل طور پر بے قابو ہوگئی تو موقع پر موجود پولس نے راست فائرنگ کرتے ہوئے مسلم نو جوانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

پولس کی وحشیانہ فائرنگ کے نتیجہ میں کئی مسلم نوجوان جاں بحق ہوگئے۔

سوال یہ ہے کہ اس پرتشدد تصادم کے لیے ذمہ دار کون ہے؟

سنبھل کی مسجد کا معاملہ اس ریاست میں طول پکڑتا جارہا جہاں پہلے بابری مسجد کا مسئلہ پورے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یکجہتی و سالمیت کے لیے دہائیوں تک چیلنج بنا رہا۔

بابری مسجد کے بعد اب گیان واپی اور متھرا کی مساجد کا تنازعہ ابھی جاری ہی ہے کہ اب سنبھل کی جامع مسجد کو دیدہ دانستہ متنازعہ بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔

یہ معاملہ صرف اتر پردیش تک ہی محدود نہیں بلکہ ہماچل پردیش، اتراکھنڈ اور گجرات میں بھی مساجد، مدارس، مقابر یہاں تک کہ قبرستانوں کو بھی متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ 1991ء کے تحفظ عبادت گاہ قانون کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے۔

عدالتیں مساجد کے خلاف درخواستیں قبول کر کے نہ صرف مذہبی مقامات کو متنازعہ بنانے والے مسلم دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں بلکہ مسلمانان ہند کے مذہبی جذبات کو بھی ٹھیس پہنچا رہی ہیں۔

یہ صورت حال ملک کے لیے تشویش ناک ہے اگر ایسی مذموم کوششوں کا سد باب نہیں کیا گیا تو اس کے مضر اثرات پورے ملک پر پڑیں گے۔ کیا عدل و انصاف کے محافظ اور قانون کی بالا دستی و برقراری کے ذمہ دار افراد و ادارے بھی قانون شکنی پر آمادہ ہیں؟

اتر پردیش میں اس وقت مسلم دشمنی عروج پر ہے۔مسلمانوں کے مذہبی مقامات کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا دیگر سماجی معاملات، بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے۔

اتر پردیش کے یہ دو واقعات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کے مسلمانوں کے تمام آئینی و جمہوری حقوق سے محروم کرنے کی پالیس پر عمل پیرا ہے یہ بات تشویش ناک اور ملک وملت کے لئے لمحہ فکر یہ ہے۔

iftikharahmadquadri@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *