سورہ توبہ ایک مختصر تعارف

Spread the love

سورہ توبہ ایک مختصر تعارف

محمد عبدالحفیظ اسلامی

سورۃ توبہ مدنیہ ہے مگر اس کے آخر کی آیتیں ’’لقد جاء کم رسول‘‘سے آخر تک کو بعض علماء مکی کہتے ہیں۔ اس سورت میں 16 رکوع 129 آیتیں 4078 کلمے اور 10488 حروف ہیں۔ اس سورت کے دس نام ہیں، ان میں سے توبہ اور برأت مشہور ہیں۔ اس سورت کے اول میں بسم اللہ نہیں لکھی گئی ، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جبریل ؑ اس سورت کے ساتھ بسم اللہ لے کر نازل نہیں ہوئے تھے

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ لکھنے کا حکم نہیں فرمایا۔ حضرت علی مرتضیٰ سے مروی ہے کہ بسم اللہ امان ہے اور یہ سورت تلوار کے ساتھ امن اُٹھادینے کے لیے نازل ہوئی اس لیے اس کے آغاز پر بسم اللہ نہیں لکھی گئی۔ بخاری نے حضرت براء سے روایت کیا کہ قرآن کریم کی سورتوں میں سب سے آخر یہی سورت نازل ہوئی (کنزالایمان) ۔

حضرت سید مودودی تحریر فرماتے ہیں کہ ؛ جس سلسلہ واقعات سے اس (سورۃ توبہ) کے مضامین کا تعلق ہے اس کی ابتداء صلح حدیبیہ سے ہوتی ہے۔

حدیبیہ تک چھ سال کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہوچکا تھا کہ عرب کے تقریباً ایک تہائی حصہ میں اسلام ایک منظم سوسائٹی کا دین ، ایک مکمل تہذیب و تمدن اور ایک کامل بااختیار ریاست بن گیا ، حدیبیہ کی صلح جب واقع ہوئی تو اس دین کو یہ موقع بھی حاصل ہوگیا کہ اپنے اثرات نسبتاً زیادہ امن و اطمینان کے ماحول میں ہر چہار طرف پھیلا سکے۔ اس کے بعد واقعات کی رفتار نے دو راستے اختیار کئے جو آگے چل کر نہایت اہم نتائج پر مبنی ہوئے۔

ان میں سے ایک کا تعلق عرب سے تھا اور دوسرے کا سلطنتِ روم سے۔ عرب میں حدیبیہ کے بعد دعوت و تبلیغ اور استحکام قوت کی جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان کی بدولت دو سال کے اندر ہی اسلام کا دائرۂ اثر اتنا پھیل گیا اور اس کی طاقت اتنی زبردست ہوگئی کہ پرانی جاہلیت اس کے مقابلہ میں بے بس ہوکر رہ گئی۔

آخرکار جب قریش کے زیادہ پُرجوش عناصر نے بازی کو ہارتے ہوئے دیکھا تو اِنھیں یارائے ضبط نہ رہا اور اُنھوں نے حدیبیہ کے معاہدہ کو توڑ ڈالا۔ وہ اس بندش سے آزاد ہوکر اسلام سے آخری فیصلہ کن مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس عہد شکنی کے بعد ان کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہ دیا اور اچانک مکہ پر حملہ کرکے رمضان 8 ھ میں فتح کرلیا۔

اس کے بعد قدیم جاہلی نظام نے آخری حرکت ’’حنین‘‘ کے میدان میں کی جہاں ’’ہوازن‘‘ ، ’’ثقیف‘‘ ، ’’نضر‘‘ ، جثم‘‘ اور بعض دوسرے جاہلیت پرست قبائل نے اپنی ساری طاقت جھونک دی تاکہ اس اصلاحی انقلاب کو روکیں جو فتح مکہ کے بعد تکمیل کے مرحلے پر پہنچ چکا تھا۔ لیکن یہ کوشش بھی ناکام ہوئی اور حنین کی شکست کے ساتھ عرب کی قسمت کا قطعی فیصلہ ہوگیا کہ اسے دارالسلام بن کر رہنا ہے۔

اس واقعہ پر پورا ایک سال بھی نہ گذر پایا کہ عرب کا بیشتر حصہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا اور نظام جاہلیت کے صرف چند پراگندہ عناصر ملک کے مختلف گوشوں میں باقی رہ گئے۔ اس نتیجہ میں حد کمال تک پہنچنے میں ان واقعات سے اور زیادہ مدد ملی جو شمال میں سلطنتِ روم کی سرحد پر اسی زمانہ میں پیش آرہے تھے 

وہاں جس جرأت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 3 ہزار کا زبردست لشکر لے کر گئے اور رومیوں نے آپ کے مقابلہ پر آنے سے پہلوتہی کرکے جو کمزوری دکھائی اس نے تمام عرب پر آپ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دھاگ بٹھادی اور اس کا ثمرہ اس صورت میں ظاہر ہوا کہ تبوک سے واپس آتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عرب کے گوشے گوشے سے وفد پر وفد آنے شروع ہوگئے اور وہ اسلام و اطاعت کا اقرار کرنے لگے۔

چناں چہ اسی کیفیت کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ : اذا جاء نصر اﷲ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اﷲ افواجا ’’اور جب اللہ کی مدد آ گئی اور فتح نصیب ہوئی اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہورہے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن جلد دوم)

سورۃالانفال ایک مختصر تعارف

دوسرے بادشاہوں کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بُصریٰ کے حاکم ’’شُرجیل‘‘ کی طرف بھی دعوت اسلام دینے کے لیے اپنا مکتوب اپنے قاصد کے ساتھ روانہ کیا۔

لیکن شُرجیل نے اسے قتل کردیا۔ ذات الطلح کے باشندے مدینہ طیبہ سے پندرہ مسلمانوں کو اپنے ہمراہ اس غرض سے لے آئے کہ وہ انھیں دین اسلام سکھائیں گے لیکن اُنھوں نے بھی غدر کیا اور مسلمانوں کو سوائے ایک کے شہید کردیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شہداء کا انتقام لینے کیلئے تین ہزار کی جمعیت حضرت زیدؓ بن حارثہ کی قیادت میں روانہ فرمائی۔ شرجیل ایک لاکھ فوج لے کر مقابلہ کے لیے بڑھا۔

اور ہرقل کا بھائی تھیوڈور بھی ایک لاکھ کا لشکر جرار لے کر اس کی امداد کو آپہنچا۔ اب تین ہزار مجاہدین کے سامنے دو لاکھ فوج صف بستہ تھی۔ مسلمان بھی کب ٹلنے والے تھے۔ جنگ شروع ہوئی یکے بعد دیگرے تین مسلمان جرنیلوں زید بن ثابت ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رض نے جام شہادت نوش کیا۔ ان کے بعد حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اسلام کا جھنڈا تھاما اور اس بے جگری اور جانبازی سے اپنے سے چھیاسٹھ گنا فوج کا مقابلہ کیا کہ ان کے دانت کھٹے کردیئے۔

اب ہرقل کی آنکھیں کھلیں کہ عرب کے جن صحر نوردوں کو وہ خاطر میں نہیں لایا کرتا تھا ان کے بازو اتنے مضبوط اور ان کی تلواریں اتنی تیز ہیں کہ اس کی دو لاکھ فوج بھی انھیں شکست نہ دے سکی۔ انہی دنوں میں یہ واقعہ بھی ظہور پذیر ہوا کہ ہرقل کی عرب فوج کا ایک اعلیٰ افسر فروہ بن عمرو جذامی مشرف بہ اسلام ہوگیا۔ ہرقل نے اسے اپنے دربار میں طلب کیا اور اسے کہا کہ یا تو اس نئے دین (دین اسلام) سے تائب ہوکر اپنا سابقہ مذہب (عیسائیت) اختیار کر ورنہ تیرا سر قلم کردیا جائے گا۔

انہوں نے بڑی خوشی سے جان دیدی لیکن اپنے ایمان سے دستکش ہونا گوارا نہ کیا۔ ان واقعات نے ہرقل کو چوکنا کردیا اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ آج ہی مسلمانوں کی ہر لحظہ بڑھتی ہوئی قوت کو کچل دے گا۔ چنانچہ اس نے زور و شور سے جنگ کی تیاری شروع کردی اور خود بڑھ کر مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے پر تولنے لگا۔ (حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ دور بین ، ہرقل کی اس فتنہ و فساد کی باتوں تک جا پہنچی) ۔ چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شام پر چڑھائی کا عزم فرمالیا۔

صحابہ کرام فرماتے ہیں جب جہاد پر جانے کا حکم ہوا تو شدت کی گرمی تھی ، باغات میں کھجوریں پک رہی تھیں ، کھجوریں کھانے ، ٹھنڈا پانی پینے ، گھنے سایہ میں بیٹھنے اور آرام کرنے کے دن تھے۔ جب جنگ کی تیاری کا حکم ہوا تو مردانِ وفا کیش تو بلا تامل تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوگئے۔ اور ہر ایک نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مالی امداد بھی کی۔ عورتوں نے اپنے کانوں کی بالیاں اور گلے کے ہار تک اُتار کر پیش کردیئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ہزارہا اشرفیاں لاکر قدموں میں ڈھیر کردیئے۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی عمر بھر کا اندوختہ اُٹھاکر بارگاہِ نبوت میں حاضر کردیا۔ لیکن ان سرفروشوں اور جانثاروں کے علاوہ کئی اور عناصر بھی تھے۔ ایک عنصر منافقین کا تھا وہ بھلا کب تک ان زخموں اور صعوبتوں کو گوارا کرنے والے تھے۔ طرح طرح کے جھوٹے اور بے سروپا بہانے پیش کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے صرف نظر کرلیتے۔

یہ لوگ اور دوسرے مشرک دل ہی دل میں بڑے خوش تھے۔ انھیں یقین تھا کہ مسلمان اب بچ کر واپس نہیں آئیں گے بلکہ قیصر کی افواج قاہرہ انھیں کاٹ کر رکھ دیں گی اور اس طرح اسلام کا چراغ بجھ جائے گا۔ ان کی ساری اُمیدیں اب اس جنگ پر مرکوز ہوکر رہ گئی تھیں۔

آخر تیس ہزار کا یہ لشکر اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اپنے مولائے کریم کا نام بلند کرنے کے لیے اور اسلام کی عظمت کا جھنڈا گاڑنے کیلئے موسم کی ناسازگاری کے باوجود بڑھتا چلا گیا اور تبوک کے مقام پر جاکر خیمہ زن ہوا۔ (ضیاء القرآن)

قیصر کو جب اطلاع ہوئی کہ جن کو مٹانے کے لیے ہم پوری تیاری کررہے تھے وہ خود ہمارے ملک اور ہماری سرزمین پر ہمیں للکارنے آچکے۔ ان حالات میں قیصر نے اس چیز میں مصلحت جانی کہ اپنی فوجوں کو سرحد سے ہٹائے اور فوج کو اپنے شہر میں قلعہ بند کردے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیس روز تک وہاں قیام فرمایا اور اس عرصہ میں ارد کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو اپنا باج گذار بنایا۔

چناں چہ جربا اذرح اور عمان کے لوگوں نے جزیہ دینے پر صلح کی۔ ایلہ کا عیسائی حکمراں یوحنا دربار سالت صلی اللہ علیہ وسلم میں آکر صلح کا خواہاں ہوا اور تین سو دینار سالانہ ادا کرنے پر مصالحت کی۔ علاوہ ازیں ارد گرد جتنے قبائل تھے یا تو مسلمان ہوگئے یا باج گذار۔

اس طرح عرب کی یہ سرحد دشمن کی یلغار سے محفوظ ہوگئی اور دوسری طرف قیصر کی یہ خام خیالی بھی دور ہوگئی کہ مسلمان ایک تر نوالہ ہیں اور تمام عرب قبائل پر مسلمانوں کی اچھی دھاک بیٹھ گئی۔ اب رہے منافقین اور اسلام کے بدخواہ ان کی تو آرزوؤں پر پانی پھر گیا۔ غزوۂ تبوک کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا جو اپنی اہمیت میں کسی سے کم نہیں کہ منافقین بے نقاب ہوگئے اور جو مراعات ان کے ساتھ پہلے روا رکھی جاتی تھیں ان سے وہ محروم کردیئے گئے۔

دوسر ا اہم واقعہ جو اس سورۃ توبہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ وہ مشرکین اور کفار کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی تنسیخ ہے۔ حضور رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کوشش فرمائی کہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ صلح و سلامتی سے رہیں۔ اسی مقصد کے لیے ان کے ساتھ صلح کے معاہدے کیے گئے۔ لیکن فریق ثانی نے ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اور جب کبھی موقع ملا عہد شکنی کردی۔ اسی سال ماہ ذی قعد میں مسلمانوں کا ایک قافلہ حج کے لیے روانہ ہوا۔

امیرالحج حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے۔ اس قافلہ کی روانگی کے بعد اس سورۃ کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں کیوں کہ مجمع عام میں ان کا اعلان کرنا ضروری تھا اور حج کے موقع پر عرب کے اطراف و اکناف سے لوگ جمع ہونے والے تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو پیچھے روانہ فرمایا تاکہ حج کے روز یہ اعلان عام کردیا جائے۔

لیکن یہ یاد رہے کہ تمام کفار سے کیے گئے معاہدوں کی تنسیخ نہیں کی جارہی بلکہ ان قوموں کے معاہدوں کی تنسیخ کا اعلان کیا جارہا ہے جنھوں نے پہلے عہد شکنی کی تھی۔ چناں چہ آیت 4 میں اس کی تصریح موجود ہے۔

اب عرب کے طول و عرض میں اسلام کا پرچم لہرارہا تھا تو ضروری تھا کہ کعبۂ مقدس سے کفار کی تولیت ختم کردی جائے اور اہل ایمان کو اس کا متولی بنایا جائے۔ چناں چہ یہ حکم بھی فرمادیا کہ آج کے بعد مسلمان ہی کعبہ اور مسجد حرام کی خدمت انجام دیا کریں گے۔ (حوالہ مذکور بالا)

سورۃ کے ختم پر اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف بڑے ہی انوکھے انداز میں فرمارہے ہیں اور ان نادان لوگوں کو یہ بتایا جارہا ہے کہ تم لوگوں نے اب تک جس پاکیزہ و مبارک شخصیت کی مخالفت کرتے چلے آئے ہو یہ کوئی معمولی شخصیت نہیں ہے بلکہ یہ تمہارے ہی لیے ایک رحمت ہیں

ایک شفقت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال تو یہ ہے کہ تمہاری فلاح و کامیابی کے لئے ہر وقت بے قرار رہتے ہیں اور تمہارا نقصان میں پڑجانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گذرتا ہے۔

محترم قارئین کرام!

سورہ توبہ کا مطالعہ کرتے وقت مزکورہ بالا واقعات کو ذہن میں رکھا جاے تو ان شاء اللہ تعالی متعلقہ آیات کو سمجھنے اور اس پر غور فکر کرنے ، اس پر عمل کرنے کا جذبہ اپنے اندرابھرتاہے ،جو بڑی نعمت و خوش نصیبی ہے۔

محمد عبدالحفیظ اسلامی

سینئر کالم نگار

فون نمبر : 9849099228

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *