لہو لہان سنبھل
لہو لہان سنبھل
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سمیٹے سنبھل شہر کی گلیاں لہو لہان ہیں۔چاروں طرف پولیس کا پہرہ، راستوں کی بیری کیڈنگ اور آسمانوں پر لہراتے ڈرون کیمرے سنبھل کی کہانی صاف بیان کرتے ہیں۔
یہ سب چوبیس نومبر 2024 کی صبح اس فساد کی وجہ سے ہوا جو پہلی نظر میں اچانک ہوا حادثہ لگتا ہے لیکن حادثے کی سنگینی اور پس منظر کی کڑیاں صاف اشارہ کرتی ہیں کہ سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا دکھائی دے رہا ہے یا دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یقیناً اس فساد کے پیچھے ضرور کوئی منصوبہ بند سازش ہے جس کی وجہ سے آج سنبھل کی گلیاں لہولہان ہیں، سیکڑوں لوگ زخمی، درجنوں گرفتار اور پانچ نوجوان گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہو چکے ہیں۔
اصل قضیہ
سنبھل کی شاہی جامع مسجد عہد مغل کی یادگار ہے۔بابری مسجد کے ایک سال بعد سن 1529 کو اس کی تعمیر ہوئی۔تب سے لیکر آزادی تک کبھی کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔آزادی کے بعد بابری مسجد پر فرقہ پرستوں نے تنازعہ ضرور کیا
لیکن سنبھل کی مسجد تب بھی تنازعہ سے پاک رہی لیکن 2014 میں مرکز میں بی جے پی کی حکومت کے بعد شدت پسند ہندو لابی نے شاہی مسجد کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ شاہی مسجد ہندوؤں کے ہری ہر مندر کو توڑ کر بنائی گئی ہے لہٰذا ہندوؤں کو مسجد واپس دلائی جائے۔
اسی پروپیگنڈے کے تحت چھ دن پہلے 19 نومبر کو ہندو فریق نے ضلع کورٹ میں شاہی مسجد کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔جج آدتیہ سنگھ نے دو گھنٹے کے اندر شنوائی کرتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر مسجد کے سروے کا آرڈر پاس کیا
اور 29 نومبر تک سروے رپورٹ کورٹ میں پیش کرنے کا حکم سنا دیا۔جج صاحب کی طرح پولیس انتظامیہ کی پھرتی کی داد دینا ہوگی کہ انہوں نے ایک ہفتے کی بجائے اسی رات میں مسجد کا سروے بھی کرا دیا۔جامع مسجد کمیٹی اور مسلمانوں نے انتہائی صبر وتحمل کا ثبوت دیتے ہوئے سروے ٹیم کو پورا تعاون دیا۔
رات گیارہ بارہ بجے تک سروے چلتا رہا، سروے کی بعد ضلع انتظامیہ اور اے ایس آئی کی ٹیمیں واپس لوٹ گئیں۔اگلے دن یعنی بیس نومبر کو مسلمانوں نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا فیصلہ لیا۔
چوں کہ ابھی سروے رپورٹ کے جمع ہونے میں وقت تھا اس لیے ذمہ داران اپنی تیاریوں میں لگے گیے۔اس درمیان ہندو کمیونٹی کی جانب سے ڈی ایم کو درخواست دی گئی کہ ہم لوگ سروے سے مطمئن نہیں ہیں اس لیے دوبارہ سروے کرایا جائے۔
ڈی ایم صاحب نے بغیر عدالتی نوٹس کے خود ہی دوبارہ سروے کا حکم دیا اور چوبیس نومبر کی صبح سات بجے ہندو فریق کا وکیل وشنو شنکر جین بہت سارے اوباشوں کی بھیڑ کے ساتھ مسجد پہنچا۔
یہ بھیڑ لگاتار جے شری رام کے نعرے لگا رہی تھی۔ان کے اکساوے اور شرارت کی وجہ سے مسلمان بھی جمع ہونا شروع ہوگیے۔مسجد کے اندر سروے ٹیم اور پولیس انتظامیہ کی موجودگی میں دوبارہ سروے شروع ہوا۔ادھر باہر ہندو شدت پسندوں کی بھیڑ کے ہنگامے سے مسلمان مشتعل ہوگیے۔
سی او سنبھل شاید اسی کے انتظار میں تھا اس نے لاٹھی چارج کرا دیا۔اس کے بعد ہنگامہ بھگڈر اور پتھراؤ شروع ہوگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کی بندوقیں حرکت میں آگئیں۔جب ہنگامہ تھما تو جامع مسجد کے آس پاس کی گلیاں خون سے آلودہ ہوچکی تھیں۔تین نوجوان موقع پر ہی اور دو اسپتال میں پہنچ کر شہید ہوگیے۔
ضلع انتظامیہ کا متعصب کردار
اس پورے قضیہ میں کچھ سوالات ایسے ہیں جو ہر کسی کو شک میں ڈال رہے ہیں؛1 ۔ضلع جج آدتیہ سنگھ نے ہندو فریق کو عرضی کو پہلے ہی دن کیسے قبول کر لیا۔اسی دن شنوائی بھی کرلی اور اسی دن سروے کا آرڈر بھی کر دیا، آخر اتنی جلدی کس بات کی تھی، ٹرین چھوٹی جا رہی تھی یا قیامت آنے والی تھی؟
یہ معاملہ کسی مکان یا دکان کا نہیں بل کہ اے ایس آئی(Archaeological Survey of India) میں شامل پانچ سو سال پرانی تاریخی مسجد کا تھا۔
اتنی اہم جگہ کے متعلق بغیر دوسرے فریق کو سنے ایک طرفہ شنوائی کیوں ہوئی اور سروے کا آرڈر آخر کس لیے دیا گیا؟
2 ۔جب جج صاحب نے پولیس کو ایک ہفتے کا وقت دیا تھا تو ایسی کیا جلدی تھی کہ پولیس انتظامیہ نے آنا فاناً سروے ٹیم کو بلا کر رات ہی کو سروے کرانا پڑا۔پولیس انتظامیہ شہر کے معزز مسلمانوں، جامع مسجد کمیٹی اور شہر کے ممبر اسمبلی اور ممبر آف پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر سروے نہیں کرا سکتی تھی؟
3۔جب اسی رات میں سروے ہوچکا تھا تو بغیر عدالتی آرڈر کے دوبارہ سروے آخر کیوں کرایا گیا؟
4۔ہندو فریق کے وکیل کے ساتھ شدت پسند ہندوؤں کی بھیڑ کو کس لیے آنے دیا گیا اور ان کے جارحانہ نعروں کے باوجود انہیں روکا کیوں نہیں گیا؟
5۔جب مسلمانوں نے شدت پسندوں کے مقابلے آواز اٹھائی تو لاٹھی چارج اور گولی کیوں چلائی گئی؟ کیا اس کے بغیر مجمع کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تھا؟
یہ وہ سوالات ہیں جو نہ صرف مسلمانوں کی طرف سے ہیں بل کہ امن پسند ہندو بھی اٹھا رہے ہیں۔انڈیا ٹی وی کے متعصب اینکر رجت شرما جیسے صحافی نے بھی سنبھل پولیس اور ضلع جج کی جلد بازی پر سوال اٹھائے ہیں۔
مگر مسلم دشمنی کا شور اس قدر تیز ہے کہ ہر سوال اس شور میں دبا دیا جا رہا ہے۔سوشل میڈیا پر شدت پسند ہندو خوشیاں منا رہے ہیں، پولیس کو شاباشیاں دے رہے ہیں۔
مرنے والوں کی کم تعداد پر افسوس کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کی خونی پیاس ابھی بجھی نہیں ہے انہیں ابھی اور خون چاہیے۔موقع ملے جسے بھی وہ پیتا ضرور ہےشاید بہت مٹھاس ہمارے لہو میں ہے