جلسۂ تعزیت برائے مفتی کرناٹک علیہ الرحمہ

Spread the love

جلسۂ تعزیت برائے مفتی کرناٹک علیہ الرحمہ

آل کرناٹکا بزم رضائے قدسی بنگلور کی جانب سے گذشتہ شب مفتی کرناٹک حضرت علامہ مفتی محمدانورعلی حشمتی علیہ الرحمہ کے دسویں کی فاتحہ کے موقع پر آمری فنکشن ہال،سنی چوک، گڑد ھلی میں جلسۂ تعزیت کی محفل منعقد کی گئی جس میں شہرواطراف سے مفتیان عظام وعلمائے کرام اور عمائدین شہروعوام و خواص اہل سنت وجماعت نے کثیرتعداد میں شرکت کی۔

اعلان کے مطابق بعدنماز مغرب مدرسہ اہل سنت جامع العلوم قدوسیہ رضویہ کے طلبہ نے ختم قرآن کریم کیااور بعد نماز عشاء محفل کا آغاز حافظ احمد سیفی کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا۔حافظ تبریز،حافظ عبدان اور شیراز نے یکے بعد دیگرے نعت پاک، حافظ احمدسیفی نے منقبت فریدی پیش کی اور نظامت کے فرائض مولانا فخرالدین نظامی نے بحسن وخوبی انجام دیئے ۔

مولانا فیاض علی رضوی نے کہاکہ:جب مفتی کرناٹک موڈگیرہ جامع مسجد تشریف لائے تو اس وقت میری عمربہت کم تھی میں تب سے آپ سے وابستہ ہوں،آپ ہی کا احسان ہے کہ ہم لوگ حضرت تاج الشریعہ کے مرید ہیں اور مذہب اہل سنت ومسلک رضاپر قائم ودائم ہیں۔مولانا سیدربانی نے کہاکہ:

آپ تقویٰ وطہارت ،خوف وخشیت الٰہی اور عشق رسول ﷺ میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔انتقال کی رات آپ نے اپنے قریبی علماء ومتعلقین کو کچھ وصیت فرمائی کہ جیساکہ تمام لوگوں کو معلوم ہے کہ طویل علالت کے باعث ضعف ونقاہت کی وجہ سے بعذرشرعی میری کچھ نمازیں قضا ہوگئیں ہیںجن کا میں نے حساب لگالیاہے اور ان کا فدیہ تقریبا ایک لاکھ روپیوں سے کچھ زیادہ ہے

لہذامیں نے وفدیہ بھی اٹھارکھاہے میرے بعد وصال اس کو دینی کاموں میں خرچ کردینا۔اس بات کی گواہی محفل میں موجود مولانا فخرالدین نظامی نے دی کہ میں اس وقت موجود تھا جب آپ نے یہ وصیت فرمائی۔

یہ بات ہمارے لئے یقینا مشعل راہ ہے۔مولانا عاقب آمری نے کہاکہ:مفتی کرناٹک سے بالمشافہ کئی ملاقاتیں ہوئیں آخری ملاقات ملناڈ اسپتال میں زیرعلاج ہوئی ۔عیادت کے وقت بھی آپ کے دل میں اہل سنت کے تعلق سے درد تھا کہ یہ عقائد واعمال میں مضبوطی پیداکریں اور اسی پرقائم ودائم رہیں۔آپ علماء سے بہت محبت فرماتے تھے۔مولانا ارشدرضااشرفی نے کہا کہ:

حضور مفتی کرناٹک جب دنیا میں تھے توکامیاب تھے اور جب رخصت ہوئے تو اہل سنت کو کامیابی کا مژدہ سناکر چلے گئے۔آپ کی ذات یقینا نمونۂ اسلاف تھی۔آپ استقامت کے ایک کوہ گراں تھے۔آپ غیروں کے لئے جتنے سخت تھے اس سے بڑھ کر اپنوں کے لئے رحم دل ومہربان تھے۔آپ کی ذات صرف مرجع عوام وخواص ہی نہیں بلکہ مرجع العلما بھی تھی۔مولانا اجمل خوش حالی نے کہا کہ آپ نے جہاں ریاست کرناٹک میں اہل سنت وجماعت کی ترویج واشاعت میں اہم کر دار ادا کیا وہیں سری لنکا میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔

آپ ہرچھوٹے بڑے سے بڑی خندہ پیشانی سے ملاقات فرماتے تھے۔قاری ذوالفقاررضانوری نے کہاکہ:آپ ریاست کرناٹک کے سب سے بڑے عالم دین تھے، ان کا زہدوتقویٰ وطہارت اور علم بڑااعلیٰ تھا، علم حدیث وفقہ پر کامل دسترس حاصل تھی،مرکز اہل سنت جامعہ حضرت بلال بنگلور آپ کی محنتوں،کوششوں اور کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔

اس کا اعتراف تو بانی جامعہ الحاج اے امیرجان قادری نے بارہا کیا ۔اس میں دارالافتاء اور دارالقضاہ کا قیام بھی آپ ہی کے مرہون منت ہے۔آپ کی ذات ایک چلتی پھرتی لائبریری اور جامعہ تھی۔جامعہ بلال میں ایک مرتبہ فسخ نکاح پر فقیہ النفس مفتی مطیع الرحمن رضوی مضطرؔ،مبلغ اسلام علامہ قمرالزماں اعظمی اور مفتی کرناٹک علیہ الرحمہ کے مابین کئی گھنٹوں تک بحث ومباحثہ جاری رہا۔علامہ قمرالزماں اعظمی نے وقت رخصت فرمایا قاری صاحب!

حضرت مفتی کرناٹک پڑھائی کے زمانہ میں بھی بہت تیز تھے مگراتنا عرصہ گزرنے کے باوجود گفتگوسے اندازہ ہوتاہے کہ آ پ کا علم آج بھی زندہ وجاوید ہے۔مفتی اصغرعلی رضوی نے کہا کہ آپ کا وصف خاص یہ ہے کہ آپ سائل کے سوال کا شافی وافی وکافی جواب عطافرماتے تھے حتی کہ اگرموقع ومحل پرجا کر مسئلہ کو بیان کرنا ضروری سمجھتے تو آپ بلاتکلف وہاں پہنچ کر مسئلہ کی شرح وبسط کے ساتھ وضاحت فرمادیتے۔آخری وقت تک آپ نے وعظ ونصیحت کی محفل گرم رکھی یہاں تک کہ ضعف ونقاہت کے باوجود جلوس محمدی ﷺ رام نگرم کے اختتام پر پہنچ کرعوام وخواص کو دین وسنت پر قائم رہنے کی تلقین فرمائی۔مفتی محمداسلم مصباحی چیف قاضی ادارہ شرعیہ کرناٹک نے کہاکہ:

میں نے بارہا مفتی کرناٹک سے متعدد مسائل میں رجوع کیا آپ نے بہت شفقت ومحبت سے اس کو حل فرمادیا۔آپ نے ہمیشہ اہل سنت کے درمیان باہم اتحاد واتفاق پر زوردیا مگر جن کے عقائد بگڑے ہوئے تھے یا جو لوگ راہ ِ راست سے ہٹے ہوئے تھے ان سے اتحاد تو دور کی بات ان کانام لینا بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔مفتی صاحب ادارہ شرعیہ کرناٹک کے صدر تھے اور تادم آخر اسی منصب پر فائز رہے۔آپ حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے معتمد خاص تھے۔

حضور محدث کبیر مدظلہ العالی بھی آپ پر کامل اعتماد وبھروسہ فرماتے ۔ایک مرتبہ فرمایا کہ جس جلسہ میں مفتی کرناٹک شامل ہوں وہ ہرطر ح کے گھال میل سے پاک ہوگا تبھی وہ شریک ہوتے ہیں۔مولانا فخرالدین نظامی نے کہاکہ:

مذہب اہل سنت اور مسلک رضا کی ترویج واشاعت کے حوالے سے پورے صوبۂ کرناٹک کی ایک آن اور شان کا نام حضور مفتی کرناٹک تھا۔ آخر میں مفتی سید ذبیح اللہ نوری بانی وصدر آل کرناٹکا بزم رضائے قدسی بنگلور نے کہا میرے استاذ گرامی حضور محدث اعظم رامپور علیہ الرحمہ کے بعد مفتی کرناٹک کی ذات والاصفات میرے لیے رحمت الٰہی تھی،آپ بہت شفقت ومہربانی فرماتے،میرے دینی وملی کاموں کو سراہتے،ہرموڑ پر نصیحت وہدایت اور رہنمائی فرماتے۔بارہاارشاد فرماتے سید صاحب آپ مضبوطی کے ساتھ کام کیجئے ،ہرمخالفت کا جواب کام ہے یقینا ایک دن کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔پھرموصوف نے بزم کی جانب سے جملہ مفتیان عظام وعلمائے کرام اور عمائدین شہرو عوام وخواص کا شکریہ اداکیا۔

پھر صلوٰۃ وسلام اور مفتی اصغرعلی رضوی کی دعاپر یہ پرنور محفل اختتام کو پہنچی۔ شرکاء محفل کے اسماء ہیں: مولانا غلام مصطفیٰ اشرفی، مولانا حسین اشرفی،مولانا امان اللہ مصباحی،مولانا عبدالبصیرآمری، مولانامحمد توحید رضاعلیمی، مولانا الیاس قادری، مولانا شکیل احمدرضوی،مولانا قاسم رضارضوی،مولانا توصیف رضامصباحی،مفتی مرادعلی رضوی،مولانا اسرافیل مصباحی، مولانامزمل ملک رضوی

مولانا شکیب قادری،مولانا بشیرنعمانی،حافظ ظفرانور،حافظ سید نواب رضوی،صوفی فیاض علی ،حافظ شریف قادری،عمائدین میں افسربیگ قادری، سیکریٹری جلوس محمدی کمیٹی،الحاج انیس احمدخاں نائب چیرمین جامعہ بلال،الحاج سید صادق ارشاد قادری صدر امام احمدرضا مومنٹ،الحاج اللہ بخش آمری صدر مسجد غوث اعظم،مشتاق احمد آمری سیکریٹری، وسیم احمد انصاری گروصدر مسجد آمر کلیمی،مشتاق احمد آمری سیکریٹری،صدام بیگ ایڈوکیٹ، ایاز محمود، بابو بھائی، حسنین عسجد،سید حذیف شاہدی وغیرہ شامل رہے۔(شعبۂ نشرواشاعت امام احمدرضامومنٹ بنگلور)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *