مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق اسلامی اخوت کی بنیادیں
مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق اسلامی اخوت کی بنیادیں
از: محمد شمیم احمد نوری مصباحی
خادم: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤ شریف،گرڈیا،ضلع:باڑمیر(راجستھان)
اسلام ایک ایسا دینِ فطرت ہے جو انسان کے قلب و روح کی تطہیر کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کو نورِ ہدایت سے منور کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسانوں کے درمیان اخوت، محبت، اور باہمی تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔
انہی تعلیمات کی روشنی میں رسولِ اکرم ﷺ نے مسلمانوں کے آپس میں چھ ایسے حقوق بیان فرمائے ہیں جو ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں سنگِ بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ: إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَشَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ، وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ”(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1240)ترجمہ: “ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں
۔”صحابہ کرام نے عرض کیا: وہ کیا ہیں یا رسول اللہﷺ ؟حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:1:جب اس سے ملاقات کرو تو سلام کرو۔2:جب وہ تمہیں دعوت دے تو قبول کرو۔3:جب وہ تم سے نصیحت طلب کرے تو اسے نصیحت کرو۔4:جب وہ چھینک لے اور الحمد للہ کہے تو اس کے لیے دعائے رحمت کرو (یَرحمک اللہ کہو)۔5:جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو۔6:اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو۔یہ چھ حقوق ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان پر ایسی ذمہ داریاں ہیں جن پر عمل کرکے ہم نہ صرف اپنی شخصیت کو سنوار سکتے ہیں بلکہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ بھی قائم کر سکتے ہیں
۔1. سلام کرنا، محبت اور اخوت کا پیغام:اسلامی معاشرت کی بنیاد سلام پر رکھی گئی ہے۔ سلام نہ صرف ایک دعا ہے بلکہ یہ امن، محبت، اور اخوت کا مظہر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ”(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 54)
ترجمہ: “تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک ایمان نہ لاؤ، اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوگا جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس سے تم آپس میں محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام کو عام کرو
۔”سلام کو عام کرنے سے دلوں میں محبت بڑھتی ہے اور باہمی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ سلام کرنا سنت مؤکدہ ہے، اور اس کا جواب دینا واجب ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق سلام کرنا نبی اکرم ﷺ کی سنت ہے اور مسلمانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”فَإِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا”(سورۃ النساء: 86)ترجمہ: “اور جب تمہیں کوئی سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا اسی کو لوٹا دو۔”اس سے واضح ہوتا ہے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے، لیکن سلام کرنے کا عمل سنت ہے۔ البتہ، بعض علماء نے اسے مستحب بھی قرار دیا ہے، کیوں کہ یہ اچھے اخلاق اور محبت کے اظہار کا اہم ذریعہ ہے۔
لہذا، سلام کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اسے اسلامی معاشرت کا ایک لازمی حصہ سمجھا گیا ہے۔2. دعوت کو قبول کرنا،اسلامی اخوت کا عملی اظہار:دعوت قبول کرنا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے۔ دعوت کے ذریعے محبت اور خلوص بڑھتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيُجِبْ عُرْسًا كَانَ أَوْ نَحْوَهُ”(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1429)
ترجمہ: “جب تم میں سے کسی کو اس کا بھائی دعوت دے تو وہ اس دعوت کو قبول کرے، چاہے وہ ولیمہ ہو یا کوئی اور موقع۔”دعوت قبول کرنا اسلام میں ایک اہم اخلاقی اور سماجی عمل ہے، جس کی قرآن و سنت میں بڑی تاکید کی گئی ہے۔
اس کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ یہ عمل محبت، بھائی چارے اور اجتماعیت کو فروغ دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:> “وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى”(سورۃ المائدہ: 2)یعنی نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔دعوت قبول کرنا بھی ایک طرح کی نیکی ہے کیوں کہ اس سے میزبان کی خوشی اور دل جوئی ہوتی ہے۔نیز نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”مَنْ دُعِيَ فَلْيُجِبْ”(صحیح بخاری: 5173)
یعنی جس شخص کو دعوت دی جائے، اسے چاہیے کہ وہ دعوت قبول کرے۔ایک اور حدیث میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”حق المسلم على المسلم ستٌّ…”اور ان چھ حقوق میں سے ایک یہ بیان کیا کہ جب تمہیں دعوت دی جائے تو قبول کرو۔(صحیح مسلم: 2162)
دعوت قبول کرنے سے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے، تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا اظہار ہوتا ہے-دعوت قبول کرنے سے معاشرتی تعلقات میں قربت پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کے درمیان فاصلہ کم ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا عمل ہے جو معاشرے کو متحد رکھنے میں مدد دیتا ہے-اگر بغیر کسی شرعی عذر کے دعوت کو رد کیا جائے، تو یہ میزبان کی دل آزاری کا سبب بن سکتا ہے، جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔نبی اکرم ﷺ نے خاص طور پر ولیمہ کی دعوت کو قبول کرنے کی تاکید کی ہے اور فرمایا:”جب تمہیں ولیمہ کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرو۔”(صحیح بخاری: 5177)دعوت قبول کرنا صرف میزبان کی خوشی کا باعث نہیں بنتا بلکہ یہ عمل انسان کے لیے اجر کا بھی ذریعہ بنتا ہے، کیون
کہ یہ سنت نبوی ﷺ کی پیروی ہے۔حاصل کلام یہ ہے کہ دعوت قبول کرنا اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے، جو اخلاق، محبت، اور بھائی چارے کے فروغ کا ذریعہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اگر کوئی جائز دعوت دی جائے تو حتی الامکان اسے قبول کریں اور میزبان کی عزت افزائی کریں۔3. نصیحت کرنا، خیرخواہی کی بنیاد:.
نصیحت اسلامی معاشرت کا ایک اہم ستون ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”الدِّينُ النَّصِيحَةُ” قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: “لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ”(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 55)ترجمہ: “دین خیرخواہی کا نام ہے۔” ہم نے عرض کیا: کس کے لیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے اماموں کے لیے، اور تمام مسلمانوں کے لیے۔”نصیحت میں اخلاص اور خیرخواہی کا ہونا ضروری ہے تاکہ مسلمان بھائی کو نفع پہنچے اور وہ برائی سے بچ سکے۔نصیحت ایک ایسا عمل ہے جو معاشرے میں خیر کو پھیلانے اور برائی کو ختم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے درمیان محبت، اخوت، اور بھائی چارے کو فروغ دیتی ہے۔
ایک دوسرے کے لیے خیرخواہی کا جذبہ اسلامی معاشرت کی بنیاد ہے، اور اسی سے وہ مثالی امت وجود میں آتی ہے جس کا ذکر قرآن میں یوں کیا گیا ہے:”كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ”(آل عمران: 110)ترجمہ: “تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے نکالی گئی ہو۔ بھلائی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔”حاصل کلام یہ ہے کہ نصیحت دین اسلام کی روح ہے اور اس کی بنیاد اخلاص، محبت، اور خیرخواہی پر ہے۔ اگر ہر مسلمان اس ذمہ داری کو سمجھ کر ادا کرے تو ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جو حقیقی معنوں میں اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار ہوگا۔4. چھینک کا جواب دینا، محبت اور دعاؤں کا عظیم عمل:اسلام میں چھینک کو بھی محبت، دعاؤں اور اچھے تعلقات کا ذریعہ سمجھا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حوالے سے اپنی حدیث میں فرمایا:”إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَإِذَا قَالَ لَهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَلْيَقُلْ: يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ” (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6224)ترجمہ: “جب تم میں سے کوئی شخص چھینک لے تو وہ ‘الحمد للہ’ کہے، اور اس کے بھائی یا ساتھی کو چاہیے کہ وہ ‘یَرحمک اللہ’ کہے۔ پھر جب وہ ‘یَرحمک اللہ’ کہے، تو جواباً وہ شخص ‘یَہدیِکم اللہ وَیُصلِحُ بالَکم’ کہے۔”یہ حدیث نہ صرف ایک خوب صورت آداب سکھاتی ہے بلکہ آپس میں محبت، دعا اور خیر مقدمی کے رشتہ کو مضبوط کرتی ہے۔ چھینک کا جواب دینا ایک معمولی عمل نہیں، بلکہ یہ ایک اخلاقی، روحانی اور سماجی حسن کا مظہر ہے جس سے دلوں میں قربت اور محبت بڑھتی ہے۔
اس عمل سے اسلامی معاشرت کی خوبصورتی اور ایک دوسرے کے لیے خیرسگالی کا اظہار ہوتا ہے۔5. بیمار کی عیادت، محبت اور ثواب کا ذریعہ:عیادت کرنا اسلام میں محبت، ہمدردی اور خیرخواہی کا عملی مظہر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ عَادَهُ عَشِيَّةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ”(سنن ترمذی، حدیث نمبر: 969)
ترجمہ: “جو مسلمان صبح کے وقت کسی بیمار کی عیادت کرتا ہے، اس کے لیے شام تک ستر ہزار فرشتے دعائیں کرتے ہیں۔ اور اگر شام کے وقت عیادت کرتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے دعائیں کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہے
۔”عیادت نہ صرف بیمار کے دل کو تسلی دیتی ہے بلکہ عیادت کرنے والے کو بےشمار اجر اور جنت کی بشارت بھی عطا کرتی ہے۔ یہ عمل مسلمانوں کے درمیان اخوت اور دینی بھائی چارے کو مضبوط کرتا ہے
۔6. جنازے میں شریک ہونا، اخوت کا آخری حق:.
جنازے میں شرکت کرنا مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق میں سے ایک اہم ترین اور آخری حق ہے جو ایک مسلمان کو اپنے بھائی کی وفات کے بعد ادا کرنا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی عظمت کو اس طرح بیان فرمایا:”مَنْ تَبِعَ جَنَازَةَ مُسْلِمٍ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، وَكَانَ مَعَهُ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا وَيُفْرَغَ مِنْ دَفْنِهَا، فَإِنَّهُ يَرْجِعُ مِنَ الْأَجْرِ بِقِيرَاطَيْنِ، كُلُّ قِيرَاطٍ مِثْلُ أُحُدٍ”(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1325)ترجمہ: “جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے پیچھے چلتا ہے، اور اس کے ساتھ نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد تدفین تک اس کے ساتھ رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے دو قیراط کے برابر بے شمار اجرو ثواب عطا فرماتا ہے، اور ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوگا۔” (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1325)یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جنازے میں شرکت ایک مسلمان کی عبادات اور حسن سلوک کا مظہر ہے، جو اس کے ایمان اور اخوت کی حقیقت کو نمایاں کرتا ہے۔
اس عمل میں شریک ہونا نہ صرف مُتوفی کی روح کے لیے باعث سکون ہوتا ہے بلکہ اس سے دنیا و آخرت میں انسان کو بے شمار اجرو ثواب بھی ملتا ہے۔حاصل کلام یہ ہے کہ یہ مذکورہ چھ حقوق اسلامی معاشرت کا بنیادی ڈھانچہ ہیں۔ اگر ہر مسلمان ان حقوق کا خیال رکھے تو ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل پائے گا جو محبت، اخوت، اور امن کا گہوارہ ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقوق کو اپنی زندگی میں شامل کریں اور اللہ کی رضا حاصل کریں۔
بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ: ہم سبھی مسلمانوں کو ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری زندگی کو ان کے نور سے منور کرے۔ آمین۔