عالم اسلام سفر حج سے متعلق سعودی حکومت کےمن مانے فیصلوں سے پریشان و مضطرب
عالم اسلام سفر حج سے متعلق سعودی حکومت کےمن مانے فیصلوں سے پریشان و مضطرب : مفتی محمد سلیم مصباحی بریلوی
پریس ریلیز درگاہ ترجمان
درگاہ اعلی حضرت کے ترجمان ناصر قریشی نے بتایا کہ سعودی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے نئے قوانین جن میں والدین کے ذریعہ 12 سال سے کم عمر کے بچوں کو سفر حج کے لئے ساتھ میں لے جانے پر نئی پابندی عائد کی گئی ہے اور حالیہ برسوں میں سعودی حکومت نے حاجیوں پر طرح طرح کے ٹیکس لگا کر حج کو جو بہت زیادہ مہنگا کر دیا ہے
اس پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے مرکز اہلسنت خانقاہ رضویہ درگاہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف کے مفتی محمد سلیم بریلوی نے کہا کہ حج دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان و فرائض میں سے ایک رکن اور فرض ہے جودین اسلام کیاہم اور بنیادی عبادات میں آتا ہے۔
یہ ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو حج کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ ایک مسلمان اللہ کے گھر اور اس کے رسول اور اپنے آقا سے منسوب مقامات کی زیارت، ان کی یادگاروں اور ان کے آثار و تبرکات کی زیارت اور ان کی آخری آرام گاہ روضہ رسول گنبد خضری کو دیکھنا اپنی زندگی کا سب سے قیمتی مقصد سمجھتا ہے۔
مسلمانوں کے ان مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے دنیا کا ہر ملک اپنے شہریوں کے حج کے لیے خصوصی سہولیات فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ دنیا بھر کی مسلم کمیونٹی کے لیے اپنے مذہبی فریضے کی ادائیگی میں آسانی پیدا کرے اور اس کے لیے آسان قوانین بنائے۔
لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب کی نجدی اور وہابی حکومت حج کے ایسے قوانین لاتی ہے اور ہر سال ایسے نئے ٹیکس لگاتی ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے لئے اپنے اس اہم مذہبی فریضہ کی ادائیگی مہنگی ہو رہی ہے۔
اگر ہم اب کی بات کریں تو سعودی حکومت نے ایک اور من مانا فیصلہ جاری کر کے پوری دنیا کے مسلمانوں کے سامنے ایک پیچیدہ مسئلہ کھڑا کر دیا ہے کہ والدین اپنے 12 سال سے کم عمر کے بچے کو اپنے ساتھ حج پر نہیں لے جا سکتے۔
اس ظالمانہ قانون کی وجہ سے وہ مسلمان کہ جن پر شرعا حج فرض ہو چکا ہے، جن کے بچوں کی عمریں 12 سال سے کم ہیں اور وہ ان کم سن بچوں کو اتنی لمبی مدت تک تنہا اور اکیلا نہیں چھوڑ سکتے تو وہ لوگ حج جیسے فریضہ کی ادائیگی سے محروم ہو جائیں گے۔
چوں کہ حج کرنے کے قابل ہونے کی وجہ سے ان پر حج فرض ہو گیا ہے اور وہ اپنے 12 سال کے بچے کو 45 دن کی اتنی طویل مدت تک کسی کے پاس نہیں چھوڑ سکتے اور ادھر سعودی حکومت نے پابندی عائد کردی تو اب ایسے بہت سے لوگوں کے سامنے ایک نہایت پیچیدہ اور دشوار کن مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔سعودی حکومت کو یہ من مانا فیصلہ مسلط کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اور عالم اسلام سے مشورہ کرنا چاہیے تھا کہ ایسے بچوں والے لوگ حج کیسے کریں گے؟
یہ ان پر بہت بڑا ظلم ہوگا اور انہیں زبردستی اور جان بوجھ کر فریضہ حج سے روکنا ہوگا جس کی مذمت قرآن نے پہلے پارہ کی سورۂ بقرہ کی ایک آیت میں یہ کہہ کر کی ہے جس کا مفہوم ہےکہ ’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں (کعبہ شریف، حرم شریف وغیرہ) کو روکےان میں نام خدا لئے جانے سے۔”
حکومت ہند سے اپیل کرتے ہوئے مفتی محمد سلیم بریلوی صاحب نے کہا کہ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ اپنی سطح سے سعودی حکومت کو ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کرائےاور 12 سال سے کم عمر کے بچوں پر عائد پابندی پر نظر ثانی کرکے اسے ہٹانے کی کوشش کرے اور یہ دباؤ ڈالے کہ سعودی حکومت حج کو سستا بنائے۔