نئی ریسرچ رپورٹ
کچھ تبسم زیرِ لب نئی ریسرچ رپورٹ
انس مسرور انصاری
امریکی پروفیسرپوپٹ لولی نے بھارت کا ایک ریسرچ ٹور کیا۔ وہ کافی دنوں تک یہاں رہے اور مختلف صوبوں اور شہروں کا دورہ کرتے رہے۔اُنھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو قلم بند کیا ۔ اس ریسرچ ٹورکے بعد جب وہ اپنے وطن امریکا واپس پہنچے تو ایک پریس کانفرنس میں اخبار نویسوں کوبتای اکہ ‘‘میری انڈین ریسرچ رپورٹ کے مطابق انڈیامیں مذہبی لسانی ، بداخلاقی و خود غرضی ،ذات پرستی وذاتی مفاخرت، تنگ نظری و منافرت، روحانی غرور و گھمنڈ اورفرقہ وارانہ فسادات کی ایک بڑی وجہ وہاں وٹامن اور پروٹین کی عام کمی ہے۔
وہاں سیاسی لیڈر سکون و اطمینان ،ٹھنڈے د ل و دماغ اور غور و فکر کے بجائے سرسام، بلڈپریشر ، مالیخولیا اورجنون کےامراض میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔
سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہاں عام شرح پیدائش کے مقابلہ میں لیڈروں کی پیدا
وار حیران کن بلکہ تباہ کن حدتک زیادہ ہے مجھے انڈیاکی عام آبادی بڑھنے سے اتنی تشویش نہیں ہے جتنی تشویش لیڈروں کی کثرتِ پیدائش پرہے۔غورطلب ہے کہ جب ساری پبلک نیتاہوجائے گی تو انڈیابناپبلک کےہوجا ئے گا۔
پھر اس ملک کا کیا ہوگا۔؟
وہاں کی حکومت کوچاہیے کہ فیملی پلاننگ منصوبہ بندی سے زیادہ نیتا بند منصوبہ بندی کے متعلق یوجنابنائے ۔
عجیب بات یہ بھی ہے کہ انڈین پارلیامنٹ میں جلسہ کےدوران ممبر آرام سے سو سکتا ہے مگر خراٹے نہیں لےسکتا۔یعنی باآواز بلند نہیں سو سکتا تاکہ دوسرے ممبرانِ پارلیامنٹ کی نیندوں میں خلل نہ پڑنے پائے۔
اس پارلیمانی اُصول پرسختی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے ۔دوسرے اُصولوں پرکوئی پابندی نہیں ، انہیں بار بار توڑا اورجوڑا جاسکتا ہے۔انڈیا میں اُصول بناتےوقت بہت کچھ نہیں سوچاجاتا۔طرح طرح کے نئے نئے اُصول بنانا وہاں کے لوگوں کی بڑی ہابی ہے۔اُصولوں پرعمل کرناضروری نہیں ہے ، لیکن مذکورہ پارلیمنٹری اُصول پرسختی سے عمل کیاجاتا ہے۔
اگر ایسانہ کیاجائے توکئی بار ملکی مسائل پر تبادلۂ خیال کے بجائے جوتے،چپّل ،مہذب گالی گلوج ، مرغی کے کچےانڈوں ، ٹماٹروں، کرسیوں اور میزوں سے مائیک اکھاڑ کر آپس میں تبادلے ہونے لگتے ہیں اوریہ سب کچھ جلسہ کےدوران ہوتا ہے۔
اس لیے بغیرآوازکے سونے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔اس قدرنازک ترین مسائل پر وہاں کی حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔میں حیران ہوں کہ وہاں کانظامِ حکومت کس طرح چل رہا ہے۔
وہاں میری ملاقات ڈاکٹر طوطا رام سے بھی ہوئی ۔وہ پہلے امریکہ کے ایک ہسپتال میں جانوروں کے ڈاکٹر تھے۔ پھرجب اپنے وطن انڈیا واپس گئے تو اپنا ایک ذاتی نرسنگ ہوم کھول لیا اور جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کا بھی علاج کرنے لگے، اور بہت کام یاب ہیں۔
انڈیامیں انسانوں سے زیادہ جانوروں کی قدر و منزلت ہے۔وہاں جانوروں کی خوب دیکھ بھال کی جاتی ہے اور ان کے لیے سرکاری بجٹ میں ایک بڑی رقم مختص کی جاتی ہے۔پھر اس رقم کا اسی فیصد نیتاؤں کی جیب میں چلاجاتا ہے جس سےانسانوں کوبے رحمی کے ساتھ قتل کرنےمیں بڑی مدد ملتی ہے۔
ایک اور عجیب بات میں نے یہ دیکھی کہ وہاں بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں آنے کے فوراََبعد کئی طرح کے ٹیکس اداکرنا شروع کر دیتا ہے۔اس کا سبب یہ بتایا گیا کہ عام لیڈروں اور راج نیتاؤں کی خاطر خواہ پرورش و پرواخت اوران کے آرام و آسائش کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔
وہاں کے صنعت کارعوامی ٹیکسوں کی جمع شدہ رقم لے کر اکثر ملک سے فرارہوجاتے ہیں اور حکومت کوئی نوٹس نہیں لیتی بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انھیں بڑی فراخ دلی سے معاف کردیتی ہے۔
وہاں کا ہرنیتا کروڑ پتی اورعام آدمی غریب پتی ہے۔ خوش حالی اور بدحالی دونوں باہم اس طرح دست و گریبان نظر آتے ہیں کہ من توشدم تومن شدی من تن شدم توجاں شدی کا گمان ہوتا ہے۔
وہاں کی پبلک بڑی بھولی بھالی ہے۔لوگ جان توڑ کر محنت سے کماتے ہیں اورسرکاری نوکروں اور لیڈروں کو بڑے چاؤ سے کھلا دیتے ہیں ۔کبھی کبھی خود بھوکے رہ کرکھلاتے ہیں۔یہ عوامی ایثار و قربانی کسی اورملک کے لوگوں میں نظر نہیں آتی۔
وہاں کی سب سے قیمتی چیز‘‘ جواڑ ’’ ہے جوکسی دوسرے ملک میں نہیں پایا جاتا۔ہرکام جواڑسے ہوتاہے۔پی، ایم۔سی،ایم۔ڈی ،ایم ہی نہیں بلکہ عام آدمی بھی ہروقت ‘‘ جواڑ ’’ میں لگارہتاہے۔جواڑہی سے وہاں کی حکومت اورکرسیاں بدلتی ہیں۔جواڑنہ ہوتوکوئی کام نہیں ہوسکتا۔
امریکا کو چاہیے کہ انڈیا سے جواڑ کا ایگریمنٹ کرے اور اسے ہرقیمت پریہاں لائے تاکہ امریکہ کی ترقی میں جوکچھ کسر باقی رہ گئی ہو وہ پوری ہوجائے ۔امریکا چاہے جتنابڑا ترقی یافتہ ملک ہو مگر اس کے پاس جواڑنہیں ہے۔یہاں کی پبلک جواڑ سے محروم ہے۔یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔
بھار ت میں مسلمانوں کوسب سے بڑی اقلیت کا درجہ حاصل ہے مگر پچیس کروڑ کی تعداد والی یہ سب سے بڑی اقلیت سہمی ہوئی بھیڑبکریوں کے ڈرے سہمے بھٹکے ہوئے ریوڑ سے زیادہ کوئی حیثیت رکھتی ہے نہ اہمیت۔
یہ قوم اس قدر انتشار اورذات پرستی کی لعنت میں مبتلا ہے کہ اس کا کوئی متفّقہ قائد نہیں ہے اورنہ یہ کسی کی قیادت کو قبول کرتی ہے۔اس قوم کاہرفردخوداپناقائد ہے۔
یہی سبب ہے کہ آزادی کے پچھتر۷۵/سال بعد بھی کسی صوبہ میں اپنا ایک چیف منسٹر تک نہیں بنا سکی۔ یہ قوم حکمرانی کی تمام حکمتِ عملی بھول چکی ہے۔گداگری کی عادت پڑگئی ہے۔اس کے زوال کی انتہاتک نظرنہیں آتی۔اس قوم کے بہترین دماغ جوقوم کے لیے کچھ کرسکتے ہیں وہ شعر و ادب کی دنیامیں پناہ گزیں ہیں۔
وہاں پہلے مشاعروں اورسیمیناروں میں داد و تحسین کے شورو غل سے مشاعرہ کے پنڈال کی چھتیں اُڑایا کرتی تھیں مگراب سامعین زبانوں کاکام ہاتھوں سے لینے لگے ہیں اورخوب تالیاں بجاتے ہیں۔اُن کی دیکھا دیکھی حکومت تھالیاں بھجوانے لگی۔
جب انڈیامیں کروناکی وباعام ہوئی تو حکومت کے حکم سے پبلک نے خوب تھالیاں بجائیں۔تھالیاں بجانے سےکرونا ویکسین کی کافی بڑی رقم پس انداز کی گئی۔بعدمیں وہ ساری جمع پونجی ایک گجراتی صنعت کارلے کرغیرملک فرار ہوگیا۔
بھارت کی سرزمین خانقاہوں اورآشرموں کے لیے بڑی زرخیز ہے۔آبادی کا بہت بڑاحصہ ان سے وابستہ ہے جسے اہم ترین قومی وملکی مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں۔
وہاں میں ایسے لیڈروں سے بھی ملا جواسمبلی اورپارلیامنٹ میں بیٹھتے ہیں لیکن ٹھیک طرح سے اپنی سائن بھی نہیں بناپاتے ۔وہاں مذہب جیسے ذاتی معاملات پرحکومت نے آئین بنا رکھا ہے۔حکومت کی اجازت کے بغیرکوئی اپنا دھرم نہیں بدل سکتا۔
البتہ اقلیتی طبقہ کاکوئی فرداپنامذہب بدلناچاہے توکوئی ہرج نہیں۔وہاں ایک ملک،ایک قانون اور ایک راج کے بجائے کئی قانون اورکئی راج کارواج ہے۔
اِن دنوں وہاں‘‘بلڈوزرکی بڑی دھوم دھام ہے۔یہ مشین صوبائی حکومتوں کا دل چسپ مشغلہ بن گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ مکین اپنامکان خالی کریں،یہ انھیں زمیں بوس کردیتی ہے۔حکمراں طبقہ میں بلڈوزراتنامقبول ہے کہ ایک صوبہ کے چیف منسٹر کو بلڈوزر بابا کہاجانے لگااوروہ اپنے اس نئے نام سے بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔
بلڈوزروہاں کاایک سیکولرمشن بن گیاہے۔اس سے عالی شان عمارتیں،بڑی بڑی بلڈنگیں ،مسجد ، مندر ،تاریخی عمارتیں کچھ بھی محفوظ نہیں ۔حکومتیں بڑے فخرکے ساتھ بلڈوزرچلواتی ہیں۔
اس یوجنا سے وہاں کی جنتا ہرچندکہ بہت پریشان ہے مگرحکمراں طبقہ خوش ہے۔چوں کہ بلڈوزر بابا کا سربالوں سے محروم ہے،اس لیے کسی داد و فریادپران کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگ پاتی ۔وہاں کے لیڈروں میں ایک کہاوت بہت مشہور ہےاور بہت مقبول بھی۔!‘‘اپناکام بنتا ، بھاڑمیں جائے جنتا۔ ’’اس کہاوت پربڑی ایمان داری سے عمل کیاجاتاہے۔اسی طرح کے اور بھی کئی اُصول ہیں جن کی پابندی بڑے خلوصِ دل سے کی جاتی ہے۔
وہاں کا پارلیمنٹری سسٹم ایساہے کہ اُن پر زیادہ غور وفکر سے سرسامی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کبھی بلڈپریشر چڑھ جاتاہے اور کبھی ڈاؤن ہوجاتا ہے۔
انڈیاکےعجائبات بہت زیادہ ہیں جو ایک میٹنگ میں بیان نہیں کیے جاسکتے۔ اس لیے ٹاٹا۔۔۔۔ پھر ملیں گے۔
انس مسرورؔانصاری
قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن
سکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر(یو،پی)
Pingback: آم کی چٹنی ⋆ اردو دنیا انس مسرورؔانصاری
Pingback: کڑوا شربت اردو دنیا انس مسرورانصاری
Pingback: ہمیں ادب و ثقافت کا مطالع ایک تقابلی پس منظر میں کرنا چاہیے ⋆