اردو زبان کے استحصال سے بیزار اساتذہ

Spread the love

اردو زبان کے استحصال سے بیزار اساتذہ

اردو زبان کے فروغ کے لیے دو بنیادی باتیں سمجھ لینی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ مدارس و اسکولوں کے بغیر اردو کا فروغ ناممکن ہے ، اور اس کی دھوری اساتذہ ہیں۔ لیکن اساتذہ کے سامنے معیاری تعلیم فراہم کرنا دشوار ہے، جو اساتذہ اردو کی سیٹ پر بحال ہیں وہ پڑھانے کی جدید تکنیک سے ناواقف ہیں، انہیں اردو زبان کو سلیقے سے پڑھانے کی ٹریننگ نہیں دی جا رہی ہے

وہ اردو کا مسافر ہے یہی پہچان ہے اس کی جدھر سے بھی گزرتا ہے سلیقہ چھوڑ جاتا ہے ملک ہندوستان بے شمار خوبیوں سے مزین ہے۔ اس کی ایک بڑی خصوصیت ہے کہ باضابطہ 23 زبانیں اور تقریباً 1000 علاقائی بولیاں یہاں بولی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ ریاستوں کی سرحدیں بھی زبانوں کے علاقوں کے حساب سے طے کی گئی ہیں۔

اردو جو کہ ادب کی زبان ہے، محبت کی زبان ہے، شاعروں کی زبان ہے اور سب سے بڑھ کر یہ ہماری مادری زبان ہے، انگریزی حکومت کے دور میں اسے اعلی مقام حاصل تھا، اردو رابطے کی زبان مانی جاتی تھی۔ آزادی کے دیوانوں کی زبان اردو کے استحصال کا دور آزادی کے بعد سے شروع ہوا۔

ہندی کو ہندوستان کی پہلی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، اردو جسے ہماری عوام غفلت میں ہندوستان کی دوسری زبان سمجھ رہی ہے، حقیقت اس کے الٹ ہے۔ دوسری قومی زبان کے معاملے میں انگریزی زبان اردو زبان پر سبقت حاصل کر چکی ہے۔ جب کہ ہندی کے بعد بانگلہ زبان دوسری سب سے زیادہ یعنی 11.25 کروڑ افراد اور ہندوستان کی کل آبادی کا 8.03 فیصدی آبادی بولتی ہے۔ 8.30 کروڑ افراد مراٹھی زبان بولتی ہے اس لحاظ سے مراٹھی تیسری سب سے زیادہ بولی جانی والی ہندوستانی زبان ہے۔

آزاد ہندوستان میں واحد ہندی کو سرکاری زبان ہونے کا اعلان کر اسے مضبوطی دی جانے لگی لیکن غیر ہندی ریاستوں و عوام نے جب مخالفت کی تو 1960 کی دہائی میں ہندی کے ساتھ انگریزی کو بھی دفتری زبان کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ اردو جسے بہت سارے لوگ ہندوستان کی دوسری زبان چاہے دفتری یا بولنے والوں کے تعداد کے مطابق ہونے کی بات کرتے ہیں وہ دل کو بہلانے کے سوا کچھ نہیں ہے یہ بات گوگل کی تحقیق سے صاف ہوتا ہے۔

اردو آٹھویں شیڈول کی زبان ہے، ہندوستان کا آئین اردو زبان کی تہذیبی وراثت کا اعتراف بھی کرتی ہے لیکن ہندوستان کے چھہ ریاستوں آندھراپردیش، اتر پردیش، بہار، جھاڑکھنڈ، مغربی بنگال، تلنگانہ، کے ساتھ علاقۂ قومی دارالسلطنت دہلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اردو آٹھویں شیڈول کی 22 زبانوں میں گوگل پر موجود لسٹ میں 22 ویں مقام پر درج ہے اور ہم بدگمانی کا شکار ہیں۔ بولنے کے اعتبار سے ہندوستان میں بطور مادری زبان 5.01 فیصدی لوگ 7 کروڑ 2 لاکھ ہی اردو بولتے ہیں اور ملک میں اردو کو چھٹی بڑی زبان کا درجہ حاصل ہے۔

ہندوستان میں آزادی کے بعد سے ہی اردو زبان استحصال کا شکار ہو گئی۔ یہ ہماری عدم توجہی کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت بھی اردو کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کرتی ہے جس کا ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ باوجود اس کے حکومتی سطح پر اردو کے فروغ کے لئے قومی سطح پر ” اردو کونسل برائے فروغِ اُردو زبان ” اور ریاستی سطح پر اردو اکیڈمی وغیرہ قائم ہیں اور وہ اپنی وسعت کے مطابق کام کر رہی ہیں۔

اردو کی بازیابی کے لیے، ہندوستان میں اسے حق دلانے کے لیے ملک گیر تحریک چلانے کی ضرورت ہے لیکن اس سے قبل جن چھہ ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے وہاں اردو زبان کو اس کا حق سو فیصد حاصل ہو جائے اس کی سخت ضرورت ہے۔ کامیاب اردو تحریک کے لیے جہاں ایک طرف پوری اردو آبادی کی حمایت درکار ہوتی ہے وہیں دوسری جانب سرکار کا رویہ بھی درست ہونا ضروری ہوتا ہے۔

اردو آبادی کی یہ حالت ہے کہ خود ہی اپنی بول چال میں وہ اردو کو نہ عام کرتے ہیں اور نہ ہی لکھنے میں اردو رسم الخط کا استعمال کرتے ہیں۔ درسی میدان میں جہاں ایک جانب ہمیں ان مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے جس کے ہم مرتکب بھی نہیں ہوتے۔ بورڈ کے امتحان میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ طالب علم فارم پر کرتے وقت اردو زبان کے لیے اسکول انتظامیہ کو کہتا ہے لیکن اسکول انتظامیہ صرف اپنی سہولت کی خاطر اسے تبدیل کر دیتی ہے۔

اور جب بچہ کے ہاتھ ایڈمٹ کارڈ آتا ہے تو اس میں اردو کی جگہ سنسکرت دیکھ کر وہ دنگ رہ جاتا ہے اور وہیں سے اس کا مستقبل اندھیرے کا رخ کرتی ہے۔ بہت سارے بچے غیر ماحول میں اپنی مادری زبان اردو کا ذکر تک نہیں کر پاتے۔ اردو اساتذہ جہاں نہیں ہے وہاں تو رزلٹ صفر ہے اور جہاں اردو اساتذہ ہیں وہاں کی حالت بھی تشفی بخش نہیں ہے۔

سرکاری سطح پر اردو زبان کو ختم کرنے کے لیے روز نئے نسخے ایجاد کئے جاتے ہیں۔ جس سے ہمارے جیسے اردو کے خادم کو روز روز مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اردو زبان ڈرائنگ روم سجانے والی اشیاء کی طرح دل کش معلوم ہوتی ہے، اردو زبان میں غزل، گانے، نظم، کہانیاں، افسانے، ناول اور ترانے تو اچھے و خوشنما لگتے ہیں،بات کرنے کا لب و لہجہ بہتر ہو اس کے لیے اردو زبان کی ضرورت ہے لیکن اس کی درس و تدریس کی جب بات ہو تو پھر مشکل ہے۔ یہ دوہرا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔

کبھی اردو کی لازمیت منسوخ کر دی جاتی ہے، کبھی اردو کی درسی کتابیں دستیاب نہیں ہوتی، کبھی نصاب میں چھیڑ چھاڑ، کبھی اردو کے سوالات نہیں ملتے کبھی روٹین سے اسے باہر کر دیا جاتا ہے تو کبھی اردو کے استعمال پر روک۔ ہمیں ان تمام باتوں کے لیے، ان تمام مسائل کے لیے لڑنا ہوتا ہے۔ روز روز کی اس لڑائی سے اب ہم تھکنے لگے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو والوں نے ہی اردو زبان کے ساتھ نازیبا سلوک کیا، پہلے ہم نے اردو کو چھوڑا، اسے مٹانے کی کوشش کی، اردو سے عدم محبت کا ثبوت پیش کر کے حکومت کو حوصلہ دیا کہ وہ اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کرے۔

سچائی تو یہ ہے کہ اردو کے بہت سارے رسالے و اخبارات بند ہوگئے۔ سیاسی ماہرین نے اردو کو جو کہ عام لوگوں کی زبان تھی، مسلمان کی زبان بنا دیا۔ جس کی وجہ سے یہ نفرت کی چیز بن گئی۔ ہمارے جیسے اردو کے خادم کو غیر اردو والے دیکھتے ہی اویسی کا نام دینے لگے۔

یہی وجہ ہے کہ اردو زبان اپنی حالت زار پر آنسو بہا رہی ہے۔ اپنے وجود کو خطرے میں دیکھ کر اشکبار ہے۔ اپنوں کی بے توجہی کے نتیجہ اردو کی روح سسکیاں لے رہی ہیں۔

اردو زبان کے فروغ کے لیے دو بنیادی باتیں سمجھ لینی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ مدارس و اسکولوں کے بغیر اردو کا فروغ ناممکن ہے، اور اس کی دھوری اساتذہ ہیں۔ لیکن اساتذہ کے سامنے معیاری تعلیم فراہم کرنا دشوار ہے۔ مدارس میں تو کوئی مشکل نہیں لیکن سرکاری اسکولوں میں لاکھوں کی تعداد میں بچے اردو کی تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

ہندی اسکولوں کی رپورٹ میں مسلم بچوں کو اردو بچوں میں شمار ہی نہیں کیا جاتا نتیجتاً وہاں اردو اساتذہ بحال ہی نہیں ہوتے اور بچے اردو کی تعلیم سے محروم رہتے ہیں، جبکہ وہ بچے اردو جانتے ہیں، گاؤں و محلے کے مکتب میں وہ اردو و عربی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن اپنی سہولت کے لیے اسکول انتظامیہ صاف کہہ دیتی ہے کہ ہمارے یہاں جو بچے ہیں وہ اردو جانتے ہی نہیں۔ بہت جگہ اردو کے اساتذہ تو ہیں ہی نہیں اور جہاں ہیں وہاں درس و تدریس کا ماحول ہی نہیں ہے۔

جو اساتذہ اردو کی سیٹ پر بحال ہیں وہ پڑھانے کی جدید تکنیک سے ناواقف ہیں، انہیں اردو زبان کو سلیقے سے پڑھانے کی ٹریننگ نہیں دی جا رہی ہے، یہاں تک کہ بہار پبلک سروس کمیشن سے بحال اساتذہ کو جو ٹریننگ دی جا رہی ہے اسے بھی اردو کی ٹریننگ نہیں دی جا رہی ہے۔

ہمارے جیسے لوگ اردو اساتذہ کی حفاظت، اس کی بحالی اور بچوں کے معیاری تعلیم کے لئے فکرمند رہتے ہیں، اس کام میں بھی عام عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ہے اور بے یارو مددگار ہمارے قومی اساتذہ تنظیم بہار کی ٹیم مسلسل اس سمت میں کام کررہی ہے۔

روز نئے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہم انہیں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور اسے دوسری سرکاری زبان دلانے کی ہم تحریک شروع کریں اس کا امکان دور دور تک نہیں دکھتا۔

بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا

ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا

اس لیے میں صاف لفظوں میں بتا دوں کہ اردو ہمیں صرف روزی روٹی یعنی معاش کا ذریعہ ہی فراہم نہیں کرتی ہے بلکہ ہم نے اردو ادب سے تہذیب سیکھا ہے، زندگی جینے کا سلیقہ سیکھا ہے اس لیے بنا تھکے ہم مشن فروغ اردو میں لگے رہیں گے۔

محمد رفیع

7091937560

rafimfp@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *