ہندو سنسکرتی سے مرعوب یہ مسلمان
ہندو سنسکرتی سے مرعوب یہ مسلمان
آج ۸؍بجے علی الصباح، ماسٹر ساجد (برادر زادہ) کے کوچنگ (برنی ہاٹ چوک نزد ٹھاکر گنج) میں جانا ہوا۔اس وقت ساتویں جماعت کی طالبات کوچنگ کر رہی تھیں۔
ماسٹر صاحب نے مجھ سے درخواست کی کہ ان سب کے ناموں کے معانی بتا دیں۔میں باری باری سب کا معنی بتانے لگا۔مجھے حیرت تب ہوئی جب ایک ہی کلاس کی چند بچیوں میں تین بچی کے ہندوانہ نام تھے۔ایک کا نام تھا آرادھنا، دوسری کا سونم، تیسری کا مانسی۔
حیرت اس لیے نہیں کہ ان کے والدین نے ہندو نام رکھ دیئے ہیں۔حیرت تو اس لیے ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں دین و سنیت کے نام پر سب سے زیادہ جلسے کیے کراۓ جاتے ہیں۔
یہ سیمانچل کا وہ حصہ ہے جہاں ملک بھر سے مقدس پیر حضرات آتے رہتے ہیں اور جنت کا برتھ کنفرم کروانے کا نسخہ چھوڑتے رہتے ہیں (دنیا جاۓ بھاڑ میں اس سے کوئی بحث نہیں)جی ہاں! یہی وہ خطہ ہے جہاں مدارس میں پڑھنے پڑھانے والوں کی تعداد بھی دوسرے علاقے کی بنسبت زیادہ ہی ہے۔
ایسے وقت میں جب سارا ہندو سماج لو جہاد کا ہوّا کھڑا کرکے ہندو لڑکیوں کو مسلم سے نفرت سکھا رہا ہے۔یہ ہندو دیو داسیاں، اردو نام سے ہی بدک جاتی ہیں۔بھگوا سماج کی سادھویاں عربی نام سن کر ہی بھڑک اٹھتی ہیں۔
ایسے میں اسلام والے ہندو تہذیب سے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔مسلم لڑکیوں کا ہندو لڑکوں سے افیئر کی باتیں تو عام ہیں اور پرانی ہو رہی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لڑکیوں میں ارتداد انہی راستوں سے داخل ہو رہا ہے۔شاید اس پر ہمارا سماج غور نہیں کر پا رہا ہے۔یہ بہت بھیانک تجربہ ہے جب بیٹیاں باغی ہو کر دین سے پھر جائیں گی، دوسرے دھرم میں چلی جائیں گی تو یہ اسلام و مسلمان دونوں کے لیے ندامت انگیز بات ہوگی۔
کچھ دنوں پہلے کپل شرما شو کی ایک ویڈیو کلپ دیکھی تھی جس میں بحیثیت مہمان بہار کے شتروگھن سنہا(یہ ایک معروف فلمی ایکٹر رہ چکا ہے اب سیاست میں ترنمول سے ایم پی ہے) اپنی زوجہ اور بیٹے کے ساتھ شریک تھے۔
کپل نے شتروگھن کی محترمہ سے بیٹے کے نام کی وجہ پوچھی تو جواب تھا کہ جس دن یہ پیدا ہوا سب لوگ نام سوچ رہے تھے کہ کیا بہتر نام ہو۔اتنے میں شتروگھن کی ساس کو فون لگایا گیا جو اس وقت راماین کا پاٹھ کر رہی تھی تو انہوں نے فون پر کہا کہ بیٹے کا نام لَوکُش رکھو۔تب سے اس کا نام لوکش ہو گیا۔
آپ کو بتا دوں کہ راماین جو ہندووں کی مقدس کتاب مانی جاتی ہے اس میں رام کی سیرت درج ہے اسی کتاب میں رام کے جڑواں بیٹوں کا ذکر بھی ہے۔
ایک کا نام لو اور دوسرے کا نام کش تھا۔بعد میں دونوں ناموں کو ایک کر کے ایک مرکب لفظ بنا لیا گیا جسے ہندو سماج کے لوگ بطور تبرک اپنے بچوں کا نام رکھتے ہیں۔سوچیں کہ ایک فلمی آدمی جسے سو فیصد سیکولر اور لبرل ہونا بنتا ہے مگر وہ ۲۱؍ویں صدی میں بھی اپنی تہذیب،اپنی سنسکرتی کا پابند بنا ہوا ہے۔بچوں کا نام اپنی دھرم گرنتھوں میں تلاشا جا رہا ہے۔مگر مسلم سماج کے لوگ ہندوانہ نام رکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں۔اسے دین سے دوری کہیں کہ جہالت؟
آج کتنی لوگ ہی جو کسی عالم یا شیخ سے بچے کا نام تجویز کرنے کی درخواست کرتے ہیں؟لگے ہاتھوں یہ درد بھی سن لیں کہ لاک ڈاؤن سے قبل میں مظفر پور کے علاقے میں خدمت کر رہا تھا۔وہاں متعلقہ محلے کی ایک مسلم لڑکی ایک چمار سے(جو پہلے سے چار بچوں کا باپ تھا)پریم رچا بیٹھی۔
وہ چمار دیکھنے میں بھی چمار ہی تھا مطلب شکل و صورت بھی ویسی ہی تھی پھر بھی یہ لڑکی اس کے چکر میں پڑ گئی بعد میں مندر میں پھیرے لے کر چمارن بن گئی۔ہنسیں کہ روئیں، اس چمار سے جو بچہ پیدا ہوا اس کا نام رکھا رام رحیم۔اس پر ان کی لاجک یہ تھی کہ بیٹا باپ کی طرف سے رام اور ماں کی طرف سے رحیم۔(استغفراللہ ربی)
اگر ہمارا سماج بیٹیوں کی جائز پرورش کا اہل نہیں ہے، اگر سماج بیٹیوں کے پھسلتے قدموں، بہکتے ارادوں کو سمجھنے سے قاصر ہے، اگر یہ سماج بیٹیوں کے لو افیئر کو اگنور کر رہا ہے یا اسے ہلکے میں لے رہا ہے تو یاد رکھیں کل کا وقت بہت خراب ہے۔
آج بہن بیٹیوں کا غیروں کے ساتھ معاشقہ صرف ہمارے بعض گھروں پہ دستک دے رہا ہے۔بڑھتے بڑھتے یہ ایک فتنہ کا روپ لے لے گا۔تب یہ ارتداد کا سیلاب،معاشقہ و پریم کے راستے کسی کے گھر میں دستک نہیں دے گا بلکہ دروازے توڑ کر اندر داخل ہو جاۓ گا اور آپ کے پاس کچھ بھی کرنے کے لیے نہیں بچے گا۔وقت رہتے جاگ جانا زندہ قوم کو زیب دیتا ہے۔
ایسے ہزاروں مسائل منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔نت نئے فتنے پیدا کیے جا رہے ہیں۔سازشوں اور پروپیگنڈوں کا نہ تھمنے والا ایک سلسلہ چل پڑا ہے ایسے میں قوم کے سرخیلوں، ملت کے کج کلاہوں کا باہم دست بہ گریباں رہنا قیامت کو دعوت دینا ہے۔
خواتین کے ارتداد کا مسئلہ کوئی عام مسئلہ نہیں۔مگر اسے چھوڑ کر غیر ضروری مسائل کو ہوا دینا نا صرف تباہی ہے بلکہ حالات کی مانگ سے صرف نظر بھی ہے۔
کیا عجب نہیں کہ آج علما و صوفیا کا ایک بڑا گروہ جناب ابو طالب کے کفر و ایمان پر خم ٹھونک رکھا ہے تو کوئی حضرت علی کے مولود کعبہ ہونے نا ہونے پر دنگل سجاۓ بیٹھے ہیں۔
آخر ان نام نہاد نباضان ملت کو نبض شناسی کب آۓ گی؟حذر اے چیرہ دستاں!سخت ہیں فطرت کی تعزیری
مشتاق نوری
Pingback: سماج میں پپیسے کی حیثیت ⋆ مشتاق نوری
Pingback: آخر سماج اتنا بے حس کیوں ہے ⋆ مشتاق نوری
Pingback: جلسہ ماڈل میں بدلاو کی ضرورت کیوں ⋆ مشتاق نوری
Pingback: نوٹوں کی بارش میں نہاتے شاعر ⋆ اردو دنیا
Pingback: شعری مجموعہ وفا کے پھول کے تناظر میں ⋆ ممتاز نئر