طلاق کنایہ و بائن کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی

Spread the love

طلاق کنایہ و بائن کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی

نئی دہلی : ایک خاتون ڈاکٹر نے طلاق – کنایہ اور طلاق بائن کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ مفاد عامہ کی عرضی(PIL) نے مرکز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صنفی ، مذہبی اور طلاق کے لیے تمام شہریوں کے تعلق سے یکساں رہ نما خطوط وضع کیے جائیں۔

درخواست گزار نے مسلم میرج ڈسسولیشن ایکٹ 1939 کے جواز کو بھی چیلنج کیا ہے۔

انہوں نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ اسے ناجائز اور غیر آئینی قرار دے کیوں کہ یہ مسلم خواتین کو طلاق کی ان شکلوں سے بچانے میں نا کام ہے۔

درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ طلاق کنایہ اور طلاق بائن ایک خطرناک بیماری ہے اور بدقسمتی سے مسلم خواتین کے لیے یہ پریشان کن ہے، یہ تعلیمی ، اور سماجی لحاظ سے بھی انتہائی سنگین ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے مذہبی عہد یدار یعنی امام/ مولوی یا شہر قاضی وغیرہ طلاق کنایہ اور طلاق بائن کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی اجازت دیتے ہیں، تاہم یہ مسلم خواتین کے خلاف مبینہ طور پر سراسر زیادتی کی بات ہے۔

اس کے ذیل میں مسلم خواتین کے ساتھ ایسے سلوک کئے جاتے ہیں، جو مایوس کن ہے۔

اس طرح آرٹیکل 14، 21،15، 25 میں درج ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

یہ استدلال کیا گیا ہے کہ طلاق کنایہ اور طلاق بائن نہ تو انسانی حقوق اور صنفی مساوات کے جدید اصولوں سے ہم آہنگ ہیں اور نہ ہی اسلامی عقیدے کا لازمی جزو ہیں۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ اس کے والدین کو جہیز دینے پر مجبور کیا گیا اور بعد میں جہیز نہ ملنے پر ہراساں کیا گیا۔مزید یہ کہ جب اس کے والد نے جہیز دینے سے انکار کیا تو اس کے شوہر نے قاضی اور وکیل کے ذریعے اسے طلاق کنایہ اور طلاق بائن دیا۔

شادی کے بعد بھی درخواست گزار کے والد نے ان کی ایم ایس کی فیس ادا کی اور انہیں اپنے دیگر اخراجات کے لیے بھی اپنے والد پر انحصار کرنا پڑا اور ان کا شوہران کے والد کو گالیاں دے کر ہراساں کرتا تھا۔

عرضی گزارکوان کے شوہر اور ان کے اہل خانہ نے مارا پیٹا اور زبانی طور پر ہراساں کیا جس سے اسے شدید چوٹیں آئیں اور فریکچر ہوۓ۔  اکتوبر 2021 میں، ان کے شوہر نے انہیں ان کے والدین کے گھر چھوڑ دیا اور جنوری 2022 میں اسے طلاق دینے کے سلسلے میں ایک خط بھیجا۔

درخواست گزار کے مطابق طلاق کا میل مردوں اور عورتوں کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے جو خواتین کے احترام کے حق کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *