دین کی آفاقیت پر قدغن مت لگائیے
دین کی آفاقیت پر قدغن مت لگائیے
اگر زید امام اعظم کے دور میں ہوتا تو جذبات و عقیدت کے غلومندانہ بہاؤ میں دیگر تینوں فقہی مذاہب کو کچے اسلام کے خانے میں ڈال کر صرف انہی مٹھی بھر افراد کو پکے مسلمان مانتا جو حنفی مذہب پر ہوتے۔
یہ تو خیر ہوئی کہ یہ لوگ اس زمانے میں پیدا نہیں ہوۓ ورنہ امام ابو یوسف، امام محمد،امام زفر جیسے لوگ بھی چند مسائل میں مختلف ہونے کے سبب حنفیت سے ہی نکال دیئے جاتے۔آخر دین کے اندر ہمہ گیریت ہے کہ نہیں؟
دین اپنے اندر وسعت و عرض رکھتا ہے کہ نہیں؟ دین کے تصلب کا کیا مطلب ہے؟ دین میں اعتدال پسندی کی علامت کیا ہے؟
کیا دین کا ہندوستانی ورزن ہی اصل دین ہے؟جو لوگ ہندی ورزن سے ناواقف و لاتعلق ہیں کیا انہیں کچا مسلمان کہا جاۓ گا؟ آج کل ہمارے غالی و متشدد مزاج مفتیان خارجہ پالیسی بر سر منبر اسلام کی جو تعریف و تحدید کر رہے ہیں کیا وہی عین دین ہے؟ کیا اس سے دین کی آفاقیت پر قدغن نہیں لگتا؟
آخر یہ مفتیان ہوا پرست دین کی داخلہ پالیسی پر عمل کب کریں گے؟ ان مفتیان نے اپنے اسٹیج سے دین و سنیت کے دفاع میں مذہب کی تبلیغ و اشاعت میں کسی منشور کا اعلان کیا؟ ہند کے حالات کے پیش نظر اہل ایمان کے تحفظ و صیانت کے لیے کیا کوئی لائحۂ عمل مرتب کیا گیا؟ علما و ائمہ کی ناگفتہ بہ حالات پر کیا بات کی گئی؟حجاب اور بنات حوا کی تعلیم و تربیت پر کوئی چرچا ہوا؟
مجھے اس تلخ نوائی کے لیے معاف رکھیں کہ اگر ہندوستان کے اتنے بڑے مذہبی اسٹیج پر جہاں ہند و نیپال،پاک و بنگلہ دیش کے کروڑوں زائرین و عقیدت مند حاضر تھے اگر وہاں صرف فرقہ واریت کی بات کی گئی۔تان سین کے شاگرد نعت خوانوں سے مناقب کے اشعار سن کر سر دھنے گئے۔صرف جذباتی نعرے لگواۓ گئے تو اس
سے بڑی بے بصیرتی و بے توفیقی اور کیا ہوگی۔اس پر سواۓ ماتم کرنے کے اور کیا بچتا ہے۔وہ محض ایک قومی سطح کا ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح کا اسٹیج تھا، وہاں سے جو بات نشر ہوتی پورے انفس و آفاق میں اس کی گونج سنائی دیتی۔اس اسٹیج سے مسلم تحفظ کی بات ہونی تھی۔اس اسٹیج سے حالیہ فسادات اور ان میں ہوۓ ہمارے جانی و مالی نقصانات کی تلافی کی بات ہونی تھی۔اس اسٹیج سے حکومت اور قانون کے دہرے رویے پر کھل کر خطاب ہونا تھا۔مسلم اشوز،
جیسے مسلم پرسنل لاء، یکبارگی تین طلاق اور کامن سول کوڈ جیسے مدعوں پر اظہار کیا جانا ضروری تھا۔مگر افسوس کہ ہند و نیپال بھر میں مسلک و مشرب کا چورن بیچ کر اپنا بینک بیلنس بڑھانے والے مولانا اس بڑے اسٹیج کو بھی نہیں بخشے۔
یہاں بھی وہی سُر وہی راگ۔عام طور سے ہم دیکھتے آۓ ہیں کہ جلسوں کے پوسٹرز کے کسی کونے میں لکھا ہوتا ہے “اس جلسے کو سیاست حاضرہ سے کوئی تعلق نہیں”۔اس خطرناک جملہ کا موجد کون ہے پتہ نہیں،
مگر جو بھی ہے اس نے قوم کو، عوام کو سماجی، حکومتی و سیاسی مسائل سمجھنے سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دور رکھا ہے۔مذکورہ جملہ کا مطلب یہ ہے کہ بھئی آپ قرآن و حدیث کی ہی بات کیجئے، حالات اور مسلم مسائل پر گفتگو کرنا سخت منع ہے۔آج اگر کوئی یہ جملہ اپنے پوسٹر میں لکھ رکھا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ خطیب کو وارننگ ہے کہ تمہیں تین طلاق، کامن سول کوڈ جیسے مدعوں پر اظہار خیال کی قطعا اجازت نہیں ہے۔کیا یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بڑے پلیٹ فارم پر بڑی بات، بڑے مسائل زیر غور ہونے چاہیے۔مگر افسوس کہ جماعت کے ضدی قسم کے مفتیان نے اس بڑے پلیٹ فارم کو صرف گروہیت کی ترویج و اشاعت کے لیے مختص کر لیا ہے۔آج اگر اعلی حضرت ہوتے تو ان جیسے غالی مزاج گالی باز مفتیوں مولویوں سے خدا کی پناہ مانگ رہے ہوتے۔مشتاق نوری ۱۴؍ستمبر ۲۰۲۳ء
مفتی شمشادصاحب بریلوی جماعت کے ایک معتبر اورذمہ دار شخص کانام ہےلاکھوں کے مجمع سے ایک ذمہ داراسٹیج میں کھڑے ہوکر اس قدر سطحی خطاب کریں گے ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا!اب پتہ چلا کہ نوپیدمرکزی مفتی اس قدرشدت پسند کیوں ہیں ٹھوکراوپر سے چلی آرہی ہے ۔۔
اہل فہم وفراست کے نزدیک یہ طالبانی جماعت ایک نیا فرقہ کی بنیاد ڈال دی ہے یہ کہنے میں اب تامل نہ کریں گے۔۔
Pingback: نوٹوں کی بارش میں نہاتے شاعر ⋆ اردو دنیا