عارف اقبال چھوٹی عمر کا بڑا صحافی
عارف اقبال-چھوٹی عمر کا بڑا صحافی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ
عارف اقبال کو میں عرصۂ دراز سے جانتا ہوں، وہ مجھ سے پہلی بار ”باتیں میر کارواں“ کی تالیف کے وقت ملے تھے، امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحبؒ نے اس کتاب کے سوانحی حصہ پر مجھے نظر ثانی کاحکم دیا تھا۔ نظرثانی کے مختلف مراحل میں طرح وہ میرے قریب آتے گئے، پھر ان کی دوسری کتاب نقوش و تاثرات آئی، اس میں بھی کچھ نہ کچھ مشورے اور معاونت کا موقع ملا۔ اس وقت ان کا عنفوان شباب تھا، مونچھ کی لکیریں چہرے پر آنے لگی تھیں۔لیکن ہم جیسے عمر دراز لوگوں کے لئے ان کی حیثیت عزیز کی طرح تھی، کہتے ہیں کہ ”پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں“ میں نے اس پوت کے پاؤں کو چھوٹی عمر میں ہی محسوس کیا، میرے دل میں ارتعاش ہوا اور شعور کی تیزرو نے مجھے بتایا کہ یہ لڑکا کچھ کر دکھائے گا، اس لیے کہ اس کے وجدان میں چھپی صلاحیتیں باہر آنے کو مضطرب تھیں اور میں انہیں ابھی سے دیکھ رہاتھا، کسی کے اندر تاک جھانک کر اس کے مستقبل کی تعیین خواہشات نیک کے زمرے میں آتی ہیں، میری نیک خواہشات اور دعائیں آگے کے مہہ و سال میں عارف اقبال کا پیچھا کرتی رہیں اور وہ اپنی منزل تک پہونچنے کے لئے بے تاب رہے، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کا بہت مشہور شعر ہے: قدم ہے راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا پھرہوایہ کہ عارف ہر قسم کی پریشانی، تھکن اور مسائل و مصائب کو عین منزل مان کر آگے بڑھتے رہے اور آج وہ چھوٹی عمر کے بڑے اور مشہور صحافی ہیں۔ عارف اقبال نے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ اور مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور میں مذہبی تعلیم پائی، اعلیٰ اخلاقی اقدار ان بوریہ نشینوں سے سیکھے جو ان دونوں جگہوں پر معلمی کے فرائض انجام دے رہے تھے، عارف اقبال میں تواضع، انکساری، بڑوں کے ادب واحترام کا جو سلیقہ پایاجاتا ہے وہ انہوں نے مدرسہ کی اس چٹائی پر سیکھا جس کا سلسلہئ نسب صفہ اور اصحاب صفہ سے ملتا ہے۔ اس عمر میں انسان تربیت کو قبول کرتا ہے اور اس کے اثرات پوری زندگی میں محسوس اور غیر محسوس طور پر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ مدرسہ کی چٹائی سے اٹھ کر عارف اقبال عصری علوم کی درسگاہ پہونچے، بی اے، بی ایڈکیا، پٹنہ یونیورسٹی سے صحافت کا کورس مکمل کیا، الکٹرونک میڈیا پر کام کرنے کا سلیقہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے سیکھا، ان دونوں جگہوں میں اساتذہ کے وہ نور نظر رہے، اور جب اساتذہ کی توجہ کسی شاگرد کو مل جائے تو اس میں دُھن بھی پیدا ہوجاتی ہے اور گُن بھی۔ عارف اقبال اساتذہ کی توجہ پانے میں کامیاب تھے، چنانچہ صحافت کی خارزار وادیوں میں داخل ہونے کا انہوں نے سخت فیصلہ لیا، وہ عزم کے دھنی تھے، اس لیے صحافت کی سنگلاخ وادی کو عبور کرنے کے لئے راستے کے سنگریزوں سے تکلیف پہونچنے کی پرواہ نہیں کی، پرواہ تو انہوں نے ان کنکر پتھروں کی بھی نہیں کی جو سڑک پر نہیں، ان کے موزے کے اندر جا پڑے تھے اور اندر سے ان کے پاؤں کو لہولہان کیے دے رہے تھے، میں نے شروع میں ہی انہیں ایک بار دوران گفتگوبتایا تھا کہ جو ہمالہ کی چوٹی سر کرنا چاہتے ہیں، وہ جوتوں کے گھِسنے کا حساب نہیں لگاتے، اس بات کو انہوں نے اپنی گرہ میں باندھ لیا اور کبھی بھی راستے کی پریشانیوں کا حساب نہیں لگایا۔ عارف اقبال اخباروں کے لیے لکھتے رہے، زندہ لوگوں پر کتابیں مرتب کرتے رہے، ملک کے نامور اہل قلم سے زندہ شخصیات پر مضامین حاصل کرتے رہے۔ یہ ایک دشوار کام تھا، لیکن جب عزم جواں ہوتو راستے میں پہاڑ بھی آجائے تووہ رکاوٹیں کھڑی نہیں کرتا۔ عارف اقبال نے پوری اولو العزمی سے ان مراحل کو طے کیا اور مولانا سید نظام الدین ؒ اور مولانا سید ابواختر مدظلہ پر ملک کے نامور اہل قلم سے مضامین لکھوائے، ان کو سلیقے سے مرتب کیا، کتاب تیار ہوگئی تو اجرا کی تقریب کی اور پھر اہل علم تک پہونچایا، کتابوں کی طباعت کے اخراجات کہاں سے آئیں گے اور کس طرح خسارہ کی تلافی کی جاسکتی ہے۔ یہ فن ان کو پوری طرح معلوم ہے اور وہ اسے کتاب کے مرتب کرنے سے پہلے اور بعد پوری طرح برتتے ہیں۔ اور اس قدر برتتے ہیں کہ وہ نفع کا سودا ہوجاتا ہے۔ کس طرح؟ یہ ایک راز ہے جسے وہ یا ان کا خدا جانتا ہے۔وہ اسے دوسروں پر فاش نہیں کرتے۔ واقعہ یہ ہے کہ زندہ لوگوں پر کام کرنا آسان نہیں ہوتا، معاصرانہ چشمک اور برتری کی سرد جنگ کی وجہ سے اس کام میں بڑی رکاوٹیں آتی ہیں، پھر ہروقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ پتہ نہیں کس مضمون میں کوئی کیالکھ دے اور لوگ عقیدت و محبت میں مؤلف و مرتب پر ہی ٹوٹ پڑیں، غالی عقیدت مندوں کی ایک بڑی خرابی یہی ہوتی ہے کہ ان کادماغ گروی ہوتا ہے، غلط سے غلط کاموں کی بھی وہ ایسی تاویل کرتے ہیں کہ بات عقل و خرد سے دور جا پڑتی ہے۔ اس ملک میں مودی بھگت ہی نہیں، کچھ اور بھگت بھی ہیں جو مودی بھگتوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ اس کے برعکس مُردوں پر لکھنا آسان ہوتا ہے، کیوں کہ بھگتوں کا مرحوم سے کوئی مفاد وابستہ نہیں ہوتا، اس لیے وہ اس طرح حملہ آور نہیں ہوتے، جیسا ان کی زندگی میں ہوا کرتے ہیں، رہ گئے وہ مرحومین جن پر لکھا گیا تو ان کی ہڈی اس دنیا میں جھگڑا کرنے کے لئے آنے سے رہی۔ عارف اقبال نے کتابوں کے مرتب کرنے اور ان کی شخصیات کے انتخاب میں ان خطرات کی پرواہ نہیں کی اور مردانہ وار میدان میں کود پڑے اور کم ازکم تین کتابیں علمی دنیاکو دیں، وہ خطرات کے کھلاڑی ہیں اور انہیں خطرات سے کھیلنے میں مزہ آتا ہے۔ ایڈونچر کے شائقین کے لیے عارف اقبال کی زندگی میں عبرت و موعظت کے خاصے سامان ہیں۔ کتابوں کے ساتھ عارف اقبال نے کالم نگاری کا کام بھی کیا اور کم و بیش دوسال تک قومی تنظیم پٹنہ میں اپنی خدمات پیش کیں، وہ فری لانسر کی حیثیت سے دوسرے اخبارات کے لیے بھی لکھتے رہے، ان کے تعلقات ملک کے نامور صحافیوں سے رہے اور ان سے انہوں نے پرنٹ میڈیا کے رموز ونکات سیکھے اور فنی حیثیت سے اخباروں اور کالموں میں اسے برتا، اس طرح وہ پرنٹ میڈیا کے مقبول کالم نگار بن گیے۔ لیکن اخبارات کی دنیا محدود ہوتی ہے، اس کے قارئین کا حلقہ بھی محدود ہوتا ہے،بلکہ اردو اخبارات کا حلقہ اور سمٹتا جارہا ہے، اردو اخبارات کے مالکان کو قارئین کے گم ہونے کا شکوہ ہے۔ ایسے میں عارف اقبال کو پرواز کے لیے ایک نیا آسمان چاہیے تھا۔ نواز دیوبندی کا مشہور شعر ہے: انجام اس کے ہاتھ ہے آغاز کرکے دیکھ بھیگے ہوئے پروں سے ہی پرواز کر کے دیکھ اس نئے آسمان میں پرواز کے لیے انہوں نے الکٹرونک میڈیا سے اپنا رشتہ جوڑا، یہاں کام کا بڑا میدان ہے۔ یہاں صحافی خود کو چھپاکر نہیں رکھتا،بلکہ کیمرے کے سامنے آتا ہے اور برقی لہروں سے گذر کر اس کی تصویریں اور پروگرام ملک و بیرون ملک تک پہونچ جاتی ہیں۔ اس سے صحافی کا دائرہ بھی وسیع ہوتا ہے اور خود کو شناخت کرانے کی مہم بھی کامیابی سے ہم کنار ہوجاتی ہے۔ عارف اقبال نے”ای ٹی وی بھارت اردو“ جوائن کیا، پہلی تقرری سیمانچل کے ضلع ارریہ میں ہوئی، پٹنہ اور دہلی میں زندگی گذارنے والے عارف اقبال کے لیے یہ ایک آزمائش تھی، چیلنج تھا، انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور رپورٹر کے ساتھ کنٹنٹ ایڈیٹر بن کر ارریہ چلے گئے، وہاں انہوں نے ارریہ کے کھیت کھلیان میں کام کرنے والے مزدوروں، بیل گاڑی اور کشتی کے ذریعہ نقل و حمل کے مسائل پر فیچر اور کہانیاں بنائیں اور اقلیتوں کے مسائل پر فوکس کیا، وہاں کے خوابیدہ سیاسی رہنماؤں کو بیدار کیا، یہ کچھ انہیں کا حصہ تھا، کورونا کے دور میں بھی وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے، چنانچہ کورونا نے ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، رپورٹ پوزٹیو آئی، کیمپوں میں رہنا پڑا، لیکن کورونا کے جراثیم نے بھی سوچا کہ یہاں دال گلنے والی نہیں ہے، اکابر کی دعائیں بھی انہیں ملیں، چنانچہ انہوں نے کورونا کو مات دے دیا اور صحت یاب ہوکر واپس ہوئے۔ ارریہ کی ثقافتی جھلکیاں بھی عارف اقبال کی توجہ کا مرکز رہیں، انہوں نے وہاں کے مخصوص پکوان، طارق بن ثاقب کی خطاطی کو بھی ناظرین کے سامنے پیش کیا، تین سال میں ”ای ٹی وی بھارت اردو“کے ذریعہ عارف اقبال نے ارریہ کی طرف توجہ مبذول کرانے کا کام کیا اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب رہے، تین سال بعد واپسی ہوئی تو عارف اقبال وہاں کے صحافیوں میں سب سے محبوب و مقبول صحافی بن چکے تھے، الوداعیہ کی تقریب باوقار بھی تھی اور پررونق بھی، وہاں جو محبت انہیں ملی وہ مثالی تھی، آج بھی عارف اقبال وہاں کا تذکرہ کرتے ہوئے دور خلاؤں میں گم ہوجاتے ہیں، جیسے وہ کچھ تلاش رہے ہوں۔ماضی کی خوش گوار یادیں کب پیچھا چھوڑتی ہیں۔ ان کی محنت، لگن، کام کی طرف توجہ اور مسائل و معاملات پر گہری نظر کی وجہ سے ان کا تبادلہ ای ٹی وی بھارت کے ذمہ داروں نے پٹنہ کردیا، حیثیت وہی کنٹنٹ ایڈیٹر کی ہی رہی، پٹنہ بڑا شہر ہے یہاں صحافیوں کی بھرمار ہے، ان قدیم اور با اثر صحافیوں کے بیچ میں جہاں ان کے اساتذہ بھی موجود ہوں جگہ بنانا آسان نہیں تھا، پٹنہ میں مختلف چینلوں کے اینکر سے ان کا مقابلہ تھا، ایسے میں پٹنہ یونیورسیٹی میں صحافت کا کورس اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے الکٹرونک میڈیا کا کورس کام آیا، عارف اقبال نے پوری فنی مہارت اور کامل اعتماد کے ساتھ پٹنہ میں کام شروع کیا، مذہبی ادارے، اسلامی شخصیات، سیاسی قائدین، ملی تنظیموں، تاریخی عمارتوں کے بارے میں وہ لوگوں کو بتاتے رہے اور جلد ہی یہاں بھی وہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے، انہوں نے رپورٹنگ، منظر کشی، فیچر، کہانی ملکی اور ریاستی احوال و واقعات کو پورے اعتماد کے ساتھ لوگوں تک پہونچایا، عارف اقبال نے رپورٹنگ کیلئے ان میدانوں کا انتخاب کیا، جہاں تک دوسرے صحافیوں کی نظر نہیں گئی تھی۔ فنی اور صحافیانہ صلاحیت کے ساتھ ان کی خوش اخلاقی، مرنجا اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے ہنر نے بھی اپنا اثر دکھایا، ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی جو غیر مرئی اور کبھی کبھی مرئی لکیریں ہوتی ہیں وہ بھی گرویدہ بنانے میں بڑے کام آتی ہیں، عارف اقبال خوش دل اور خوش گوارموڈ کے آدمی ہیں، مسکرانا ہی نہیں، ہنسنا بھی خوب جانتے ہیں، ہنسنا ان کی ضرورت بھی ہے۔ جب فوٹو گرافر مردے کی تصویر کشی کے وقت بھی ”پلیز اسمائیل“ کہنا نہیں بھولتا تو اپنے چہرے پر ہنسی سجانے کو وہ کس طرح بھول سکتے ہیں۔
عارف اقبال نے نور اردو لائبریری حسن پورگنگھٹی، بکساما، ویشالی کی بھی عکس بندی کی، کہانی بنائی اور دور دیہات میں واقع ویشالی ضلع کی سب سے بڑی غیر سرکاری لائبریری کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کا کام کیا، یہ فکرمندی اور محنت، پیشہ وارانہ صحافت سے اوپر کی چیز ہے۔ عارف اقبال صحافت کو پیشہ نہیں، خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون گودی میڈیا کے دست برد سے کسی طرح باہر نکلے اور اپنا فرض منصبی ادا کرے۔
عارف اقبال کی انہیں خصوصیات اور جد و جہد بھری زندگی کو دیکھ کر میں انہیں چھوٹی عمر کا بڑا انسان اور بڑا صحافی سمجھتا ہوں، صحافت زندگی کا ایک گوشہ حصہ اور ہے۔ اس میں انسان جیسی جامعیت نہیں ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو سمیٹ لے۔ عارف اقبال اپنی تمام خوبیوں کے باوجود انسان ہی ہیں فرشتہ نہیں ان کے بارے میں جنید و شبلی کی طرح سوچنا ان کے اوپر زیادتی ہوگی البتہ وہ چھوٹی عمر کے بڑے انسان اور بڑے صحافی ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔